Tafseer-e-Baghwi - Ash-Shu'araa : 4
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِیْنَ
اِنْ نَّشَاْ : اگر ہم چاہیں نُنَزِّلْ : ہم اتار دیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے اٰيَةً : کوئی نشانی فَظَلَّتْ : تو ہوجائیں اَعْنَاقُهُمْ : ان کی گردنیں لَهَا : اس کے آگے خٰضِعِيْنَ : پست
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے نشانی اتار دیں پھر ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں
4۔ ان نشاء ننزل علیھم، ،، ، قتادہ کا قول ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو کوئی ایسی نشانی نازل کردیتاتو پھر کوئی بھی نافرمانی سے گردن نہ موڑتا۔ خاضعین کی تفسیر۔ ابن جریج نے کہا آیت کا معنی ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو کوئی ایسا امر نازل کردیتا پھر کوئی بھی نافرمانی سے گردن نہ موڑتا۔ خاضعین، ارشاد فرمایا، خاضعۃ، نہیں فرمایا، کیونکہ یہ اعناق کی صفت ہے۔ اس صورت میں ، خاضعین ، نہیں ہونا چاہیے تھا، خاضعۃ ، ہونا چاہیے تھا۔ (1) ۔ اسکا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے۔ اصل میں اصحاب الاعناق تھا، مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا کیونکہ گردنیں جب جھک جاتی ہیں توگردنوں والے خود ہی فرماں بردار اور عاجز ہوجاتے ہیں۔ (2) اخفش کا قول ہے کہ خاضعین کا تعلق اعناقھم کی ضمر جمع مذکر (ھم) سے ہے اعناق سے نہیں۔ (3) بعض حضرات نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب مونث کی اضافت مذکر کی طرف کرتے ہیں تومونث کو بھی ذکر کرتے ہیں تومونث کو بھی مذکر مان لیت ہیں اور مذکر کی اضافت مونث کی طرف کرتے ہیں تو اس میں مذکر کو بھی مونث مان لیتے ہیں۔ (4) ۔ بعض کا قول ہے کہ عنق بول کر پورا جسم مراد ہے جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے جیسا کہ اس فرمان میں ہے ، ذالک بماقدمت یداک، یہاں پر ہاتھوں سے مراد پوری شخصیت ہے ، الزمناہ طائرہ فی عنقہ، عنق سے مراد پوراشخص ہے۔ (5) ۔ مجاہدکاقول ہے کہ اعناق سے مراد ہیں بڑے بڑے سردار یعنی بڑے بڑے سردار اس آیت کے سامنے تابعدار ہوجاتے ہیں۔ (6) بعض حضرات نے کہا کہ اعناق سے مراد جماعتیں ہیں جیسے کہ عرب کہتے ہیں ، جاء القوم عنقا، عنقا، وہ لوگ جوق درجوق ٹکڑیاں بناکرآئے۔ (7) ۔ بعض نے کہا کہ لفظی رعایت کی بناء پر ایسا کہا گیا۔
Top