Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 29
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا١ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب قَضٰى : پوری کردی مُوْسَى : موسیٰ الْاَجَلَ : مدت وَسَارَ : اور چلا وہ بِاَهْلِهٖٓ : ساتھ اپنے گھروالی اٰنَسَ : اس نے دیکھی مِنْ : سے جَانِبِ : طرف الطُّوْرِ : کوہ طور نَارًا : ایک آگ قَالَ : اس نے کہا لِاَهْلِهِ : اپنے گھر والوں سے امْكُثُوْٓا : تم ٹھہرو اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ : بیشک میں نے دیکھی نَارًا : آگ لَّعَلِّيْٓ : شاید میں اٰتِيْكُمْ : میں لاؤں تمہارے لیے مِّنْهَا : اس سے بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ جَذْوَةٍ : یا چنگاری مِّنَ النَّارِ : آگ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : آگ تاپو
پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری کی مدت اور لے کر چلے اپنے اہل کو تو انہوں نے دیکھا طور کے کنارے پر آگ کو ، اور کہا اپنے گھر والوں سے کہ تم ٹھہر جائو میں نے آگ دیکھی ہے ، شاید میں لائوں تمہارے پاس وہاں سے کوئی خبر یا کوئی انگارہ سلگا کرتا کہ تم آگ سینک سکو
ربط آیات یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کا ذکر ہو رہا ہے ۔ جب آپ شعیب (علیہ السلام) کے گھر پہنچے تو آپ کو اطمینان حاصل ہوا کہ فرعونیوں کے مظالم سے بچ گئے ہیں ۔ شعیب (علیہ السلام) کی دو بیٹیوں میں سے ایک نے اپنے باپ کو مشورہ دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نوکر رکھ لیا جائے ۔ یہ شخص بڑا طاقتور اور امانتدار ہے ۔ شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پیش کش کی میں دو میں سے ایک بیٹی کا نکاح تمہارے ساتھ کر دوں گا ۔ بشرطیکہ تم کم از کم آٹھ سال میرے یہاں نوکری کرو۔ تم دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری منشاء پر منحصرہو گا اور میری طرف سے کوئی اصرار نہیں ہوگا ، البتہ میں تمہارے ساتھ انشاء اللہ اچھا سلوک کروں گا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کش قبول کرلی اور آپ وہیں رہنے لگے۔ بکریاں چراتے اور دوسرا ضروری کام انجام دیتے ۔ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں رہتے ہوئے آٹھ اور پھر دس سال بھی گزر گئے اور ان کی ملازمت کی اضافی مدت بھی پوری ہوگئی۔ شعیب (علیہ السلام) نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح بھی کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی مراجعت اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے فلمافضی موسیٰ الاجل جب موسیٰ (علیہ السلام) مقررہ مدت پوری کرچکے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ دو مدتوں میں سے لمبی مدت دس سال کی تھی ۔ بعض روایات 2 ؎ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خسر سے ذکر کیا کہ وہ اپنی والدہ اور بھائی کو ملنے 1 ؎۔ السراج المنیرص 179 ج 3 و زلوالمیر ص 712 ج 6 ۔ 2 ؎۔ روح البیان ص 004 ج 6 ( فیاض) کے بڑے خواہش مند ہیں ، اگر اجازت ہو تو وہ اس مقصد کے لیے مصر کا سفر اختیار کریں ۔ خسر نے نہ صرف آپ کو اجازت دے دی بلکہ آپ کی بیوی کو بھی ہمراہ جانے کی اجازت دے دی ، چناچہ واقعات کے تسلسل میں ارشاد ہوتا ہے کہ جب مدت پوری ہوگئی وسان باھلہ تو موسیٰ (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوگئے ۔ مفسرین کرام 1 ؎ فرماتے ہیں کہ شعیب (علیہ السلام) نے چلتے وقت کچھ بھیڑ بکریاں اور کچھ دوسرا مال بھی بیٹی کو ساتھ دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک خادم اور بعض بچوں کا ذکر بھی آتا ہے۔ میاں بیوی کی یکجا رہائش اس واقعہ سے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو اپنے ساتھ کسی دور دراز جگہ حتیٰ وغیرملک میں بھی لے جانا چاہے تو وہ لے جاسکتا ہے۔ لڑکی کے والدین کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ ہماری شریعت کا بھی یہی قانون ہے۔ بعض لوگ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بیٹی کو خاوند کے ہمراہ بھیجنے پر طلاق لینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ بالکل غلط بات ہے ، نکاح کے وقت اس قسم کی شرط لگانا کہ ہم بیٹی کو کسی دوسرے شہر یا ملک میں نہیں جانے دیں گے۔ درست نہیں ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ نکاح کی شرائط میں سے صرف جائز شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے جو شریعت کے مطابق ہوں ۔ کسی خلاف شرع شرط کی پابندی لازمی نہیں ۔ مثال کے طور پر شرعی شرائط میں بیوی کو آرام و سکون سے رکھنا ۔ اس کے نان و نفقہ کا بندوست کرنا ، مطلوب ہو تو جیب خرچ دینا ۔ اس کے ساتھ اچھ سلوک کرنا وغیرہ شامل ہیں جن کی تکمیل ضروری ہے اور اگر کوئی شخص یہ شرط لگائے کہ سفر کے دوران بیوی اپنے خاوند کے ہمراہ نہیں جائے گی ۔ تو یہ ناجائز ہے ، اسی طرح بعض لوگ یہ شرط بھی عائد کرتے ہیں کہ حالات کا کیسا بھی تقاضا ہوخاوند دوسری شادی نہیں کریگا وغیرہ وغیرہ ۔ ایسی شرائط باطل ہیں اور شریعت انہیں تسلیم نہیں کرتی نہ ان کی مکمل ضرور ی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے اہل و عیال ، حادم اور بھیڑ بکریوں کے ہمراہ اپنے سفر پر 1 ؎۔ تفسیر جمل ص 643 ج 3 ( فیاض) روانہ ہوگئے۔ راستے میں کوہ طور پڑتا تھا۔ اس کی وادی صحرائیس سینا کے اطراف میں ہے موسیٰ (علیہ السلام) اس وادی سے گزر رہے تھے ۔ رات کا وقت اور سردی کا موسم تھا ، بیوی کو کچھ تکلیف بھی تھی اس لیے ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس زمانے میں مسافر لوگ حقماق کا پتھر سفر میں پاس رکھتے تھے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے گھاس پھونس اکٹھا کرنے آگ جلانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے اتنے میں آپ نے نس من جانب تصور نار دور سے آگ جلتی ہوئی دیکھی تو فان لا ھلہ اپنی بیوی سے فرمایا ۔ امکشوانی نست نار تم یہیں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے لعلی نیکم منھا بخبر شاید کہ میں تمہارے لیے وہاں سے خبر لائوں ۔ راستہ بھی ٹھیک سے معلوم نہیں تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ شاید آگ پر کوئی راستہ بتانے والا آدمی بھی مل جائے ۔ فرمایا وجروۃ من لنار یا میں آگ کا کوئی انگار ہی سلگا کرلے آئوں ، لعلکم تصطفون تا کہ تم آگ سیک کر سکون پکڑ سکو ۔ مقدس وادی میں ……… فلما متھا جب آپ اس آگ کے قریب پہنچے نوری من شاطی الودی الایمن فی نبقعہ نمبرکۃ من شجرۃ تو آپ کو آواز دی گئی وادی کی دائیں طرف کے مبارک خطے میں ایک درخت ہے ۔ ہو سکتا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پہاڑ کی جس سمت میں سفر کر رہے تھے ، وہاں سے وہ مقدس وادی دائیں طرپڑتی ہو۔ اس لیے ایسا ہی ذکر کیا ہے ، یہ وادی مقدس اس لیے تھی کہ وہاں پر خدا تعالیٰ کی تجلیات کا نزول ہو رہا تھا۔ چناچہ سورة طہٰ میں موجود ہے کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا اے موسیٰ اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَج اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی (آیت : 21) میں تیرا پروردگار ہوں ۔ اپنے جوتے اتار دو کہ اب تم ایک مقدس وادی ثوی میں ہو۔ عام مساجد بھی چونکہ مقدس مقامات میں ہیں اس لیے ہاں بھی جوتے اتار کر جانے کا حکم ہے۔ بیت اللہ شریف پر ہر وقت تجلیات الٰہی کا ظہورہوتا رہتا ہے ، اس لیے وہاں بھی جوتا اتار کر اور باادب ہو کر جانا چاہئے ، اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان کے پائوں اس مقدس خطے کے ساتھ مس کریں اور اسے فیض حاصل ہو ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اس پاک خطے میں پہنچے تو وہاں سے آواز آئی ان یموسی انی انا اللہ رب العلمین اے موسیٰ ! میں تمام جہانوں کا پروردگار ، اللہ ہوں۔ دو معجزات موسیٰ (علیہ السلام) اس مقام پر گئے تو کوئی خبر معلوم کرنے یا آگ لینے کے لیے تھے مگر وہاں کچھ اور ہی معاملہ پیش آ گیا۔ سورة طہٰ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ابتدائی تعارف کرانے کے بعد فرمایا وَاَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی ( آیت : 31) میں نے تجھے رسالت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ پس سنو جو کچھ آپکی طرف وحی کی جاتی ہے ۔ اور اب تمہیں میرا پیغام لے کر فرعون کے پاس جانا ہوگا ۔ اور اس سے دو باتیں کرنی ہوں گی ۔ ایک یہ کہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور دوسری یہ کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے ہمارے ساتھ بھیج دے جیسا کہ سورة الشعراء میں موجود ہے اس مقام پر فرمایا وان الق عصاک کہ موسیٰ (علیہ السلام) ! اپنی لاٹھ زمین پر ڈال د و ۔ یہ معجزے کا اظہارہو رہا ہے پہلے اپنی ربوبیت کا تعارف کرایا ۔ پھر معجزے کا اظہار کیا ۔ حسب الحکم موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی پھینک دی فلما راھا تھتز پھر جب اس کو دیکھا تو وہ حرکت کر رہی تھی کانھا جان گویا کہ وہ ایک سانپ ہے۔ یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) گھبرا گئے ولی مدبراً ولم یعقب پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ، مگر اللہ نے فرمایا یموسیٰ اقبل ولا تخف اے موسیٰ ! آگے آئو اور ڈرو نہیں ۔ انک من الامنین بیشک تم امن والوں میں سے ہو ، تمہیں کوئی خطرہ نہیں ۔ مفسرین 1 ؎ بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ لاٹھی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین سے روانگی کے وقت دی تھی کہ راستے میں تمہارے کام آئیگی اس سے بکریوں کو ہانک لیا کرنا اور درختوں سے پتے جھاڑ کر ان کی خوراک کا بندوبست کرلیا کرنا۔ بعض 2 ؎ کہتے ہیں کہ شعیب (علیہ السلام) کی یہ لاٹھی اصل میں آدم (علیہ السلام) کی تھی جو آپ تک منزل منزل انبیاء کی وساطت سے پہنچی ۔ اور پھر آپ نے وہ 1 ؎؎۔ السراج المنیزص 59 ج 3۔ 2 ؎۔ ابو سعود ص 4 ج 4 و خازن ص 171 ج 5 ( فیاض) موسیٰ (علیہ السلام) کو دیدی ۔ یہ تفسیری روایات میں آتا ہے ، کوئی یقینی بات نہیں ہے۔ بہر حال ایک معجزہ تو یہ ہوگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی نے سانپ کا روپ دھار لیا ، اور اللہ نے دوسرا حکم یہ دیا اسلک یدک فی حبیبک اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو تخرج بیضاء من غیر سوء یہ نکلے گا بالکل سفید بغیر کسی تکلیف یا بیماری کے ، مطلب یہ کہ سفیدی کسی بیماری از قسم پھلہبری کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ تمہارا ہاتھ معجزانہ طور پر سورج کی طرف چمکدار اور نورانی ہوجائے گا ۔ فرعون کے پاس جانے کا حکم موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں ابھی تک خوف تھا۔ لاٹھی کا سانپ بن جانا ان کے لیے بڑا ہی عجیب معاملہ تھا ، نیز وہ فرعون کے پاس جانے سے بھی خوفزدہ تھے اسی طرح ہاتھ کی سفیدی بھی ان کے لیے خوف کا ذریعہ بنی ہوئی تھی ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا واضمم الیک جناحک من الرھب جب آپ ان چیزوں کا خوف محسوس کریں تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لیں اور انہیں کھلا نہ چھوڑیں ، آپ کی خوفزدگی فوراً دورہو کر دل میں تقویت پیدا ہوجائے گی ۔ فرمایا فذنک برھا نن من ربک الی فرعون وملائ کہ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف اپنے رب کی یہ دو نشانیاں ( عصا اور یدبیضا) لے کر فرعون کے پا س جائو ۔ انھم کانوا قوما فسقین بےحساب وہ نافرمان لوگ ہیں ۔ سورة طہٰ میں ہے اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی (آیت : 42) فرعون کے پاس جائو ، وہ بڑا سر کش ہوچکا ہے ۔ ویسے تو ساری قوم ہی متکبر تھی مگر فرعون سے سب سے بڑھا ہوا تھا۔ کہتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کون سے الٰہ کی بات کرتا ہے ، میرے سوا اور کون الٰہ ہے میری سلطنت میں نہریں چلتی ہیں ڈیم بنے ہوئے ہیں ۔ فصلیں با افراط ہیں ، ہر چیز کی فروانی ہے جس کو چاہوں زندہ رکھوں اور جس کو چاہوں ختم کر دوں ، سب کچھ میرے اختیار میں ہے ۔ میرے سوا یہ کس خدا سے ہمیں ڈراتے ہیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کا عذر فرعون کی طرف ، جانے کا حکم پا کر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں اس راستے میں آنے والی بعض مشکلات کا ذکر کیا ۔ قال رب انی قلت منھم نفساً کہنے لگے پروردگار ! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کردیا تھا اور پھر گرفتارہونے کے خوف سے بھاگ کر مدین چلا گیا تھا۔ اگر اب پھر میں فرعون کے پاس جائوں گا فلخاف ان یقتلون تو مجھے خطرہ ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے ۔ میں نے اس شخص کو ارادتا ً تو قتل نہیں کیا تھا بلکہ محض ایک مظلوم کی مدد کے لیے آگے بڑھا تھا مگر ایک گھونسے میں ہی اس شخص کا کام تمام ہوگیا اب فرعونی مجھے چھوڑیں گے نہیں۔ ہارون (علیہ السلام) کی شراکت اور دوسری بات موسیٰ (علیہ السلام) نے سفارش کے انداز میں کی کہ اگر مجھے ضرور ہی فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس جانا ہے تو پھر واخی ھرون ھو افصح منی لسانا ً تو پھر میرا بھائی ہارون زبان کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔ میری زبان میں تو قدرے لکنت ہے مگر وہ اپنا ما فی الضمیر بہتر طریقے سے بیان کرسکتا ہے فارسلہ معی ردا پس اسے میرے ساتھ معاون کے طور پر بھیج دے۔ یصدقنی جو میر ی تصدیق کرے کہ واقعی ہم اللہ کے پیغمبر ہیں اور تمہیں صراط مستقیم کی دعوت دینے کے لیے مامور من اللہ ہیں ۔ سورة طہٰ میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ واشر کہ فی امری ( آیت : 23) ہارون (علیہ السلام) کو میرے نبوت کے کام میں شریک کر دے۔ انی اخاف ان یکذبون میں خوف کھاتا ہوں کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے اللہ نے آپ کی یہ ساری دعا قبول فرمائی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان کی لکنت بھی دور ہوگئی۔ ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا کر کے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بطور معاون بھیج دیا۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے قال سنشد عضدک یا خیک اللہ نے فرمایا ہم تمہارے بھائی کے ساتھ تمہارے بازو کو مضبوط کریں گے ۔ یعنی اسے بھی رسول بنا کر تمہاری تائید کے لیے بھیجیں گے۔ ویسے دنیا کا عام دستور بھی یہی ہے کہ کسی کے بھائی اس کے دست وبازو ہوتے ہیں ۔ بھائیوں سے انسان کو بڑی توقعات وابستی ہوتی ہیں اور وہ دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں ۔ یہ تو اللہ کا بڑا احسان تھا کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر ان کے ہمراہ بھیجا۔ تسلی کا مضمون اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی بھی دی ونجعل لکما سلطاناً ہم تم دونوں بھائیوں کو غلطہ عطا کریں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا فلا یصلون الیکما کہ فرعون اور اس کے حواری اور دیگر مخالفین تم دونوں تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ خدا تعالیٰ ایسا انتظام فرمائے گا کہ فرعونی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی اور اسکا فضل تھا کہ حکمرانوں سمیت ساری مستبد قوم کے سامنے یہ دو آدمی دھڑلے کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے مگر کسی کو ان کے خلاف ہاتھ بڑھانے کی جرأت ہ ہوئی بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ کر فرعون اور اس کے حواریوں کے اوسان خطا ہوجاتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسارعب ڈال دیا تھا۔ حضور ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو آپ کے ارد گرد کافروں ، یہودیوں اور منافقوں کا حصار تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے دل میں خیال آیا کہ حضور ﷺ اکیلے میں ہیں کیونکہ نہ ان کی حفاظت کے لیے پہرہ دوں ۔ چناچہ آپ ہتھیار پہن کر آپ کے پاس حاضر ہوئے اور مدعا عرض کیا ۔ ادھر سورة المائدہ میں اللہ کا پیغام آ گیا یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ…وَ اللہ ُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (آیت : 76) اے اللہ کے رسول ! آپ اپنا تبلیغی مشن جاری رکھیں ، اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی حفاظت کریگا ۔ نزول آیت کے بعد حضور ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے اور حضرت سعد ؓ سے فرمایا کہ تم پہرہ ہٹا دو ، اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا خود ذمہ اٹھا لیا ہے۔ چناچہ آپ واپس اپنے گھر چلے گئے ، یاد رہے کہ ایسا معاملہ صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے ، مسلمان مبلغین اس زمرہ میں نہیں آتے۔ فرعون سے حفاظت کی ضمانت اللہ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) چالیس سال سے زیادہ عرصہ فرعونیوں کے درمیان رہ کر حق تبلیغ ادا کرتے رہے۔ مگر اللہ نے ان کی جانوں کی حفاظت فرمائی ۔ درمیان میں بڑی بڑی تکالیف بھی آئیں حتیٰ کہ ایک موقع پر اسرائیلیوں نے شکایت پیش کی کہ اے موسیٰ ! تمہاری مدین سے واپسی کے بعد بھی ہماری تکلیفوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے ۔ ہم پہلے بھی فرعون کے ظلم کا شکار تھے اور اب بھی ہم پر مصیبتیں ہی نازل ہو رہی ہیں ۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا اسْتَعِیْنُوْا بِ اللہ ِ وَاصْبِرُوْاج اِنَّ الْاَرْضَ ِ اللہ ِقف یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (الاعراف : 821) اللہ سے مددطلب کرو ، اور صبر کرو ، بیشک ساری زمین کا مالک اللہ ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے ، اور بہتر انجام متقیوں کا ہی ہوگا۔ تم گھبرائو نہیں ، یہی شکایت حضرت ارت ؓ نے حضور ﷺ سے بھی کی تھی ۔ عرض کیا ، کفار بڑی تکلیفیں پہنچا رہے ہیں آپ نے فرمایا ، صبر کرو ، تم ابھی سے گھبرا گئے ہو ، پہلی امتوں کے لوگوں کے سروں پر آرے رکھ کر ان کو دو ٹکڑے کردیا گیا اور انہوں نے برداشت کیا مگر تم کافروں کی بد سلوکی سے ابھی سے گھبرا گئے ہو ۔ بالآخر اللہ تعالیٰ تمہیں ہی غالب بنائے گا ۔ مگر آزمائشیں از قسم مال کا ضیاع ، افرادی قوت میں کمی ، اور فصلوں کا نقصان وغیرہ ضرور آئینگی مگر کامیابی اسی کو حاصل ہوتی ہے جو آخر دم تک صراط مستقیم پر قائم رہتا ہے۔ بہر حال اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا بایتنا ہماری یہ دو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس جائو انتما ومن اتبعکما الغلبون تم دونوں اور تمہارے پیرو کار ہی غالب ہوں گے پھر جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے ، کامیابی اہل ایمان کے حصے میں ہی آئی ، اور فرعون اور اس کے سارے حواری بحر قلزم میں غرق کردیئے گئے۔
Top