Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
قَوْلٌ : بات مَّعْرُوْفٌ : اچھی وَّمَغْفِرَةٌ : اور در گزر خَيْرٌ : بہتر مِّنْ : سے صَدَقَةٍ : خیرات يَّتْبَعُهَآ : اس کے بعد ہو اَذًى : ایذا دینا (ستانا) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَلِيْمٌ : برد بار
جس خیرات دینے کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم بات کہہ دینی اور (اس کی بے ادبی سے) درگزر کرنا بہتر ہے اور خدا بےپروا اور بردبار ہے
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ (بھلی بات اور نرمی سے سائل کو رد کردینا) کلبی نے کہا اس سے مراد وہ نیک دعا ہے جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں کرتا ہے۔ ضحاک نے کہا باہمی نزاع کو دور کرنے کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا۔ (یعنی قول معروف سے وہ بات مراد ہے جو مسلمانوں کے باہمی نزاع کو دور کرنے کے لیے کہی جائے) ۔ وَّمَغْفِرَةٌ (اور معاف کردینا یعنی جو سائل اصرار کے ساتھ سوال کرتا ہے اور پیچھے پڑجاتا ہے اس کو مناسب الفاظ کے ساتھ رد کرنا اور در گذر کرنا ( زجر نہ کرنا اور سخت الفاظ استعمال نہ کرنا) بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ مغفرت سے مراد یہ ہے کہ سائل کا پردہ فاش نہ کرے اور اسکی محتاجی پر پردہ ڈالے رکھے ( گو یا بغوی کے نزدیک مغفرت کا لغوی معنی یعنی چھپانا مراد ہے مجازی معنی یعنی معاف کرنا مراد نہیں ہے) بعض علماء نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نرم الفاظ میں رد کرنے سے من جانب اللہ مغفرت کا حصول اس کو مقصود ہو بعض لوگوں کا قول ہے کہ مغفرت سے مراد یہ ہے کہ سائل رد کرنے والے کے انکار سے در گذر کرے اور اس کو معذور سمجھے۔ کلبی اور ضحاک کے نزدیک مراد یہ ہے کہ جو شخص بھی اس کی حق تلفی کرے اس کو معاف کردے۔ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ يَّتْبَعُهَآ اَذًى (یعنی بھلی بات اور مغفرت اس دینے سے بہتر ہے جس کے پیچھے دینے والے کی طرف سے لینے والے کو دکھ پہنچے) قول معروف و مغفرۃ مبتدا ہے اور خیر دونوں کی خبر ہے۔ قول نکرہ مخصوصہ ہے اس لیے اس کا مبتدا ہونا درست ہے۔ وَاللّٰهُ غَنِىٌّ یعنی جس عطاء کے بعد احسان رکھا جائے یا دکھ دیا جائے اس کی اللہ کو پرواہ نہیں۔ حَلِيْمٌ : احسان رکھنے والے اور دکھ دینے والے کو فوری عذاب نہیں دیتا کیونکہ بڑی برداشت والا ہے۔
Top