Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 12
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ١ؕ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ
قَالَ : اس نے فرمایا مَا مَنَعَكَ : کس نے تجھے منع کیا اَلَّا تَسْجُدَ : کہ تو سجدہ نہ کرے اِذْ اَمَرْتُكَ : جب میں نے تجھے حکم دیا قَالَ : وہ بولا اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر مِّنْهُ : اس سے خَلَقْتَنِيْ : تونے مجھے پیدا کیا مِنْ : سے نَّارٍ : آگ وَّخَلَقْتَهٗ : اور تونے اسے پیدا کیا مِنْ : سے طِيْنٍ : مٹی
(خدا نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا ؟ اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔
(12) (قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک) اللہ تعالیٰ نے اسے ابلیس ! (تجھ کو کیا مانع تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے حکم دیا )” الا تسجد ”‘ میں لاء زائد ہے جیسے ” و حرام علی قریۃ اھلکنا ھا انھم لایرجعن “ میں لا زائد ہے (قال لا خیر منہ خلفتنی من نار وخلقنہ من طین) اور آ گ مٹی سے بہتر اور روشن ہوتی ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں پہلا قیاس ابلیس نے کیا اور اس میں غلطی کی۔ پس جو شخص دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو شیطان کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ ابن سیرین (رح) فرماتے ہیں کہ سورج کی عبادت قیاس کے ذریعے کی گئی ۔ محمد بن جریر (رح) کہتے ہیں کہ اس خبیث نے یہ گمان کیا کہ آگ کو مٹی پر فضیلت ہے یہ نہ سمجھا کہ فضیلت اس شے کو حاصل ہے جس کو اللہ تعالیٰ فضیلت دیں اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو آگ پر فضیلت دی ہے۔ حکماء فرماتے ہیں کہ مٹی کو آگ پر کئی اعتبار سے فضیلت حاصل ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں کہ مٹی کی خاصیت وزن، وقار، برد باری، صبر ہے۔ یہ چیزیں آدم (علیہ السلام) کے لئے داعی بنیں تو یہ تواضع، تضرع کی طرف جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو چن لیا اور ہدایت دی اور توبہ قبول کی اور آگ کی خاصیت ہلکا پن، طیش، جرأت ، بلند ہونا ہے اور یہی چیزیں ابلیس کی شقاوت کے بعد سبب بنیں تکبر اور گناہ پر ڈٹے رہنے کا تو اس کو ورثہ میں لعنت اور شقاوت ملی۔ اور اس لئے کہ مٹی اشیاء کو جمع کرنے کا سبب ہے اور آگ ان کو متفرق کرنے کا اور اس لئے کہ مٹی زندگی کا سبب ہے اس لئے کہ درختوں اور پودوں کی زندگی اس کے ذریعے ہے اور آگ ہلاکت کا سبب ہے۔
Top