Tafseer-e-Baghwi - Adh-Dhaariyat : 47
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ١ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ ۔ مَنَعَ : سے جو۔ روکا مَسَاجِدَ : مسجدیں اللہِ : اللہ اَنْ : کہ يُذْکَرَ : ذکر کیا جائے فِیْهَا : اس میں اسْمُهُ : اس کا نام وَسَعٰى : اور کوشش کی فِیْ : میں خَرَابِهَا : اس کی ویرانی اُولٰئِکَ : یہ لوگ مَا کَانَ : نہ تھا لَهُمْ : ان کے لئے اَنْ ۔ يَدْخُلُوْهَا : کہ۔ وہاں داخل ہوتے اِلَّا : مگر خَائِفِیْنَ : ڈرتے ہوئے لَهُمْ : ان کے لئے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ عَظِیْمٌ : بڑا عذاب
اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی مسجدوں میں خدا کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ؟ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے
(تفسیر) 114۔: (آیت)” ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر “ یہ ؤیت ططوس بن اسبیبانوس رومی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ اس طرح کہ انہوں نے بنو اسرائیل سے لڑائی لڑی ، ان کے جوانوں کو قتل کیا ، بچوں کو قید کیا اور تورات کو جلا دیا اور بیت المقدس کو خراب کیا اور اس میں مردار پھینکے اور اس میں خنزیر ذبح کیے ، یہ بیت المقدس خراب رہا یہاں تک کہ مسلمانوں نے حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اسے آباد کیا ، حضرت قتادہ ؓ اور علامہ سدی (رح) فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کو خراب کرنے والا بخت نصر اور اس کے ساتھی تھے اور یہود سے لڑے اور بیت المقدس کو خراب کیا اور اس سلسلہ میں نصاری نے ططوس رومی اور اس کے رومی ساتھیوں کی مدد کی ۔ سدی (رح) کہتے ہیں اس وجہ سے کہ انہوں نے یحیٰ بن زکریا کو قتل کیا ، حضرت قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ ان کو بعض یہودیوں نے مجوسی بخت نصر بابلی کی مدد پر ابھارا ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا (آیت)” ومن اظلم “ یعنی بڑا کافر (آیت)” ممن منع مساجد اللہ “ اس سے مراد بیت المقدس اور اس کے محراب (اس بات سے منع کیا) کہ ذکر کیا جائے (آیت)” فیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الا خائفین “ اور یہ اس طرح کہ بیت المقدس عیسائیوں کے حج کی جگہ اور زیارت گاہ ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں اس کی آبادی کے بعد کوئی رومی (عیسائی) داخل نہ ہوگا مگر ڈرتے ہوئے اگر اس کا علم ہوجائے تو قتل کردیا جائے ، حضرت قتادہ (رح) اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں کوئی نصرانی داخل نہ ہوگا مگر یہ کہ شکل و صورت بدل کر اگر اس پر قدرت حاصل کرلی جائے تو سزا دی جائے ، حضرت سدی (رح) فرماتے ہیں وہ جزیہ کے ساتھ خوفزدہ کیے جائیں اور کہا گیا ہے کہ یہ خبر بمعنی امر ہے یعنی جہاد کے ذریعے انہیں دور بھگائے رکھو حتی کہ ان میں سے کوئی بھی اس میں داخل نہ ہو مگر یہ قتل ہونے اور قید ہوجانے کا خوف رکھتے ہوئے ، یعنی ان کے لیے مناسب اور لائق نہیں (مسجد میں داخل ہونا) (آیت)” لھم فی الدنیا خزی “ عذاب سے ذلت ہے حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد حربی کافر کا قتل اور ذمی کافر سے جزیہ لینا ہے حضرت مقاتل (رح) اور کلبی (رح) کہتے ہیں کہ ان کے تین (بڑے) شہر فتح کیے جائیں گے ، قسطنطنیہ ، رومیہ ، عموریہ (آیت)” ولھم فی الاخرہ عذاب عظیم “ اور وہ آگ ہے ۔
Top