Tafseer-e-Baghwi - Ar-Rahmaan : 8
اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ
اَلَّا تَطْغَوْا : کہ نہ تم خلل ڈالو۔ زیادتی کرو فِي الْمِيْزَانِ : میزان میں
کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو
الا تطغوا فی المیزان۔ ان کا محل نصب ہو سکتا ہے اس صورت میں کہ حرف جار حذف ہے گویا فرمایا : لئلا تطغوا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یبین اللہ لکم ان تضلوا (النسائ : 176) یہ بھی جائز ہے کہ ان کا اعراب میں کوئی محل نہ ہو بلکہ یہ ای کے معنی میں ہو اس تقدیر کی بنا پر تطغوا مجزوم ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وانطلق الملا منھم ان امشوا اس : 6) طغیان کا معنی حد سے تجاوز کرنا ہے۔ جس نے کہا، میزان کا معنی عدل کرنا ہے (1) تو اس نے کہا طغیان کا معنی ظلم ہے۔ جس نے کہا، میزان سے مراد وہ چیز ہے جس کے ساتھ وزن کیا جاتا ہے۔ اس نے کہا، طغیان کا معنی کم کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، جس کے لئے تم وزن کرو اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ ان سے یہ بھی مروی ہے جس نے کہا، اس کا یہی حکم ہے اس نے کہا، اس کے طغیان سے مراد تحریف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس میں اضمار ہے یعنی اس نے میزان اتارا تمہیں حکم دیا کہ تم اس میں سرکشی نہ کرو۔
Top