Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 121
اُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١٘ وَ لَا یَجِدُوْنَ عَنْهَا مَحِیْصًا
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ مَاْوٰىھُمْ : جن کا ٹھکانا جَهَنَّمُ : جہنم وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہ پائیں گے عَنْھَا : اس سے مَحِيْصًا : بھاگنے کی جگہ
اِن لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے
[ اُولٰٓئِکَ : یہ لوگ ہیں ] [ مَاْوٰٹہُمْ : جن کا ٹھکانہ ] [ جَہَنَّمُ : جہنم ہے ] [ وَلاَ یَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پائیں گے ] [ عَنْہَا : اس سے ] [ مَحِیْصًا : کوئی بچنے کی جگہ ] ح ی ص حَاصَ یَحِیْصُ (ض) حَیْصًا : کسی چیز سے بچنا ‘ ہٹنا۔ مَحِیْصٌ (اسم الظرف) : بچنے کی جگہ۔ آیت زیر مطالعہ۔ نوٹ : آیت میں جس ردوبدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے اللہ نے اسے پیدا نہیں کیا ہے ‘ اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے ‘ اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے ‘ اس آیت کی رو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً رہبانیت ‘ مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا ‘ عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدن کے ان شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بیشمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کر رہے ہیں ‘ دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالق کائنات کے ٹھہرائے ہوئے قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن)
Top