Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمان، ہم نے اسے قوت کے ساتھ بنایا اور بلاشبہ ہم یقینا وسعت والے ہیں۔
(1) والسمآء بنینھا باید : سورت کی ابتدا سے قیامت اور جزا و سزا کے حق ہونے کا بیان چلا آرہا ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی قسمیں کھائیں اور دوبارہ زندہ کرنے پر اپنے قادر ہونے کے بہت سے دلائل پیش فرمائے، جن میں آسمان و زمین کا خصوصاً ذکر فرمایا۔ درمیان میں رسول اللہ ﷺ کی تسلی اور کفار کو تنبیہ کیلئے قیامت اور پیغمبروں کو جھٹلانے والی اقوام کے انجام بدکا ذکر فرمایا۔ منکرین قیامت کا سب سے بڑا شبہ یہ ہے کہ مرنے اور بوسیدہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندگی کیسے ممکن ہے ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ اس شبہے کے رد کے لئے آسمان و زمین کا خاص طور پر ذکر فرماتے ہیں، کیونکہ انس ان کو نظر آنے والی مخلوقات میں یہ سب سے بڑے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس و لکن اکثر الناس لایعلمون) (المومن : 58) ”یقینا آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ یہاں آخرت کے حق میں تاریخی دلائل ذکر کرنے کے بعد دوبارہ پھر اس کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کئے جا رہے ہیں۔ قرآن مجید اسی طرح بات کو مختلف انداز سے پھیر پھیر کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ (2) ”اید“ ”ید“ کی جمع کے طور پر بھی آتا ہے جس کا معنی ہاتھ ہے اور اگر یہ معنی کیا جائے کہ ”ہم نے آسمان کو ہاتھوں کے ساتھ بنایا“ تو اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی، کیونکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں اور اس طرح ہیں جس طرح اس کی شان کے لائق ہے، ہم نہیں جانتے نہ جان سکتے ہیں کہ کیسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا :(ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی) (ص : 85)”تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لئے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ؟“ مگر یہاں ”باید“ (ادیشید“ (قوی ہونا) کا مصدر ہے اور معنی اس کا ”قوت“ ہے، تنوین اس میں تعظیم کی ہے اور (وایدنہ بروح القدس) (البقرہ : 253) (اور ہم نے اسے روح القدس کے ساتھ قوت بخشی) بھی اسی سے مشتق ہے۔ اس مقام پر ”بائید“ کا یہ معنی طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ترجمان القرآن ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذاکر عبدنا داؤد ذا الاید) (ص :18)”اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کر جو قوت والا تھا۔“ یعنی اتنا عظیم آسمان بنانا نفاق کام نہیں، یہ ہماری ہی قوت ہے جس کیساتھ ہم نے اسے اس وقت بنایا جب کچھ بھی نہیں تھا، تو ہم تمہیں دوبارہ کیوں نہیں بنا سکتے ؟ آسمان کے لئے ”خلقنا ھا“ کے بجائے ”بنینھا“ کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ دیکھنے میں وہ ایک خیمے کی مانند نظر آتا ہے، جس کے لئے لفظ ”بنائ“ استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر لفظ ”بنائ“ میں بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت بھی ہے کہ اتنے عظیم آسمان کو ستونوں کے بغیر بنانے والے کے متعلق تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ انسان ضعیف البنیان کو دوبارہ نہیں بنا سکے گا۔ پھر یہ کہنے کے بجائے کہ ”وبنینا السمائ“ (اور ہم نے آسمان کو بنایا) یہ فرمایا :(والسممآء بنینھا) (اور آسمان ہم نے اسے بنایا) اتنے سے لفظوں میں آسمان کا ذکر دو دفعہ فرما دیا۔ ایک لفظ ”السمآئ“ کے ساتھ اور دوسرا اس کی ضمیر ”ھا“ کے ساتھ، مقصد آسمان اور اس کی بناوٹ کی طرف اچھی طرح متوجہ کرنا ہے۔ (3) وانا لموسعون :”موسع“”اوسع یوسع“ (افعال) سے اسم فاعل ہے، جب کوئی وسعت والا ہو، جیسا کہ فرمایا :(علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) (البقرہ : 236)”وسعت والے پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطاق ہے۔“ وسعت کا لفظ قدرت اور فراخی دونوں معنوں کیلئے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ”واسع“ بھی ہے، فرمایا :(ان اللہ واسع علیم) (البقر 1: 115)”بیشک اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی وسعت کی کوئی حد نہیں، اس کا وجود، حیات، علم ، قدرت ، حکمت وغیرہ سب لامحدود ہیں۔ ”انا لموسعون“”ان“ اور ”لام“ (تاکید کے دو حرفوں) کے ساتھ اس لئے فرمایا کہ قیامت کا منکر دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت و وسعت کا منکر ہے اور بلاغت کا قاعدہ ہے کہ مخاطب جس قدر کسی بات کا منکر ہو اتنی ہی زیادہ تاکید کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔ (4) ”اوسع یوسع“ کا ایک معنی وسیع کرنا بھی ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ”آسمان، ہم نے اسے بنایا اور یقینا ہم وسیع کرنے والے ہیں۔“ مفسر کیلاین لکھتے ہیں :”کائنات میں بیشمار چیزیں ایسیہیں جن میں آج تک تخلیق اور توسیع کا عمل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ (بلکہ ہر چیز کا یہی حال ہے) سب سے پہلے انسان ہی کو لیجیے، اس کی نسل بڑھ ریہ ہے، تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی کائنات کا شاہکار ہے۔ پھر زمین کی پیداوار بیھ اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے بڑھات جا رہے ہیں۔ اس آیت میں بالخصوص آسمان کا ذکر ہے، تو آسمان کی پیدائش کا بھی یہی حال ہے، آسمان میں لاتعداد مجمع الجوم اور کہکشائیں ہئیت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ہئیت دان جو جوں پہلے سے زیادہ طاقت ور اور جدیدق سم کی دور بینیں ایجاد کر رہے ہیں تو توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں ہر آن مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔“
Top