Tafseer-e-Baghwi - Al-Ahzaab : 8
لِّیَسْئَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِهِمْ١ۚ وَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا۠   ۧ
لِّيَسْئَلَ : تاکہ وہ سوال کرے الصّٰدِقِيْنَ : سچے عَنْ : سے صِدْقِهِمْ ۚ : ان کی سچائی وَاَعَدَّ : اور اس نے تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
تاکہ سچ کہنے والوں سے انکی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور اس نے کافروں کے لئے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے
8، لیسال الصادقین عن صدقھم، ایسا کرنے کی غرض یہ تھی کہ انبیاء صادقین سے دریافت کیا جائے گا کہ تم نے اپنی اپنی امتوں سے کیا کہا تھا یا کافروں کو ذلیل کرنے اور لا جواب بنانے کے لیے کافروں سے دریافت کیا جائے گا کہ تم نے انبیاء کی تصدیق کی تھی یا انبیاء کی تصدیق کرنے والوں سے ان کی تصدیق کے متعلق پوچھا جائے گا کیوں کہ سچے کی تصدیق کرنے والا بھی سچا ہوتا ہے یا ان مؤمنوں سے جنہوں نے اپنے وعدوں کو سچ کردکھایا تھا ، ان کے صدق کی باز پرس ہوگی یہاں تک کہ ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا جائے گا ۔ بعض نے کہا کہ ان کی سچائی کے متعلق سوال کرے ان کے عمل کے بارے میں ۔ بعض نے کہا کہ صادقین سے سوال کرے ان کے سامنے ان کو دلوں کی سچائی کے بارے میں ۔ ، واعدللکافرین عذابا الیما، ، یایھا الذین امنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم ، جب مسلمانوں کو غزوہ خندق کے دن محصور کیا گیا تھا۔ ، اذجاء تکم جنود، جب ان پر آئے کفار کے بڑے بڑے لشکر اس سے مرادبنی غطفان قبیلہ بنی قریظہ کے یہودی اور قبیلہ بنونضیر کے یہودی ۔ ، فارسلنا علیھم ریحا، پر واہوامراد ہے۔ عکرمہ کا بیان ہے کہ جنوب نے شمال کی جانب ہواکو کہا کہ پلٹ جا آپ ﷺ کی مدد کے لیے شمال کی ہوانے کہا کہ رات کے وقت تو گرم ہوا نہیں بھیجتی اور جو ہوا ان پر آئی وہ پر واہوا تھی موسم بھی سردی کا تھا رات بھی بہت سرد تھی پر واہو اکا ایک طوفان آیا جو انتہائی سرد تھا جس کی وجہ سے ڈیروں اور خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں رسیاں ٹوٹ گئیں ۔ مجاہد نے ابن عباس ؓ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہماری ٹھنڈی ہوا سے مدد کی گئی اور عاد کود بوروالی ہوا سے ہلاک کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، وجنودالم تروھا، اس دن فرشتوں نے جنگ نہیں کی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات ٹھنڈی ہو ا بھیجی جس کی وجہ سے وہ سب بھاگ گئے ، ہر قبیلہ کے سردار نے اپنے قبیلہ کو آوازدے کر اپنے پاس بلایا جب سب آگئے تو کہا جلدبھا گو جلد بھاگو نتیجہ میں بغیر لڑائی کے سب بھاگ کھڑے ہوئے اس روز فرشتوں نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا صرف کفاروں کے دلوں میں رعب ڈالنے کے لیے آئے تھے۔ ، وکان اللہ بما تعملون بصیرا، ٖٖغزوہ احزاب کا واقعہ محمد بن اسحاق نے کہا کہ مجھ سے یزید بن رومان نے عروہ بنزبیر کی روایت سے بیان کیا اور عبد اللہ بن کعب بن مالک اور زہری اور عاصم بن عمر و بن قتادہ نیز عبداللہ بن ابی بکربن محمد بن عمروبن حزم اور محمد بن قرظی کا بیان ہے اور یہ تمام روایات باہم ملتی جلتی ہیں ۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت جس رسول اللہ ﷺ کے خلاف قبائل عرب کو مدینہ پر چڑھاکر لانے والے سلام بن ابی الحقیق اور حیی بن اخطب اور کنا نہ بن ربیع بن ابی الحقیق اور ہو دہ بن قیس اور ابوعامر لوائی شامل تھے اور بنی نضیر اور بنی وائل کے لوگوں کی کچھ تعداد بھی ساتھ تھی مدینہ سے نکل کرم کہ میں قریش کے پاس پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کرنے کی ان کو دعوت دی اور یہ بھی کہا کہ رسو (رح) (رح) ل اللہ ﷺ کی بیخ کئی کرنے میں ہم تمہارے ساتھ رہیں گے۔ قریش نے جواب دیا اے گروہ یہود ! تم اہل علم ہو تمہاری کتاب سابق ہے ، ہمارا محمد ﷺ سے مذہبی اختلاف ہے تم یہ بتاؤکہ ہمارا مذہب بہت رہے یا محمد ( ﷺ) کا ؟ یہودیوں نے جواب دیا : تمہارامذہب بہتر ہے تم حق پر ہو۔ انہی کے متعلق اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :، الم ترالی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یؤمنون بالجبت والطاغوت۔۔۔۔۔۔ وکفی بجھنم سعیرا، یہودیوں کا یہ فیصلہ سن کر قریش خوش ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرنے کی یہود یوں کی دعوت ماننے پر تیار ہوگئے اور سب اس فیصلہ پر متفق ہوگئے ۔ اس کے بعد یہ یہودی قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے ۔ قبیلہ غطفان ، قیس بن غیلان کی ایک شاخ تھی ، ان کو بھی وہی دعوت دی جو قریش کو دی تھی اور ان سے بھی کہا : ہم تمہارے ساتھ شریک رہیں گے اور یہ بھی بتادیا کہ قریش سے ہمارا اس پر معاہدہ ہوچکا ہے ، قریش نے مان لیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ غطفان نے بھی ان کی دعوت قبول کرلی۔ قریش سے معاہدہ کرنے کے بعد یہودی قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے اور ان کو رسول ﷺ کے خلاف جنگ پر ابھارا اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر تم ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کروگے تو خیبر کے درختوں پر جتنے چھوہارے ایک سال یا چھ ماہ تک آئیں گے وہ سب ہم تم کو دے دیں گے (یعنی نخلستان خیبر کی پوری فصل یا آدھی فصل تمہاری ہوگی) قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ حصین فزاری نے شرط مذکورپر یہودیوں کی بات مان لی اور بنی اسد میں جو عیینہ کے حلیف (معاہد) تھے ان کو بھی بلوالیا ۔ اس کے بعد قریش کو لے کر ان کا کمانڈ رابوسفیان بن حرب اور بنی غطفان کو مع بنی فزارہ کے لیکر ان کا قائدعیینہ بن حصین بن حذیفہ بن بدر اور بنی مرہ کو لے کر حارث بن عوف بن ابی حارثہ اور بنی اشجع میں سے اپنے ساتھیوں کو لے کر مسعربن رحیلہ بن نویرہ بن طریف نکل کھڑے ہوئے۔ ابوسفیان نے چار ہزار کا لشکر جمع کیا اور اس لشکر کا جھنڈ ا عثمان بن ابی طلحہ کو یاد ۔ مکہ سے برآمد ہونے کے وقت اس لشکر میں تین سوگھوڑے اور ایک ہزار اونٹ تھے ۔ یہ لشکر مکہ سے چل کرمرالظہر ان پہنچ کر اتر پڑا۔ اسی جگہ بنی اسلم بنی اشجع بنی مرہ بنی کنانہ بنی فزارہ اور بنی غطفان کے لشکر آپہنچے یہ ساری فوج 10 ہزار ہوگئی ۔ مرالظہر ان سے روانہ ہوکر سب مدینہ کو چل دیئے (چونکہ مختلف جماعتیں اور گروہ اس لشکر میں شامل تھے) اسی لیے اس جگہ کا نام غزوئہ احزاب ہوگیا کہ جب رسو (رح) ل اللہ ﷺ نے احزاب کے جمع ہونے اور معاہدہ کرکے چلنے کی خبرسنی تو مدینہ کے باہر آپ ﷺ نے ایک خندق کھدوائی ، خندق کھدوانے کا مشورہ رسول اللہ ﷺ کو سلمان فارسی نے دیا تھا۔ حضرت سلمان اس زمانہ میں آزاد تھے (غلام نہیں تھے) اور رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب رہ کر شریک معرکہ ہونے کا آپ کے لیے پہلاموقع تھا۔ حضرت سلمان نے عرض کیا تھا : یارسول اللہ ! ہم جب فارس میں تھے اور دشمن ہمارا محاصرہ کرلیتا تھا تو ہم اپنے گرداگرد خندق کھودلیا کرتے تھے (دشمن کی پیش قدمی روکنے کی یہ تدبیر تھی) رسول اللہ ﷺ نے اس مشورہ کو مان لیا اور خندق کو مضبوط کردیا کہ عبد اللہ بن عمروبن عوف کے والد نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے سال رسول اللہ ﷺ نے خود لائینں ڈالی تھیں اور ہر دس آدمیوں کے لیے چالیس گز (شرعی یعنی چالیس ہاتھ) زمین (کھود نے کے لیے ) کاٹ دی تھی ۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت سلمان قوی آدمی تھے ، مہاجرین و انصار کے درمیان حضرت سلمان کے متعلق کچھ اختلاف ہوگیا۔ مہاجرین نے کہا : سلمان ہم میں سے ہیں اور انصار نے کہا : سلمان ہمارے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلمان ہم میں سے یعنی ہمارے اہل بیت میں سے ہیں۔ عمروبن عوف نے فرمایا : میں اور سلمان اور حذیفہ اور نعمان بن مقرن مزنی اور چھ انصاری چالیس گززمین کھود نے میں شریک تھے۔ سخت چٹان کا آپ ﷺ کی ضرب سے ریز ہ ریزہ ہوجانا چنانچہ ہم نے کھود نا شروع کردیا۔ اچانک بحکم خدا خندق کے اندر ایک سخت ترین چٹان آگئی جس کو توڑنا ہمارے لیے سخت دشورار ہوگیا۔ ایسی سخت چٹان تھی کہ اس نے ہمارے لوہے کے اوزاروں کو توڑدیا۔ میں نے کہا : سلمان ! ذرا اوپر چڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جاؤاور حضور ﷺ کو اس چٹان کی کیفیت بتاؤ۔ اگر حضور ﷺ مناسب سمجھیں گے تو ہم اس پتھر کی طرف سے کھدائی کا رخ موڑدیں گے ۔ موڑنے کا مقام قریب ہی ہے یا جو بھی حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے کیونکہ حضور ﷺ کے ڈالے ہوئے خط سے ہٹناہم نہیں چاہتے۔ سلمان اوپر چڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے ، آپ اس وقت ترکی خیمہ کے نیچے فروکش تھے۔ سلمان نے کہا : یارسول اللہ ! خندق کے اندر ایک سخت سفید چٹان نکل آئی جس نے ہمارے اسہنی اوز ارکوتوڑڈالا۔ ہمارے لیے سخت دشواری ہوگئی ۔ کچھ بھی تو اس پراثر نہیں ہوانہ زیادہ نہ کم۔ اب حضور ﷺ کا کیا حکم ہے ؟ ہم حضور ﷺ کے ڈالے ہوئے خط سے ہٹنا پسند نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ (فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور جاکرخندق کے اندراترگئے ، سلمان بھی ساتھ تھے اور خندق کے اندرنوآدمی اور تھے) پھر حضور ﷺ نے سلمان کے ہاتھ سے کدال لے کرچٹان پر ایک سخت ضرب لگائی فورا پتھر میں شگاف ہوگیا اور پتھر سے ایک ایسی چمک نکلی جس سے مدینہ کے دونوں کنارے روشن ہوگئے۔ ایسامعلوم ہوا کہ جیسے کسی تاریک ترین کو ٹھڑی میں چراغ روشن کردیا گیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے تکبیر کہی ، مسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد آپ نے دوسری ضرب لگائی ، پتھر ٹوٹ گیا اور ایک بجلی چمکی جس سے مدینہ کے دونوں کنارے چمک اٹھے ۔ ایسامعلوم ہواجی سے کسی تاریک کو ٹھڑی میں چراغ روشن کردیا گیا ہو۔ حضور ﷺ نے تکبیر فتح کہی اور مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ حضور ﷺ نے پھر پتھر پر ایک ضرب لگائی ، پھر سلمان کا ہاتھ پکڑکراوپر چڑھ آئے ۔ سلمان نے عرض کیا : یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ! میں نے (آج) ایک بات دیکھی جو کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ حضور اقدس ﷺ نے لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا : تم نے دیکھا سلمان کیا کہہ رہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا جی ہاں (صحیح کہہ رہے ہیں ) فرمایا : میں نے پہلی ضرب جو ماری تھی اور تم نے اس سے بجلی پیدا ہوتی دیکھیں تھی ، اس کی روشنی میں حیرہ (یعنی شاہان عراق جن کا تخت گاہ حیرہ تھی) کے محلات اور (کسری کی تخت گاہ) مدائن میرے سامنے آگئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کتوں کے نوکیلے دانت ہیں ۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے مجھے بتایا کہ میری امت وہاں (یعنی حیرہ اور مدائن ) تک غالب آئے گی۔ پھر میں نے دوسری ضرب لگائی جس سے بجلی کوندتی تم نے دیکھی ، اس کی چمک میں میں نے رومی سرخوں کے محلات دیکھ لیے جیسے کتوں کے نوکیلے دانت اور جبرئیل (علیہ السلام) نے مجھے بتایا کہ میری امت ان محلات پر قابض ہوجائے گی ۔ تم کو اس کی خوشخبری ہو۔ یہ کلام سن کر مسلمانوں کے چہرے کھل گئے اور سب نے کہا ہر ستائش اسی اللہ کے لیے ہے جس کا وعدہ سچا ہے۔ اس نے محصورہونے کے بعد ہم سے فتح کا وعدہ فرمایا۔ منافق کہنے لگے کیا تمہارے لیے یہ بات اچنبھے کی نہیں ہے کہ محمد ( ﷺ) تم کو آرزومند کررہے ہیں ، تم سے جھوٹے وعدے کررہے ہیں اور تم کو خبردے رہے ہیں کہ یثرب سے حیرہ کے محلات اور کسری کا مدائن ان کو دکھائی دے رہے ہیں ان سب پر تمہاراقبضہ ہوگا۔ تمہارے اندراتنی طاقت تو ہے نہیں کہ میدان میں نکلوڈر کے مارے خندق کھودر ہے ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ اس پر آیت، واذیقول المنفقون والذین فی قلوبھم مرض ماوعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا، نازل ہوئی اور اسی واقعہ کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایا : قل اللھم مالک الملک الخ، ، حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خندق کی طرف تشریف لے گئے۔ صبح سردی تھی مہاجرین اور انصارخود خندق کھود رہے تھے ۔ غلام ، خادم ان کے پاس یہ کام کرنے کے لیے نہیں تھے۔ حضور ﷺ نے ان کی بھوک اور تھکن کو ملاحظہ کیا تو فرمایا : ان العیش عیش الاخرۃ فاغفر الانصار المھاجرۃ (درحقیقت زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اے اللہ ! انصار اور مہاجرین کو بخش دے) ۔ صحابہ نے اس شعرکے جواب میں کہا : نحن الذین بایعوامحمدا علی الجھاد مابقینا ابدا (ہم تو وہی ہیں جنہوں نے محمد ﷺ کے ہاتھ پر ہمیشہ کے لیے جب تک زندہ ہیں جہاد کرنے کی بیعت کی ہے ) حضرت براء بن عازب نے فرمایا : جنگ احزاب کا زمانہ آیا اور رسول اللہ ﷺ نے خندق کھدوائی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ خود خندق کی مٹی نکال رہے ہیں اور غبار کی وجہ سے شکم مبارک کی جلد گردآلود ہوکرچھپ گئی ہے ۔ حضور ﷺ کے پیٹ پر بہت بال تھے۔ آپ ﷺ مٹی ڈھونے میں ابن رواحہ کے یہ شعربطور رجز کے پڑھ رہے تھے اور شعرکے قافیہ پر آوازکو کھینچتے تھے (یعنی کھینچ کر ادا کرتے تھے): اللھم لولا انت ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا (اے اللہ ! اگر تیری تو فیق نہ ہوتی تو ہم ہدایت یاب نہ ہوتے نہ زکٰوۃ دیتے نہ نماز پڑھتے) ۔ فانزلن سکینۃ علینا وثبت الا قدام ان لاقینا (ہم پر طمانیت خاطر نازل فرما اور مقابلہ کے وقت ہمارے قدم جمائے رکھے) ۔ ان الاولی قد بغواعلینا اذا ارادوا فتنۃ ابینا (انہی لوگوں نے ہم زیادتی کی ہے جب انہوں نے فسادبرپا کرنے کا ارادہ کیا تو ہم نے انکار کردیا) ۔ اب ہم پھر ابن اسحاق کے بیان کی طرف لوٹتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ خندق (کی تکمیل ) سے فارغ ہوچکے تھے کہ قریش اپنے احابیش اور دوسرے اہل تہامہ کو ساتھ لے کردیں ہزار کی تعداد میں آکر مجتمع الا سبال فروکش ہوگئے اور بنی غطفان اپنے نجدی ساتھیوں کے ساتھ کوہ احد کے ایک جانب نقمی کے پیچھے حصہ میں اترے۔ رسول اللہ ﷺ بھی تین ہراز مسلمانوں کے ساتھ برآمد ہوئے اور کوہ سلع کو اپنی پشت پر لے کر حضور ﷺ نے اپنی لشکر گاہ بنائی ، خندق آپ کے اور دشمنوں کے درمیان حائل تھی ۔ مسلمانوں نے حسب الحکم بچوں اور عورتوں کو پہاڑ کے اوپر پہنچادیا۔ دشمن خدا حیی بن اخطب نضیری اپنے مقام سے اٹھا اور کعب بن اسد قرظی کی طرف چل دیا ۔ کعب نے بنی قریظہ کی طرف سے اپنی گڑھی کا دروازہ نہیں کھولا کھولنے سے صاف انکار کردیا۔ حیی نے ہرچند دروازہ کھلوانے کی استدعا کی لیکن کعب ہرگز نہ مانا اور کہنے لگا : حیی ! یہ بڑی بدبختی ہے۔ میں محمد ( ﷺ) سے معاہدہ کرچکا ہوں اور اپنا معاہدہ ہرگز نہیں تو ڑوں گا۔ محمد ( ﷺ) کی طرف سے میں نے ہمیشہ عہد کی پابندی اور سچائی ہی پائی ہے اس لیے میں بھی نقض عہد کرنے والا نہیں ۔ حیی نے کہا : دروازہ توکھولو، میں تم سے بات کووں گا۔ کعب نے کہا : میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ حیی نے کہا : کعب ! تم مجھے باہرچھوڑ کر دروازہ بند کیے بیٹھے ہو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم کو اندیشہ ہے کہ اگر میں اندر آجاؤں گا تو تمہارے ساتھ حصہ بانٹ کرلوں گا۔ کعب کو یہ بات سن کر غصہ آگیا اور (جوش میں آکر) دروازہ کھول دیا۔ حیی اندر آگیا کہا : کعب ! میں زمانہ بھر کی عزت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں ، لہریں مارتا ہوا ایک سمندرچڑھالایا ہوں۔ میں نے قریش کو ان کے کمانڈروں اور سرداروں کے ساتھ لاکردومہ الجندل کے مقام مجتمع الا سبال میں اتاردیا ہے اور بنی غطفان کو ان کے سرداروں اور سپہ سالا روں کے ساتھ لاکر کوہ احد کے ایک پہلوپر نقمی کے پچھلے حصہ میں شام کو پڑاؤلوادیا ہے۔ ان سب نے مجھ سے معاہدہ اور پختہ وعدہ کرلیا کہ جب تک محمد ( ﷺ) اور ان کے ساتھیوں کو جڑ بنیاد سے اکھاڑکرنہ پھینک دیں گے یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔ کعب بن اسد نے کہا : خدا کی قسم ! تم ابدی ذلت لے کر آئے۔ یہ ایک ایسا بادل ہے جس کا پانی برس چکا ہے اب اس میں سوائے گرج اور چمک کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ تم محمد ( ﷺ) کے سلسلہ میں مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ میں نے محمد ( ﷺ) کی طرف سے سوائے سچ اور پابندی عہد کے کبھی غداری نہیں دیکھی ۔ حیی بن اخطب کعب کو برابراتار چڑھاؤاور فریب دیتا رہایہاں تک کہ حیی نے کعب کے سامنے اللہ کی پختہ قسم کھائی کہ اگر قریش محمد ( ﷺ) پر کا مبابی حاصل کیے بغیر واپس چلے گئے تو تمہاری اس گڑھی کے اندر میں بھی آبسوں گاتا کہ جود کھ کو پہنچے اس میں تمہاراشریک رہوں۔ قبیلہ بنی قریظہ کا معاہدہ توڑ دینا آخر کعب نے رسو (رح) ل اللہ ﷺ سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور پابندی عہد جو اس پر لازم تھی ، اس سے الگ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اور مسلمانوں کو جب یہ اطلاع ملی تو حضور ﷺ نے سعد بن معاذاشہلی سرداروس اور سعد بن عبادہ ساعدی سردار خزرج اور عبداللہ بن رواحہ خزرجی اور خوات بن جبیر عمری کو تحقیق واقعہ کے لیے بھیجا اور فرمایا : تم لوگ جاکردیکھو کہ ان لوگوں کے متعلق جو اطلاع مجھے ملی ہے کیا وہ صحیح ہے ؟ اگر خبر صحیح ہوتوآکر ایسے الفاظ میں مجھے اطلاع دینا کہ میں سمجھ جاؤ(ایسانہ کرنا کہ عام لوگوں کے سامنے اعلان کردوجس سے ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوجائے اور) لوگوں کے بازو نہ توڑدینا اور اگر وہ ہم سے کیے ہوئے سابق معاہدہ پر قائم ہوں تو پھر علی الاعلان لوگوں کے سامنے اس کو بیان کرسکتے ہو۔ مذکورہ بالا حضرات حسب الحکم گئے ، یہودیوں کے پاس پہنچے اور جو خبران کے متعلق ملی تھی اس سے زیادہ بگڑی ہوئی حالت پر ان کو پایا۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے وہ بالکل ہی برگشتہ ہوگئے تھے اور صاف کہہ دیا تھا کہ اب ہمارا اور محمد (ﷺ) کا کوئی معاہدہ نہیں ۔ حضرت سعد بن عبادہ کے مزاج میں تیزی تھی ، آپ نے یہودیوں کو برابھلاکہنا شروع کردیا۔ حضرت سعدبن معاذنے کہا : سعد بن عبادہ ! ان سے گالی گلوچ چھوڑ دو ، ہمارا ان کا معاملہ اب اس سے بہت آگے بڑھ چکا ہے ۔ اس کے بعد دونوں سعد اور ان کے ساتھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کے بعد عرض کیا : لاعلاج مرض ہے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ کے ساتھ غداری بہت سخت ہے، اللہ اکبر۔ اے گروہ اہل اسلام ! تم کو بشارت ہو۔ غرض (صحابہ کے لیے) سخت مصیبت آپڑی اور سخت خوف کا وقت آگیا۔ دشمنوں نے اوپر (گڑھی کی طرف) سے اور نیچے (خندق کے پارکفار) کی طرف سے گھیرلیا۔ مسلمانوں کے دلوں میں بھی برے برے خیالات آنے لگے۔ بعض منافقوں کی طرف سے تو اس کا ظہور بھی ہوگیا۔ یہاں تک کہ معتب بن فشیرعمری نے یہ الفاظ کہہ دیئے کہ محمد (ﷺ) ہم سے تو وعدہ کررہے ہیں کہ تم کسری اور قیصر کے خزانے کھاؤگے لیکن ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص رفع ضرورت کے لیے جنگل کو بھی نہیں جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے (نعوذ باللہ) وہ محض فریب ہے۔ اوس بن قبطی (منافق) نے کہا : یارسول اللہ ! ہمارے گھروں میں کوئی نگران نہیں اور گھر شہر کے باہر ہیں ، آپ ہم کو اجازت دے دیجئے کہ واپس گھروں کو چلے جائیں (اس شخص نے یہ بات غلط کہی تھی) ان لوگوں کے گھروں کی نگہبان انہیں کے قبیلہ کے مردوں کی ایک جماعت موجود تھی ۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت زبیر جب بنی قریظہ کی طرف سے واپس آکررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اطلاع دی کہ وہ لوگ قلعوں کو درست کررہے ہیں راستے اور سرحدیں بندکر رہے ہیں چوپایوں کو گڑھیوں کے اندرجمع کررہے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کو حواری ہوتا ہے اور میراحواری (مخلص دوست) زبیر ہے ۔ کچھ اوپر بیس روز رسول اللہ ﷺ اپنی فرودگاہ میں اور مشرک اپنے پڑاؤ پر قائم رہے کوئی لڑائی نہیں ہوئی سوائے تیریا پتھر پھینکنے کے کسی طرف سے کچھ نہیں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب تکلیف زیادہ ہوئی تو آپ نے بنی غطفان کے دوسرداروں یعنی عیینہ بن حصین اور ابوالحارث بن عمر وکو (پیام صلح دے کر) بلوایا اور ان سے فرمایا : تم اپنے (غطفانی) ساتھیوں کو لے کر اس شرط پر واپس چلے جاؤکہ تم مدینہ کے نخلستان کی کل پیداوار (یعنی کھجوروں ) کا ایک تہائی حصہ دے دیا جائے گا۔ وہ لوگ اس پر راضی ہوگئے ۔ تحریر لکھ دی گئی لیکن ابھی دستخط ہونا باقی تھے کہ حضور ﷺ نے سعد بن معاذ اور سعدبن عبادہ سے اس کا تذکرہ کیا اور مشورہ طلب کیا ۔ دونوں نے جواب دیا : یارسول اللہ ! کیا ایسا کرنے اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے (اگر ایسا ہے) تو اس کی تعمیل ہم پر واجب ہے یا آپ نے خود یہ تدبیر مناسب سمجھی ہے اور آپ اس کو پسند کرتے ہیں (تب بھی ہمارے لیے مجبوری ہے) یا حضور ﷺ نے ہمارے فائدے کے لیے ایساکرنا چاہا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : اور کوئی وجہ نہیں ، صرف تمہارے فائدے کے لیے میں ایسا ارادہ کیا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ سارے عرب تمہارے خلاف ہوگئے اور ایک کمان سے سب تیر پھینکنا چاہتے ہیں اور ہر طرف سے وہ تم پر بھڑک اٹھے ہیں تو میں نے ارادہ کیا کہ کیا تمہارے خلاف ان کی اجتماعی طاقت کو توڑدوں ۔ حضرت سعد بن معاذنے عرض کیا : یارسول اللہ ! ایک وقت تھا کہ ہم اور یہ لوگ سب بت پرست اور مشرک تھے نہ ہم اللہ کو جانتے تھے نہ اس کی پرستش کرتے تھے ۔ اس زمانہ میں ان لوگوں میں یہ طاقت نہ تھی کہ ہمارا ایک چھوہارا بھی بغیر خریدے یابدون مہمانی کے کھاسکیں ۔ اب جبکہ اللہ نے ہم کو اسلام کی وجہ سے عزت عطافرمادی اور آپ کی ذات مبارک کے سبب ہماری عزت افزائی کردی تو کیا ہم ان کو اپنا مال (مفت) دے دیں ؟ ہمیں ایسے معاہدے کی ضرورت نہیں۔ بخدا ! ہم ان کو تلوار کے سوا اور کچھ نہیں دیں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان (آخری) فیصلہ فرمادے۔ حضور اکرم ﷺ نے یہ تقریرسن کر فرمایا : تم کو اختیا رہے (ایساہی کرو) حضرت سعد نے کاغذلے کرتحریرمٹادی کہا : اب یہ ہمارے خلاف جو کوشش کرسکتے ہیں، کریں ۔ دشمن رسو (رح) ل اللہ ﷺ کا محاصرہ کیے پڑے رہے کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ صرف قریش کے چندشہسوار جن میں عمروبن عبدو دعامری عکرمہ بن ابی جہل مخزومی ہبیرہ بن وہب مخزومی نوفل بن عبداللہ ، ضراربن خطاب اور مرداس بن لوی محاربی شامل تھے گھوڑوں پر سوار ہوکربنی کنانہ کی طرف سے گزرے اور ان سے کہا : لڑائی کے لیے تیار ہوجاؤ، آج تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کون شہسوا رہے۔ پھر خندق کی طرف رخ موڑا اور خندق کو دیکھ کر بولے : خدا کی قسم ! یہ تدبیرایسی ہے جس کو عرب (پہلے) نہیں کرتے تھے۔ اس کے بعد خندق میں ایک تنگ جگہ تلاش کرکے اس میں گھوڑوں کو داخل کردیا۔ گھوڑے ان کو لے کر خندق اور کوہ سلع کے درمیانی گڑھے میں گردش کرنے لگے۔ حضرت علی ؓ نے جو یہ بات دیکھی تو کچھ مسلمانوں کو ساتھ لے کر اس سرحدی مقام پر جا پہنچے جہاں سے دشمن نے اپنے سواروں کو داخل کیا تھا۔ وہ سوار بھی تیزی کے ساتھ ان کے سامنے آگئے ۔ حضرت علی ؓ نے اس مقام کو بند کردیا۔ عمروبن عبدودبدر کی لڑائی میں شریک اور زخمی ہوگیا تھا اس لیے جنگ احد میں شریک نہ تھا ۔ جب خندق کا واقعہ ہواتو اپنی اہمیت جتلا نے کے لیے وہ بھی ساتھیوں کو ٹریننگ دینے کی غرض سے ساتھ آگیا۔ حضرت علی ؓ کے مقابلہ پر جب وہ خود دوسرے سواروں کے ساتھ مل کر آکھڑا ہواتو حضرت علی ؓ نے اس سے فرمایا : عمرو ! تو نے اللہ کو گواہ کرکے کہا تھا کہ جب کوئی قریشی تیرے سامنے کوئی سی دو باتیں (ایک مثبت ، دوسری مقی) رکھے گا تو دونوں میں سے ایک بات کو تو اختیار کرلے گا۔ عمرونے کہا : بیشک یہی بات ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : تو میں تجھے اللہ ، اللہ کے رسول ﷺ اور اسلام کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہوں۔ عمروکہنے لگا : اس کی مجھے ضرورت نہیں ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : تو پھر میں تجھے میدان میں اترنے کی دعوت دیتا ہوں۔ عمروبولا : بھتیجے ! ایسا کیوں کرتے ہو ؟ خدا کی قسم ! میں تم کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : بخدا ! میں تو تجھے قتل کرنا چاہتاہوں۔ یہ سنتے ہی عمروگرما گیا اور گھوڑے سے اتر کر اس کی ٹانگوں کو زخمی کردیایا اس کے منہ پر ایک ضرب رسید کی پھر حضرت علی ؓ کی طرف چل پڑا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی پکڑ کی اور کشتی لڑنے لگے۔ آخرحضرت علی ؓ نے اس کو قتل کردیا۔ دوسرے سوار شکست کھاکر خندق میں گھس کر بھاگ گئے ۔ اس روز عمروکے دوسپاہی بھی مارے گئے منبہ بن عثمان بن عبدا لسیاق بن عبدالدار کے ایک تیرلگ گیا تھا جس سے مکہ میں پہنچ کر اس کا انتقال ہوگیا اور نوفل بن عبد اللہ بن مغیرہ مخزومی خندق کے اندر گھس کر جب درمیان میں پہنچا تو مسلمانوں نے اس پر سنگ باری کی ۔ کہنے لگا : اے گروہ عرب ! (لڑائی کا یہ کیا طریقہ ہے ؟ ) جنگ کا طریقہ اس سے بہترہونا چاہیے (یعنی دوبدولڑائی ہونی چاہیے) فورا حضرت علی ؓ میدان میں اترپڑے اور عبد اللہ کو قتل کردیا اور مسلمان غالب آگئے ۔ کافروں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ مقتول کی لاش ہم کو بقیمت واپس دے دیجئے ۔ فرمایا ہم نہ اس کی لاش درکا رہے نہ قیمت کی ضرورت لاش کو لے جاؤ۔ چناچہ آپ نے لاش لے جانے کی اجازت دے دی۔ ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ خندق کی لڑائی کے دن ہم بنی حارثہ کی گڑھی میں تھے ، مدینہ کے قلعوں میں یہ سب سے محفوظ قلعہ تھا ۔ سعد بن معاذ بھی ہمارے ساتھ گڑھی کے اندر تھے یہ واقعہ پردہ کا حکم نافذ ہونے سے پہلے کا ہے۔ سعد بن معاذ ایک چھوٹی زرہ پہنے ہوئے قلعہ سے باہر نکلے بازوکھلی ہوئی تھی ہاتھ میں چھوڑ برچھا تھا اور یہ شعرپڑھ رہے تھے کاش ! لڑائی کو میرا اونٹ پالیتا جب موت کا مقررہ وقت آجائے تومرنے میں کوئی باک نہیں ۔ سعد کی ماں نے کہا : بیٹے ! بہت جلد (رسول اللہ ﷺ) تک جاپہنچ ۔ بخدا ! تو نے بہت دیرکردی (تو پیچھے رہ گیا) میں نے کہا : سعد کی ماں نے کہا : بیٹے ! بہت جلد (رسول اللہ ﷺ) تک جاپہنچ ۔ بخدا ! تو نے بہت دیرکردی (تو پیچھے رہ گیا) میں نے کہا : سعد کی اماں ! سعد جو زر ہ پہنے ہیں میں چاہتی ہوں کہ اس سے بڑی زرہ ان کے بدن پر ہو ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان کے (برہنہ حصہ پر) کوئی تیرنہ آلگے۔ سعد کی ماں نے کہا : اللہ کا جو حکم ہوگا وہ پورا ہوکر رہے گا۔ (آخر) سعد کے ایک تیرلگ گیا جس سے اکحل رگ گئی۔ تیر حیان بن قیس غرفہ عامری نے مارا تھا ۔ سعد نے (ابن غرفہ کو بددعادی کہ) اللہ تجھے دوزخ میں دردرسیدہ کرے پھر کہا اے اللہ ! اگر تو نے قریش سے لڑائی آئندہ باقی رکھی ہو تو مجھے اس میں شریک ہونے کے لیے باقی رکھ کیونکہ کسی قوم سے لڑنے کی مجھے اتنی خواہش جتنی اس قوم سے لڑنے کی ہے جس نے تیرے رسول ﷺ کو ستایا اور جھٹلا یا اور (وطن سے نکالا اور اگر تو نے ہماری اور قریش کی لڑائی ختم کردی ہو تو اسی (زخم) کو میرے لیے سبب شہادت بنادے ) لیکن جب تک میری آنکھیں بنی قریظہ (کی تباہی) کو دیکھ کر ٹھنڈی نہیں ہوجاتیں مجھے موت سے محفوظ رکھ ۔ دور جاہلیت میں حضرت سعد بن معاذ اور بنی قریظہ باہم حلیف اور معاہد تھے۔ مجاہد اور محمد بن اسحاق نے بحوالہ یحییٰ بن عباد عبد اللہ بن زبیر عباد کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت صفیہ بنت المطلب نے فرمایا : ہم حسان بن ثابت کی گڑھی میں تھیں حسان بھی عورتوں اور بچوں کے ساتھ موجود تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک یہودی گڑھی کے آس پاس چکر لگارہا ہے، اس وقت بنی قریظہ کی رسول اللہ ﷺ سے جنگ تھی (معاہدہ ٹوٹ چکا تھا) بنی قریظہ کے اور ہمارے درمیان کوئی محافظ موجود نہ تھا کہ یہودیوں کی ہماری طرف سے مدافعت کرسکتا کیونکہ رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کافروں کے مقابلہ میں مشغول جنگ تھے دشمن کی طرف سے منہ موڑ کر ہماری طرف متوجہ نہیں ہوسکتے تھے ۔ ایسی حالت میں وہ یہودی (گھومتا اور ٹوہ لیتا) نظر آیا تھا ۔ میں نے حسان سے کہا : حسان ! تم دیکھ رہے ہو کہ یہ یہودی گڑھی کے آس پاس چکر لگارہا ہے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ شخص کسی غیر محفوظ جگہ سے یہودیوں کو اندرلے آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ مشغول مقابل ہیں (یہاں پہنچ کر ہماری مدد نہیں کرسکتے) تم گڑھی سے اتر کر جاؤاور اس کو قتل کردو۔ حسان نے کہا : اے بنت عبدالمطلب ! اللہ آپ کی مغفرت کرے ، آپ تو واقف ہی ہیں کہ بخد ا میں ایسا کرنے کا اہل نہیں ہوں۔ جب میں نے حسان کا یہ جواب سن لیا اور سمجھ گئی کہ حسان کے اندر یہودی کو قتل کرنے کی بالکل جرأت نہیں ہے تو میں نے خود تہبند کسی اور خیمہ کی ایک ٹیکی لے کر گڑھی سے نکلی اور اس کی گردن پر ایسی ماری کہ وہ مرگیا۔ قتل کرکے گڑھی میں لوٹی تو میں نے حسان سے کہا : اب تم جاکر اس کے کپڑے اور ہتھیار اتارلو، یہ اجنبی مرد ہے اس لیے میں خود ایسا نہیں کرسکتی ۔ حسان نے کہا : بنت عبدالمطلب ! مجھے اس کے سامان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعدنعیم بن مسعود بن عامر بن غطفان نے (پوشیدہ طور پر) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کیا : یارسول اللہ ! میں مسلمان ہوگیا ہوں لیکن میری قوم والوں کو میرا مسلمان ہوجانا معلوم نہیں ہے ، اب آپ ہم کو جو چاہیں حکم دیں (ہم اس کی تعمیل کریں گے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ہماری جماعت میں تنہا ہو، اگر کرسکتے ہو تو (ان جماعتوں میں پھوٹ ڈال دو اور) ایسا کردو کہ ہماری طرف سے ان کا رخ مڑجائے اور ایک جماعت دوسری کی مدد نہ کرے کیوں کہ لڑائی خفیہ تدبیر (کانام ) ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ نعیم نے عرض کیا تھا یارسول اللہ ! مجھے یہ اجازت دے دیجئے کہ میں (ان سے ) جو کچھ چاہوں ، کہوں (کواہ بات جھوٹی ہو) ۔ حضرت ﷺ نے اجازت دے دی ۔ اجازت پاکر نعیم بنی قریظہ کے پاس پہنچے (اسلام سے پہلے نعیم بن قریظہ کے ہم نشین تھے) اور کہا : اے بنی قریظہ ! تم واقف ہو کہ میں تمہاراخالص دوست ہوں۔ بنی قریظہ نے کہا : نے سچ کہاہماری نظر میں تم مشکوک نہیں ہو۔ نعیم نے کہا : تو (سنو ! ) قریش اور غطفان لڑائی کے لیے آئے ہیں اور تم ان کے مددگار ہو لیکن ان کی حالت تمہاری حالت کی طرح نہیں ہے۔ یہ شرتمہارا ہے اس میں تمہارامال ہے اہل و عیال ہیں ، تم اس کو چھوڑ کر دوسرے شہر کو نہیں جاسکتے، رہے قریش وغطفان (وہ یہاں کے باشندے نہیں ہیں ) ان کے مال اور اہل و عیال یہاں سے دور ہیں ۔ اگر کامیابی کا موقع اور مال غنیمت ان کے ہاتھ آگیا تو بہتر ورنہ اپنے شہروں کو چلے جائیں گے اور تم کو اس شخص کے مقابلہ میں تنہا چھوڑ دیں گے اور یہ شخص تمہارے شہر میں رہتا ہے تنہا اس کا مقابلہ کرنے کی تم میں طاقت نہیں (مناسب یہ ہے کہ ) تم اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان لوگوں کے کچھ سرداروں کو اپنی تحویل میں بطور رہن رکھ لوتا کہ وہ تم کو چھوڑ کر بھاگ نہ جائیں ۔ اگر وہ ایسا کرلیں تو ان کے ساتھ مل کر تم محمد ( ﷺ ) سے لڑو اور کھل کر ان کا مقابلہ کرو (اگر وہ ایسا نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان کی نیت بری ہے) ۔ بنی قریظہ نے کہا : تم نے صحیح مشورہ دیا۔ پھر نعیم کے یہاں سے نکل کر قریش کے پاس پہنچے اور ابوسفیان و سردار ان قریش سے کہا تم لوگ جانتے ہو کہ میں تمہارادوست ہوں اور محمد ( ﷺ ) کے متعلق جو رائے رکھتا ہوں اس سے بھی تم واقف ہو۔ مجھے ایک اطلاع ملی ہے اور میں بطور خیر خواہی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ وہ خبر تم تک پہنچا دوں لیکن اس کو پوشیدہ رکھنا ۔ قریش نے کہا : ہم ایساہی کریں گے۔ نعیم نے کہا : تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ گر وہ یہوداب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور محمد ( ﷺ ) کے پاس انہوں نے پیام بھیجا ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہم اس پر نادم ہیں (اس کی تلافی میں ) اگر ہم قریش وغطفان کے کچھ سرداروں کو پکڑ کر تمہارے حوالے کردیں تا کہ تم ان کی گردنیں اڑادوتو کیا تم ہم سے راضی ہوجاؤگے ؟ پھر ہم اور تم مل کر باقی لوگوں کا مقابلہ کریں گے۔ محمد ( ﷺ ) نے جواب میں کہلا بھیجا کہ بہت رہے (ہم اس شرط پر تم سے مصالحت کے لیے تیار ہیں) لہٰذا یہودی اگر تمہارے پاس پیام بھیجیں اور تمہارے سرداروں کو اپنے پاس بطور رہن رکھنا چاہیں تو تم اپنا ایک آدمی بھی ان کے حوالے نہ کرنا۔ اس کے بعد نعیم غطفان کے پاس پہنچے اور کہا اے گروہ غطفان ! تم میرا کنبہ قبیلہ ہو اور میرے پیارے ہومیراخیال ہے کہ تم مجھے مشکوک نہیں سمجھتے ہو۔ بنی غطفان نے جواب دیا : تم نے سچ کہا (واقعی تم ہمارے دوست ہو) نعیم نے کہا : تو بات چھپی رکھنا (ظاہرنہ ہونے پائے) بنی غطفان نے کہا : ایسا ہی کریں گے۔ اس کے بعد نعیم نے جو بات قریش سے کہی تھی وہی بنی غطفان سے بھی کہہ دی اور جس بات کا ان کو اندیشہ دلایا تھا اسی بات کا خوف بنی غطفان کو بھی دلایا۔ شنبہ کی رات ماہ شوال 5 ہجری کو اللہ نے اپنے رسول کی کارسازی اس طرح کی کہ ابوسفیان نے ورقہ بن غطفان اور عکرمہ بن ابی جہل کے ساتھ قبیلہ غطفان و قریش کے چند آدمیوں کو بنی قریظہ کے پاس بھیجا ان لوگوں نے جا کر بنی قر یظہ سے کہا کہ ہم یہاں قیام کرنے تو آئے نہیں ہمارے اونٹ اور گھوڑے ہلاک ہوئے جارہے ہیں ۔ آپ لوگ لڑائی کے لیے تیارہوجائیں تاکہ ہم کھل کر باہر نکل کر محمد (ﷺ ) سے جنگ کریں اور اس جھگڑے سے فارغ ہوجائیں جو ہمارا محمد (ﷺ) سے ہے ۔ یہودیوں نے پیام بھیجا : آج سینچر کا دن ہے ، سینچر کے دن ہم کوئی کام نہیں کرتے ۔ ہم میں سے بعض لوگوں نے سنچر کے دن کچھ بدعت کی تھی اس کی جو سزا ان کو ملی وہ تم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر ایک بات یہ ہے کہ جب تم ہمارے پاس اپنے کچھ آدمی بطور رہن نہ چھوڑ وگے ، ہم تمہارے ساتھ مل کر لڑنے والے نہیں ہیں اگر ایسا کردوگے تو ہم کھل کر محمد (ﷺ) سے لڑیں گے۔ ہم کو اندیشہ ہے کہ اگر لڑائی سے تم کو کچھ نقصان پہنچا اور جنگ کی شدت ہوئی تو تم ہم کو چھوڑ کر اپنے شہروں کو لوٹ جاؤ گے اور یہ لوگ ہمارے اسی شہر کے باشندے ہیں ، ہم تنہا ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ قاصد جب بنی قریظہ کا یہ جواب لے کر لوٹے تو قریش وغطفان نے کہا : تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ نعیم بن مسعود نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے بنی قریظہ کو کہلا بھیجا کہ اپنا ایک آدمی بھی ہم تمہارے قبضہ میں نہیں دیں گے ۔ اگر (بلاشرط) تم (محمد ﷺ لڑنا چاہتے ہو تو نکلو اور جنگ کرو۔ قاصد یہ پیام لے کر بنی قریظہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : نعیم بن مسعود نے جو بات کہی تھی وہ بالکل سچ تھی ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر (فتح کا) ان کو موقع مل جائے تو اس کو غنیمت سمجھیں ورنہ سمٹ کر اپنے شہروں کو چلے جائیں اور تم کو تمہارے گھروں میں اس شخص کے مقابل تنہا چھوڑ جائیں ۔ اس کے جواب میں بنی قریظہ نے قریش اور غطفان کو وہی پیام بھیجا کہ یا تو اطمینان کے لیے تم اپنے کچھ سرداروں کو ہمارے پاس بطور گروی چھوڑدو لیکن قریش نے نہ مانا۔ اس طرح اللہ نے ایک کو دوسرے کی مدد سے محروم کردیا۔ شدید سردی کی رات تھی اور بہت ہی سخت ٹھنڈک تھی اللہ نے ایک طوفانی ہو ابھیج دی جس سے کافروں کی (چڑھائی ہوئی) ہانڈیاں الٹ گئیں اور ہوانے برتنوں کو پھینک دیا۔ رسول اللہ ﷺ کو کافروں کی پھوٹ کی اطلاع ملی تو رسول اللہ ﷺ نے حذیفہ بن یمان کو یہ بات معلوم کرنے کے لیے بھیجا کہ رات کو کیا واقعہ ہوا۔ محمد بن اسحاق نے بوساطت زیدبن زیاد، محمد بن کعب قرظی کا بیان نقل کیا ہے اور بعض اہل روایت نے ابراہیم تیمی کے والد کا قول بھی بیان کیا ہے ۔ دونوں کی روایت ہے کہ ایک کوفی جوان نے حضرت حذیفہ بن یمان سے دریافت کیا : ابو عبداللہ ! کیا آپ (حضرات) نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا اور حضور ﷺ کی صحبت میں رہے تھے ؟ حضرت حذیفہ تھا ؟ حضرت حذیفہ نے فرمایا : ہم تیاری کرتے تھے۔ جوان بولا : اگر ہم اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کو پالیتے تو حضور ﷺ کو زمین پر پیدل نہ چلنے دیتے ، اپنی گردنوں پر اٹھائے رہتے اور آپ کی (ہروقت) خدمت کرتے۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا : بھتیجے (تم کو کیا معلوم کہ وہ زمانہ کتنا مصائب کا تھا) خدا کی قسم ! وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ اجزاب کی ایک رات کو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے (اور انتہائی سخت سردی تھی) حضور ﷺ نے فرمایا : کوئی ایسا ہے کہ اٹھ کرجائے اور ہم کو ان لوگوں کی خبرلاکردے جو کوئی ایساکرے گا، اللہ اس کو جنت میں داخلہ عطافرمائے گا۔ یہ بات سن کر (بھی) ہم میں سے کوئی نہیں اٹھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے دیرتک نماز پڑھی اور نماز کے بعد ہماری طرف رخ موڑ کر وہی پہلی بات فرمائی ۔ لیکن سب خاموش رہے میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا۔ حضور ﷺ پھر دیر تک نماز پڑھتے رہے اور نماز کے بعد فرمایا : جو شخص اٹھ کرجائے گا اور دیکھ کر ہم کو آکر بتائے گا کہ ان لوگوں نے کیا کیا تو وہ جنت میں میرا ساتھی ہوگا۔ یہ سننے کے بعد بھی سخت سردی سخت بھوک اور شدت خوف کی وجہ سے کوئی شخص بھی نہیں اٹھا ۔ جب کوئی اٹھا تو حضور ﷺ نے مجھے طلب فرمایا اور پکارکہا : اے حذیفہ ! اب میرے لیے اٹھے بغیر چارہ نہ رہا میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! پھر اٹھ کر حضور ﷺ کے پاس پہنچا اس وقت (سردی کی وجہ سے) میرے دونوں پہلو کپکپا رہے ۔ حضور ﷺ نے میرے سر اور چہرے پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا : ان لوگوں کے پاس پہنچ کر ان کی خبرلاؤلیکن میرے پاس پہنچنے تک کچھ (چھیڑ چھاڑ) نہ کر بیٹھنا۔ اس کے بعد فرمایا : اے اللہ ! آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے سے اس کو اپنی حفاظت میں رکھ۔ میں نے اپنے تیرلیے ہتھیارباند ہے اور پیدل ان کی طرف روانہ ہوگیا ۔ نکلاہی ہوں تو ایسا معلوم ہوا کہ حمام میں چل رہا ہوں (ساری سری دی غائب ہوگئی) چلتے چلتے ان لوگوں کے اندرداخل ہوگیا۔ اللہ کے حکم سے ان لوگوں پر ایک ہواکا طوفان اور (غیبی) لشکر آگیا اور اللہ کے اس لشکر نے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ ان کی ایک ہانڈی کو (چولہے پر) اور آگ کو (چولہے میں ) اور ڈیرے چھولداری کو (زمین پر) قائم نہ رہنے دیا۔ اس وقت ابوسفیان آگ کے پاس بیٹھا تاپ رہا تھا۔ میں نے تیر نکالاکمان کے چلہ پرچڑھایا اور چھوڑنا چاہتا ہی تھا کیونکہ اگر اس وقت میں تیر چھوڑ دیتا ٹھیک ابوسفیان کے لگ جاتا ۔ لیکن مجھے اللہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان یاد آگیا کہ کوئی حرکت نہ کر بیٹھنا جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے، اس لیے میں نے تیرواپس نکال کر رکھ دیا۔ ابوسفیان نے جو یہ تباہی دیکھی تا کہا : اے گروہ قریش ! تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑلے اور دیکھ لے کہ وہ کون ہے (تاکہ کوئی جاسوس ہمارے لشکر میں نہ گھس آئے شناخت ہوجائے) یہ سن کر میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا : سبحان اللہ ! کیا تو مجھے نہیں جانتا ؟ میں فلاں بن فلاں ہوں۔ وہ قبیلہ ہوازن کا آدمی تھا۔ ابوسفیان نے کہا : اے گروہ قریش ! تمہارے قیام کی یہ جگہ نہیں ہے (کہ ہمیشہ یہاں رہناہو) اونٹ اور گھوڑے ہلاک ہوگئے بنی کریظہ نے بھی ہم سے غداری کی اور ان کی طرف سے ہم کو وہ (پیام) ملا جو ہمارے لیے ناگوار تھا۔ ادھر اس طوفان کی وجہ سے جو بپتا ہم پر پڑی وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو، لہٰذا کوچ کر چلو میں تو روانہ ہورہا ہوں ، اس کے بعد ابوسفیان اٹھ کھڑ اہوا اور اونٹ کے پاس پہنچا اونٹ کے پاؤں میں اس وقت دھنگنا بندھا ہوا تھا (اور وہ بیٹھا ہوا تھا) ابوسفیان اس پر سوار ہوگیا اور اس کو مارا۔ اونٹ فورا تین ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا ، چوتھی ٹانگ کا دھنگنا کھڑا ہونے کی حالت میں کھولا گیا۔ میں نے سنا ہے کہ جو عمل قریش نے کیا ، وہی غطفان نے بھی کیا اور سب اپنے شہروں کو لوٹ پڑے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹ آیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں حمام میں چل رہاہوں۔ خدمت گرامی میں پہنچاتو آپ اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیر اتو میں نے ان لوگوں کا واقعہ عرض کیا۔ حضور ﷺ اہنس پڑے اتنے کہ رات کی تاریکی میں (سفید چمک دار) کچلیاں نمودار ہوگئیں ۔ جب میں اطلاع دے چکا تو وہ سینک (جو اس آمدورفت اور ٹوہ لگانے کے دوران حمام کی گرمی جیسی محسوس ہورہی تھی وہ) بھی غائب وہ گئی (اور حسب سابق سردی محسوس ہونے لگی) حضور ﷺ نے مجھے اپنے قریب اپنے قدموں کے پاس کرلیا اور اپنے کپڑے کا ایک پلہ میرے اوپرڈال دیا اور میراسینہ اپنے تلوؤں سے چمٹالیا اس طرح میں برابر سوتارہا۔ جب صبح ہوگئی تو حضور ﷺ نے فرمایا : اے سونے والے اب اٹھ جا !
Top