Tafseer-e-Baghwi - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اجْتَنِبُوْا : بچو كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ الظَّنِّ ۡ : (بد) گمانیوں اِنَّ بَعْضَ : بیشک بعض الظَّنِّ : بدگمانیاں اِثْمٌ : گناہ وَّلَا : اور نہ تَجَسَّسُوْا : ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی وَلَا يَغْتَبْ : اور غیبت نہ کرو بَّعْضُكُمْ : تم میں سے (ایک) بَعْضًا ۭ : بعض (دوسرے) کی اَيُحِبُّ : کیا پسند کرتا ہے اَحَدُكُمْ : تم میں سے کوئی اَنْ يَّاْكُلَ : کہ وہ کھائے لَحْمَ اَخِيْهِ : اپنے بھائی کا گوشت مَيْتًا : مردہ کا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ : تو اس سے تم گھن کروگے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تَوَّابٌ : توبہ قبول کرنیوالا رَّحِيْمٌ : مہربان
مومنو ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
یایھا الذین امنوا لا یسخر قوم کا شان نزول 11 ۔” یایھا الذین امنوا لا یسخرقوم “ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ثابت بن قیس بن شماس ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ ان کی قوت سماعت کم تھی، یہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آتے اور صحابہ کرام ؓ مجلس میں ان سے پہلے جگہ بنا چکے ہوتے تو ان کے لئے مجلس کو کشادہ کردیتے حتیٰ کہ یہ آپ (علیہ السلام) کے پہلو میں بیٹھ جاتے اور آپ (علیہ السلام) کے ارشادات سن لیتے تو یہ ایک دن آئے اور فجر کی ایک رکعت ان سے چھوٹ گئی تھی جب نبی کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام ؓ نے مجلس میں اپنی جگہیں بنالیں تو ہر شخص نے اپنی جگہ پر بخل کیا اور ان کے لئے وسعت نہ کی۔ پھر ایک شخص آیا اور بیٹھنے کی جگہ نہ ملی تو کھڑا رہ گیا۔ جب ثابت ؓ نماز سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے، لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اور ساتھ یہ کہتے جاتے مجلس میں کشادگی کرو تو صحابہ کرام ؓ کشادگی کرنے لگے حتیٰ کہ یہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گئے اور ثابت ؓ اور حضور ﷺ کے درمیان ایک شخص کا فاصلہ تھا تو اس آدمی کو کہا جگہ دے تو اس نے کہا آپ ؓ کو جگہ مل گئی، بیٹھ جائو تو ثابت ؓ اس کے پیچھے غصہ میں بیٹھ گئے۔ پھر جب تاریکی چھٹی تو ثابت ؓ نے اس کے پہلو میں ہاتھ مار کر کہا کون ہے ؟ اس نے کہا میں فلاں ہوں تو حضرت ثابت ؓ نے کہا فلانی کا بیٹا اور اس کی ماں کا ذکر کیا جس کی وجہ سے جاہلیت میں اس کو عار دلائی جاتی تھی تو اس شخص نے اپنا سر جھکا لیا اور شرمندہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنوتمیم کے اس وفد کے بارے میں نازل ہوئی جن کا ہم نے تذکرہ کیا یہ لوگ فقراء صحابہ کا مذاق اڑاتے تھے۔ جیسے عمار، خباب، بلال، صہیب، سلمان اور سالم مولی ابی حذیفہ ؓ ان کے پراگندہ مال کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمان لانے والوں کے بارے میں یہ آیت نازل کی۔ ” یایھا الذین امنوا لا یسخر قوم من قوم “ یعنی مرد مردوں سے اور قوم اسم ہے رجال اور نساء کی جمع لائی جاتی ہے اور کبھی اس کو رجال کے ساتھ خاص کردیا جاتا ہے۔ ” عسیٰ ان یکونوا خیر ا منھم ولا نساء من نساء عسیٰ ان یکن خیرا منھن “ حضرت انس ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب انہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ کو چھوٹے قد کا طعنہ دیا۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ ان کو عورتوں نے کہا یہود یہ بن یہودیین ” ولا تلمزوا انفسکم “ یعنی تم ایک دوسرے کے عیب نہ نکالو اور ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔ ” ولا تنابزوا بالالقاب “ تنا بزباب تفاعل نبز سے بمعنی لقب اور وہ یہ ہے کہ انسان کو اس کے نام کے علاوہ کس چیز سے پکارا جائے۔ عکرمہ (رح) فرماتے ہیں وہ آدمی کا دوسرے کو، اے فاسق ! اے منافق ! اے کافر ! کہنا ہے۔ حسن (رح) فرماتے ہیں کہ یہودی و نصرانی اسلام لے آتا تو اس اسلام کے بعد یا یہودی یا نصرانی کہا جاتا تو اس سے روکا گیا ہے۔ عطاء (رح) فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کو کہہ یا کلب یا حمار یا خنزیر اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ ” تنابز بالالقاب “ یہ ہے کہ کسی نے برے عمل کیے ہوں پھر وہ ان سے توبہ کرلے تو روکا گیا ہے کہ اس کے گزشتہ اعمال کی وجہ سے اس کو عار نہ دلائی جائے۔ ” بئس الاسم الفسوق بعدالایمان “ یعنی ایمان لانے اور توبہ کرنے کے بعد اے یہودی ! یا اے فاسق ! کہنا برانام ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جس نے وہ کام کیا جس سے روکا گیا ہے جیسے مذاق اڑانا، عیب نکالنا، لقب بگاڑنا تو وہ فاسق ہے اور ایمان کے بعد فاسق کا نام برا ہے ۔ پس تم ایسا نہ کرو کہ جس کی وجہ سے تم فسوق کے نام کے مستحق ہوجائو۔ ” ومن لم یتب “ اس سے۔ ” فاولئک ھم الظالمون “۔
Top