Baseerat-e-Quran - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
بیشک وہ لوگ جو ہم سے (قیامت کے دن) ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر مطمئن اور خوش ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 7 تا 10 لایرجون (وہ امید نہیں رکھتے) لقاء (ملاقات) اطمانوا (وہ مطمئن ہوگئے) ماوی (ٹھکانا) یکسبون (وہ کماتے ہیں، حاصل کرتے ہیں) یھدی (وہ ہدایت دیتا ہے، راستہ دکھاتا ہے) النعیم (راحتوں سے بھرپور) سبحان (بےعیب ذات، جس میں کوئی خرابی نہ ہو) تحیہ (دعا) دعویٰ پکار، دعا، فریاد تشریح : آیت نمبر 7 تا 10 جب اللہ تعالیٰ ، اس کے آخری رسول اور نبی ﷺ اور آخرت کی ابدی زندگی پر پختہ یقین و ایمان اور اس کا شعور انسانی سیرت و کردار کی روح نہ بن جائے اس وقت تک ایسے بہترین اور صالح اعمال جو اس کو دنیا و آخرت میں فائدہ دے سکتے ہیں سر زد ہو ہی نہیں سکتے۔ ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص جو ایمان نہیں رکھتا۔ نہ تو اس کا آخرت پر یقین ہے اور نہ وہ اللہ و رسول کو مانتا ہے مگر اس کے اخلاق، معاملات اور کردار بہت بلند ہوں وہ لوگوں کی نگاہ میں ایک اچھا انسان سمجھا جاتا ہو۔ شریعت کی نگاہ میں ایسے آدمی کے اچھے اعمال کی قدر ہے اور اس کو اس کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مگر اس دنیا کی حد تک اس کو آخرت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ دنیا میں اس کا بدلہ یہ ہے کہ لوگ اس کی تعریفیں کریں گے اس کو ایک اچھا انسان سمجھیں گے ۔ قدر کین گاہوں سے دیکھیں گے۔ لیکن موت کی گود میں سوتے ہی اس کے تمام معاملات ختم ہوجائیں گے۔ ایسا آدمی آخرت میں خالی ہاتھ ہوگا۔ دین اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر یہ شخص یہ تمام اعمال صالح ایمان کے ساتھ کرتا۔ اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ پر ایمان لا کر حسن عمل کا مظاہرہ کرتا تو اس کو دنیا کی زندگی کے بعد آخرت میں بھی یہ اعمال کام آتے۔ دین اسلام کی تعلیمات سے یہ سچائی بھی سامنے رہنی چاہئے کہ دنیاوی زندگی بہت تھوڑی سی ہے جو کسی نہ کسی حد تک پہنچ کر ختم ہوجائے گی۔ لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے جس کی حد اور انتہا کوئی نہیں ہے۔ وہ ایسی ابدی زندگی ہوگی جہاں موت کو بھی موت آجائے گی۔ جس کے جیسے اعمال ہیں اس کو ایسا ہی بدلہ دیدیدا جائے گا۔ جو ایمان و یقین کے پیکر ہوں گے ان کے لئے جنت اور اس کی ابدی راحتیں مقدر کردی جائیں گی اور جو کفر و شرک اور نفاق میں مبتلا رہے ہیں ان کو جہنم کی ابدی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ ان آیات میں ان ہی دو جماعتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے : ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس اس دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے آخرت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ فرمایا کہ وہ اپنے اس خیال پر اس قدر مطمئن اور خوش ہیں کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے مہربان رب کی ملاقات کی بھی امید نہیں کھتے۔ انہیں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر پوری زندگی کا حساب کتاب پیش کرنے کا بھی کوئی ڈر نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ اس ہمیشہ کی زندگی میں وہ ہمیشہ جہنم کی آگ کا ایندھن بنے رہیں گے۔ اس کے برخلاف وہل وگ جو ایمان اور عمل صالح کا پیکر ہوں گے جو ہر نیک اور بھلے کام کو صرف اس لئے کرتے تھے کہ کوئی دیکھے نہ دیکھ کوئی تعریف کرے یا نہ کرے وہ محض اپنے پیدا کرنے والے پروردگار کی رضا و خوشنودی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ جنہیں قدم قدم پر یہ فکر رہتی تھی کہ انہیں ایک نہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی زندی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے۔ جو اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت و محبت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کو سعادت سمجھتے تھے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا انجام آخرت کی ابدی راحتیں، سکون و اطمینان ہوگا۔ وہ ایسی جنتوں میں داخل کئے جائیں گے جہاں ہر شخص ایک دوسرے پر سلامتی بھیجتا ہوگا جاں فضول باتوں کے بجائے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنا سب سے بڑی سعادت ہوگی۔
Top