Baseerat-e-Quran - Al-Hijr : 80
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ
وَلَقَدْ كَذَّبَ : اور البتہ جھٹلایا اَصْحٰبُ الْحِجْرِ : حجر والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
حجر کے رہنے والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔
لغات القرآن آیت نمبر 80 تا 86 معرضین منہ پھیر کر چلنے والے۔ نظر انداز کرنے والے الجبال (الجبل) ۔ پہاڑ۔ امنین امن و سکون سے رہنے والے۔ ما اغنی کام نہ آیا ۔ یکسبون وہ کماتے ہیں۔ الساعۃ قیامت۔ اصفع درگذر کر۔ الصفح الجمیل اچھی طرح خوبی سے درگزر کرنا۔ تشریح :- آیت نمبر 80 تا 86 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس طرح اور قوموں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا ان ہی میں اصحاب الحجر بھی تھے ” الحجر “ قوم ثمود کے اس مرکزی شہر کا نام ہے جس کے کھنڈرات آج بھی مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں تبوک جاتے ہوئے پڑتے ہیں۔ یہ جگہ چونکہ اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد کردی گئی تھی اس لئے جب نبی کریم ﷺ اس مقام سے گذرے تو آپ نے اس تباہ شدہ بستی کے قریب جانے سے منع فرما دیا۔ اسی لئے یہاں کوئی قافلہ گذرتا تو وہ اس وادی میں قیام نہیں کرتا تھا۔ قوم ثمود دنیا کی متمدن ترین قوم تھی ان کی تہذیب معاشرت اور معیشت نہایت ترقی یافتہ تھی۔ ہر طرف خوش حالی کا دورہ دورہ تھا۔ ان کی تعمیرات کا یہ حال تھا کہ وہ پہاڑوں کو نہایت خوبصورتی سے تراش تراش کر بیس بیس منزلہ عمارتیں بناتے تھے جن کی تعمیرات کے نمونے آج تک موجود ہیں۔ دنیاوی ترقی کا تو یہ عالم تھا لیکن کفر و شرک اور بدعات نے اس قوم کو اعمال و اخلاق کے اعتبار سے بالکل کھوکھلا کر کے رکھ دیا تھا انبیاء کرام تشریف لاتے رہے مگر انہوں نے اپنے مال و دولت بلند وبالا عمارتوں اور تذہیب و تمدن کی بدمستی میں اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو اور ان کی تعلیمات کو حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ آخر کار اللہ کا وہ فیصلہ آگیا جو نافرمان قوموں کا مقدر ہوتا ہے۔ ایک زبردست اور تیز آواز نے ان کی تہذیب اور ترقیات کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور وہ دنیاوی وسائل جن پر اس قوم کو ناز تھا ان کے کام نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کفار مکہ کو بھی اس بات پر آگاہ کیا ہے کہ دوسری قوموں کے حالات سے سبق حاصل کریں اور اللہ کے آخر نبی اور رسول محمد مصطفیٰ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لے آئیں۔ اگر انہوں نے بھی ان کی ناقدری کی اور اس موقع کو غنیمت نہ سمجھا تو وہ اپنے برے انجام پر غور کرسکتے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان کفار کی ایذا رسانیوں اور ظلم و ستم سے نہ گھبرائیں۔ اللہ نے آسمان و زمین اور اس پوری کائنات کا نظام یونہی نہیں بنایا بلکہ ایک نظام کے تحت بنایا ہے۔ حالات جگہ اور قومیں بدلتی رہتی ہیں۔ قومیں عروج وزوال کا شکار ہوتی رہتی ہیں لیکن وہ خالق کائنات جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ اس نظام کائنات کا نگراں ہے۔ فرمایا کہ اے اے نبی ﷺ آپ ان کو ان کے انجام سے باخبر کردیجیے اور ان سے درگزر کیجیے اگر ابھی یہ کسی طرح بچ بھی جائے تو قیامت دور نہیں ہے۔ ایک ایک بات کا فیصلہ ہوئے گا۔
Top