Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 131
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ١ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب جَآءَتْهُمُ : آئی ان کے پاس الْحَسَنَةُ : بھلائی قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَنَا : ہمارے لیے هٰذِهٖ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُصِبْهُمْ : پہنچتی سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّطَّيَّرُوْا : بدشگونی لیتے بِمُوْسٰي : موسیٰ سے وَمَنْ مَّعَهٗ : اور جو ان کے ساتھ (ساتھی) اَلَآ : یاد رکھو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں طٰٓئِرُهُمْ : ان کی بدنصیبی عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
تو جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم اس کے مستحق ہیں اور اگر سختی پہنچتی تو موسیٰ اور ان کے رفیقوں کی بدشگونی بتاتے دیکھو ان کی بدشگونی خدا کے ہاں (مقدر) ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔
131(فاذا جآء تھم الحسنۃ) خوش حالی، عافیت، کشادگی (قالوا لنآ ھذہ) یعنی ہم اس کے مستحق ہیں اس کو اللہ کا فضل سمجھ کر شکر نہیں کیا ( وان تصبھم سیئۃ) خشک سالی ، آزمائش وغیرہ (یطیروا بموسی ومن معہ) اور کہتے کہ ان کو دیکھنے کی وجہ سے ہمیں تکلیف پہنچی ہے۔ سعید بن جبیر ؓ اور محمد بن مکندر (رح) فرماتے ہیں کہ فرعون کی بدشاہت چارسو سال رہی اور اس کی عمر چھ سو بیس سال تھی اس کو کبھی کوئی مزاج کے خلاف بات بھی نہیں پیش آئی۔ اگر اس مدت میں کبھی بھوک یا ایک رات کا بخار یا تھوڑی سے جسمانی تکلیف آئی ہوتی تو کبھی رب ہونے کا دعویٰ نہ کرتا (الا انما طئرھم عند اللہ ولکن اکثرھم لایعلمون) کہ ان پر جو حالت آئی خشک سالی اور فراوانی اور خیر اور شر کی وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ان کی نحوست وہ ہے جو ان پر فیصلہ کیا اور ان کی تقدیر میں لکھ دیا اور انہی سے ایک رویات ہے کہ ان کی نحوست اللہ کے پاس ہے اور اسی کی جانب سے ہے۔ یعنی ان پر نحوست ان کے اللہ کا کفر کرنے کی وجہ سے آئی ہے اور بعض نے کہا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ بڑی نحوست جوان کے لئے اللہ کے پاس ہے وہ جہنم کا عذاب ہے۔
Top