Bayan-ul-Quran - Al-Baqara : 263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
قَوْلٌ : بات مَّعْرُوْفٌ : اچھی وَّمَغْفِرَةٌ : اور در گزر خَيْرٌ : بہتر مِّنْ : سے صَدَقَةٍ : خیرات يَّتْبَعُهَآ : اس کے بعد ہو اَذًى : ایذا دینا (ستانا) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَلِيْمٌ : برد بار
بھلی بات کہنا اور درگزر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے جس کے بعد اذیتّ پہنچائی جائے اللہ تعالیٰ غنی ہے اور حلیم ہے
آیت 263 قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَآ اَذًی ط اگر آپ کے پاس کوئی ضرورت مند آگیا ہے ‘ کسی نے ہاتھ پھیلا دیا ہے تو اگر آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے تو دلداری کا ایک کلمہ کہہ دیجیے ‘ نرمی کے ساتھ جواب دے دیجیے ‘ معذرت کر لیجیے۔ یا اگر کسی سائل نے آپ کے ساتھ درشت رویہ اختیار کیا ہے تو پھر بھی اسے ڈانٹئے نہیں : وَاَمَّا السَّآءِلَ فَلَا تَنْھَرْ الضحٰی بلکہ درگزر سے کام لیجیے۔ یہ طرز عمل اس سے کہیں بہتر ہے کہ ضرورت مند کو کچھ دے تو دیا لیکن اس کے بعد اسے دوچار جملے بھی سنا دیے ‘ اس کی دلآزاری بھی کردی۔ تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ وہ بےنیاز بھی ہے اور بردبار بھی۔ اگر تم کسی کو کچھ دے رہے ہو تو اصل میں اللہ کو دے رہے ہو۔ اس ضمن میں ایک حدیث قدسی میں بڑی وضاحت آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو نے میری تیمار داری نہیں کی۔ وہ کہے گا : اے پروردگار ! میں تیری تیمارداری کیسے کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی تیمار داری نہیں کی ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا ! اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ‘ تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا : اے میرے ربّ ! میں تجھ کو کھانا کیسے کھلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نہیں جانتا کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا ‘ تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کھانے کو میرے پاس موجود پاتا ! اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا ‘ تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ کہے گا : پروردگار ! میں تجھ کو کیسے پانی پلاتا جبکہ تو تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا ‘ تو نے اس کو پانی نہیں پلایا تھا ‘ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اپنے اس عمل کو میرے پاس موجود پاتا ! 34 چنانچہ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کسی ضرورت مند کو دے رہے ہو وہ درحقیقت اللہ کو دے رہے ہو ‘ جو غنی ہے ‘ جس نے تمہیں سب کچھ عطا کیا ہے۔ اور تمہارے طرز عمل کے باوجود بھی اگر وہ تم سے درگزر کررہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حلیم ہے ‘ بردبار ہے۔ اگر تم اپنے دل سے اتری ہوئی شے اللہ کے نام پر دیتے ہو ‘ کوئی بےکار اور ردّی چیز اللہ کے نام پردے دیتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی غیرت اگر اسی وقت جوش میں آجائے تو تمہیں ہر نعمت سے محروم کر دے۔ وہ چاہے تو ایسا کرسکتا ہے ‘ لیکن نہیں کرتا ‘ اس لیے کہ وہ حلیم ہے۔
Top