Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 49
الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ هُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَخْشَوْنَ : وہ ڈرتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَيْبِ : بغیر دیکھے وَهُمْ : اور وہ مِّنَ : سے السَّاعَةِ : قیامت مُشْفِقُوْنَ : خوف کھاتے ہیں
ان متقیوں کے لیے جو اپنے پروردگار کی ہستی سے بغیر اسے دیکھے ہوئے ڈرتے رہتے ہیں اور آنے والی گھڑی کے تصور سے بھی لرزاں رہتے ہیں
نصیحت قبول کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ جو قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں : 49۔ قیامت کبری اور قیامت صغری دو نام ہیں لیکن حقیقت دونوں کی ایک ہی ہے قیامت کبری تو وہی ہے جو بہت سے ناموں سے قرآن کریم میں موسوم کی گئی ہے اور قیامت صغری موت کو کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس دنیوی زندگی کی موت آجانے کے بعد دوبارہ اس زندگی میں آنے کا کوئی تصور موجود نہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہے لہذا جو شخص اس دنیوی زندگی کے دن پورے کرکے یہاں سے رخصت ہوگیا گویا اس کو وہ قیامت ہی آگئی جس کو قیامت کبری کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اہل مذاہب میں یہ عقیدہ کسی نہ کسی نوع سے ہر جگہ موجود ہے اور اس کا مجمل تذکرہ تمام آسمانی کتابوں میں پایا جاتا ہے تورات میں بھی اس کے اشارے موجود ہیں اور زبور میں بھی اس کی تصریحات موجود ہیں اور اس کو ” عدالت کا دن “ کہا گیا ہے (زبور 9 : 16) اور انجیل میں فریسیوں کے تذکرہ میں اس کا تذکرہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ (انجیل مرقس 12 : 24) سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے صدوقیوں کے مقابلہ میں توریت کی ایک آیت سے حیات اخروی کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ (متی 22 : 21 ‘ 22) ‘ (مرقس 12 : 18) اور مکاشفات یوحنا میں بھی اس کی پوری تفصیل موجود ہے ۔ ہندو ” پرلے “ کے نام سے اس عقیدہ پر یقین رکھتے تھے اور قرآن کریم میں اور احادیث میں اس کی پوری پوری وضاحت پیش کردی گئی ہے جس کے بعد کسی طرح کی کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی ، قرآن کریم میں اس کا سب سے پہلا نام جو پہلی ہی سورت میں آیا ہے وہ (یوم الدین) ہے یعنی وہ عمومی جزاء اور ربانی عدالت کا دن ہوگا اور علاوہ ازیں اس کے بہت سے نام قرآن کریم میں جگہ جگہ آئے ہیں مثلا : (الساعہ) مقررہ وقت ‘ وہ گھڑی ‘ (الیوم الحق) سچادن ‘ (الیوم الموعود) موعودہ دن ‘ (الیوم الازفۃ) قریب آنے والی مصیبت کا دن ‘ (الیوم الاخر) پچھلا دن ‘ (الغاشیۃ) چھا جانے والی ‘ (الوقت المعلوم) مقررہ وقت ‘ (القارعۃ) کھڑ کھڑانے والی ‘ (الطامۃ الکبری) بڑی بھاری مصیبت ‘ (الحاقۃ) ضرور آنے والی گھڑی ‘ (النبا العظیم) بہت بڑی خبر ‘ (یوم عظیم) ایک بڑا دن ‘ (یوم البعث) دوبارہ جی اٹھنے کا دن (یوم التلاق) باہم ملنے کا دن ‘ (یوم الجمع) اکھٹے ہونے کا دن ‘ (یوم الحسرۃ) حسرت کا دن ‘ (یوم الفصل) فیصلہ کا دن ‘ (یوم القیامۃ) کھڑے ہونے کا دن ‘ (یوم معلوم) جانا ہوا دن ‘ (یوم عسیر) سخت دن ‘ (یوم عصیب) ” مشکل دن ‘ (یوم التناد) پکار کا دن ‘ (یوم الحساب) حساب کا دن ‘ (یوم الخروج) نکلنے کا دن ‘ (الوعد) وعدہ ‘ (امر اللہ) اللہ کا حکم (الواقعۃ) وقوع پذیر ‘ (الصاخۃ) بہرا کردینے والی ۔ یہ تو وہ نام ہیں جو اسم مفرد کے طور پر آتے ہیں یا صفت کی صورت میں ہیں ‘ علاوہ ازیں فقروں ‘ جملوں اور ترکیبوں کے ساتھ اس کے اور بھی بکثرت نام قرآن کریم میں آئے ہیں مثلا : (یوم ینفخ فی الصور) (الانعام ‘ النحل ‘ طہ) جس دن نرسنگھا پھونکا جائے گا ۔ (یوم ینفع الصادقین صدقھم) (المائدہ) جس دن سچوں کو ان کی سچائی کام دے گی ۔ (یوم لا ینفع مال ولا بنون) (الشعرائ) جس دن نہ مال کام آئے گا نہ اولاد۔ (یوم یعض الظالم علی یدیہ) (الفرقان) جس دن گناہگار اپنے دونوں ہاتھ چبائے گا ۔ (ویوم تشقق السمآئ) (الفرقان) جس دن آسمان پھٹ جائیں گے ۔ (ویوم یقوم الاشھاد) (مومن) جس دن گواہ کھڑے ہوں گے ۔ (ویوم نحشرمن کل امۃ فوجا) (النمل) جس دن ہم ہر قوم سے ایک گروہ کو اکٹھا کریں گے ۔ (یوم یقوم الناس لرب العلمین) (مطففین) جس دن لوگ جہان کے پروردگار کے لئے کھڑے ہوں گے ۔ (یوم یفرالمرء من اخیہ ، وامہ وابیہ ، وصاحبتہ وبنیہ) (عبس) جس دن آدمی اپنے بھائی اپنی ماں اور باپ اپنی بیوی اور بیٹوں سے بھاگے گا ۔ (یوم لا تجزی نفس عن نفس شیئا) (البقرہ) جس دن کوئی شخص کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ (یوم تشھد علیھم السنتھم) (النور) جس دن ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی ۔ (یوم لا تملک نفس لنفس شیئا) (الانفطار) جس دن کوئی دوسرے کے لئے کچھ بھلا نہ کرسکے گا ۔ (یوم لا یغنی مولی عن مولا شیئا) (الدخان) جس دن کوئی دوست کسی دوست کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا ۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے اور اوصاف اس ہولناک دن کے بیان کئے گئے ہیں جن سے اسی عظیم الشان دن میں انسان کی بیکسی ‘ عاجزی اور اپنے اعمال کے سوا کسی دوسری چیز سے کام آنے سے قطعی مایوسی ظاہر کی گئی ہے ان ناموں اور اوصاف کو اچھی طرح غور وفکر کے ساتھ پڑھ لینے سے کافی حد تک اس کے متعلق علم حاصل ہوجائے گا اور کتنے ہی پردے خود بخود چھٹ جائیں گے اور انسان کو متقی کے اوصاف سے ایک حد تک علم حاصل ہوگا ۔
Top