Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 26
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ
فَكُلِيْ : تو کھا وَاشْرَبِيْ : اور پی وَقَرِّيْ : اور ٹھنڈی کر عَيْنًا : آنکھیں فَاِمَّا تَرَيِنَّ : پھر اگر تو دیکھے مِنَ : سے الْبَشَرِ : آدمی اَحَدًا : کوئی فَقُوْلِيْٓ : تو کہدے اِنِّىْ نَذَرْتُ : میں نے نذر مانی ہے لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے صَوْمًا : روزہ فَلَنْ اُكَلِّمَ : پس میں ہرگز کلام نہ کرونگی الْيَوْمَ : آج اِنْسِيًّا : کسی آدمی
تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لیے روزے کی منت مانی ہے تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہ کروں گی
26۔ فکلی واشربی، ، اے مریم ! ان تر کھجوروں سے کھاؤ اور اس پانی کی نہر سے پیو۔ قری عینا، اس سے اپنے آپ کو خوش کر بعض نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر۔ جیسا کہ کہاجاتا ہے ، قر اللہ عینک، اللہ تیری آنکھ کو قرار دے۔ یعنی آنکھ کو صاف رکھے یا اللہ تیرے دل کو قرار دے خوش کرے اور خوش کن مناظردکھائے بعض نے کہا کہ تمہیں اللہ اس سے سلادے۔ کہاجاتا ہے کہ ، قر یقرا ذاسکن ، جب آنکھ سے خوشی کے آنسو نکلتے ہیں توٹھنڈے ہوتے ہیں اور اور غمی کے آنسو گرم ہوتے ہیں۔ بعض نے کہا اللہ نے ان کی آنکھ ٹھہرا دی یعنی سلادیا۔ فاماترین من البشر، احد، اس پر نون تاکید داخل ہوگیا تویاء کو کسرہ دے دیا۔ التقاء ساکنین کی وجہ سے ، فقولی، انی نذرت للرحمن صوما، اس سے مراد خاموش رہنا ہے۔ حضرت ابن مسعود عنہماکابیان ہے کہ صوم لغت میں مطلق رکنے کو کہتے ہیں کھانے پینے اور کلام سے۔ سدی کا قول ہے کہ بنی اسرائیل میں جو لوگ زیادہ مجاہدہ کرتے تھے وہ جس طرح روزہ میں کھانا نہیں کھاتے تھے کلام بھی کسی سے نہیں کرتے تھے شام تک خاموش رہتے تھے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو یہ بات اشارہ سے کہنے کا حکم دیا تھا بعض حضرات نے کہا زبان سے صرف اتنی ہی بات کہنے کا اللہ کی طرف سے حکم ہوگا تھا اس کے بعد خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ فلن اکلم الیوم انسیا، کہاجاتا ہے کہ حضرت مریم ملائکہ سے بات کرتی تھی انسان سے بات نہیں کرتی تھی۔
Top