Tafseer-e-Baghwi - An-Naml : 11
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظَلَمَ : ظلم کیا ثُمَّ بَدَّلَ : پھر اس نے بدل ڈالا حُسْنًۢا : بھلائی بَعْدَ : بعد سُوْٓءٍ : برائی فَاِنِّىْ : تو بیشک میں غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
ہاں جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا تو میں بخشنے والا مہربان ہوں
تفسیر۔ الامن ظلم کے استثناء میں ائمہ کرام کی آرائ۔ تفسیر۔ 11۔ الامن ظلم ثم بدل، ،، ، اس استثناء میں آئمہ کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے کہا یہ حضرت (علیہ السلام) کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب ان سے قبطی قتل ہوگیا، اس سے وہ خوف زدہ ہوگئے۔ اور فورا توبہ کرلی اور فرمایا رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی، اللہ نے ان کو معاف کردیا۔ ابن جریج کا قول ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو کہا کہ میں نے تجھے ایک نفس کے قتل کرنے کے بعد تجھے بچایا۔ اب اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انبیاء کرام گناہ پہنچ جانے سے یا گناہ سرزد ہوجانے سے اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی لغزش ہو بھی جائے تو وہ توبہ کرلیتے ہیں۔ اس تاویل کی صورت میں استثناء صحیح ہوگا۔ الامن ظلم، کلام پر ختم ہوگیا پھر اس کے بعد کلام کی ابتداء کی تقدیری عبارت یوں ہوگی، فمن ظلم ثم بدل حسنا بعد، ،، جس سے لغزش سرزد ہوگئی پھر اس کی لغزش کے بعد نیکی والاکام کردیا ار اس نے توبہ کرلی کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرنے والا ہے اللہ غفور رحیم ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ استثناء مرسلین سے نہیں کیونکہ انبیاء کرام (علیہم السلام) سے لغزش کا صدور جائز نہیں بلکہ یہ استثناء کلام سے متروک ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ میرے بھیجے ہوئے کسی سے نہیں ڈرتے بلکہ خوف زدہ اور ڈر توغیرانبیاء کو ہوتا ہے جو اپنے اوپرظلم کرتے ہیں پھر توبہ کرتے ہٰں توای سے لوگ اللہ کے سوادوسروں سے بھی ڈرتے ہیں۔ بعض نحویین کے نزدیک، الا ، یہاں پر، ھھنا کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب ی ہے کہ میرے پاس پہنچ کر نہ تو پیغمبر خوف کرتے ہیں اور نہ صلحاء و مومنین جو پیغمبر نہیں اور ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو وہ و توبہ کرلیتے ہیں۔ اور اپنے اعمال کو درست کرلیتے ہیں وہ بھ بےگناہ کی طرح ہوجاتے ہیں ان کو بھی کوئی خوف نہیں ہوتا۔ لئلا یکون للناس علیکم حجۃ، یعنی وہ ظالم نہیں پھر اللہ نے دوسری نشانی دکھائی۔
Top