Baseerat-e-Quran - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
(اے نبی ﷺ آپ اس کتاب (قرآن) میں ابراہیم کا ذکر کیجیے۔ بیشک وہ سچے نبی تھے۔
لغات القرآن آیت نمبر 41 تا 50 یابت اے میرے ابا جان۔ سوی سیدھا، برابر۔ عصی نافرمان۔ ان یمسک یہ کہ تجھے پہنچے۔ یہ کہ تجھے پکڑے۔ اراغب کیا تو منہ پھیرتا ہے۔ (کیا تو رغبت رکھتا ہے۔ ) لم تنتہ تو باز نہ آیا۔ ارجمن میں ضرور پتھر ماروں گا۔ اھجرنی مجھے تنہا چھوڑ دے۔ ملی ایک وقت، مدت۔ استغفر میں دعائے مغفرت کروں گا۔ حفی مہربان۔ اعتزل میں الگ ہوتا ہوں۔ میں چھوڑتا ہوں۔ ادعوا میں پکاروں گا۔ شقی محروم۔ وھبنا ہم نے عطا کیا۔ لسان صدق سچی زبان، ذکر جمیل، علی نہایت بلند۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تشریح : آیت نمبر 41 تا 50 سورة مریم میں حضرت عیسیٰ حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا ہے حضرت ابراہیم جو خلیل اللہ اور ابوالانبیا کا شرف رکھتے ہیں انہوں نے ایک اسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جہاں دنیاوی عزت و عظمت مال و دولت اور طرح کا عیش اور آرام تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد جن کا نام آذر تھا وہ اپنے ہاتھ سے مٹی اور پتھر کے خوبصورت بت بنایا کرتے تھے۔ ان کے اس کمال فن کی وجہ سے نمرود بادشاہ کے دربار میں وہ ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے بت بنا کر ان کے سامنے خود بھی سجدے کرتے اور دوسروں کو بھی اس گمراہی کے راستے پر ڈالتے تھے ۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ بچپن ہی سے یہ دیکھتے آ رہے تھے کہ آذر اور اس زمانے کے لوگ صرف پتھر یا مٹی کے بت ہی نہیں بلکہ چاند سورج اور ستاروں کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان لوگوں کو چاند سورج ستاروں اور بتوں کی عبادت و بندگی کرتے دیکھتے تو یہی سوچتے تھے کہ یہ چیزیں کیا ہمارا معبود ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں ؟ کیونکہ چاند سورج اور ستارے تو روزانہ نکلتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں غائب ہوجاتے ہیں یقینا یہ کسی اور کے تابع ہیں چناچہ ایک دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کہہ اٹھے کہ یہ سب چیزیں میرے معبود نہیں ہو سکتے میں اس ایک رب کی طرف اپنا رخ پھیرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین چاند، سورج اور ستاروں کو پیدا کیا ہے۔ جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور میں ہر طرف سے منہ پھیر کر صرف ایک اللہ کا بندہ ہونے کا اقرار کرتا ہوں یہ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ سچی فطرت تھی جس نے ان کو یہ سب کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے حضرت ابراہیم کی رہنمائی فرمائی۔ ایک دن آپ نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنے والد سے اس طرح گفتگو فرمائی جس میں اپنے والد کو برا بھلا کہنے کے بجائے ان معبودوں اور عقیدوں کی برائی بیان کی جن کی وہ عبادت بندگی کرتے تھے چار مرتبہ ” یا ابت “ (اے میرے ابا جان) فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ والدین اگرچہ کافر ہی کیوں نہ ہوں ان کے ادب و احترام کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد آذر سے کہا اے ابا جان آپ جن بتوں کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں یہ تو اندھے بہرے گونگے ہیں ان کو چھوڑیئے اور اللہ نے مجھے جو کچھ علم عطا فرمایا ہے اس کی پیروی کیجیے اسی سے نجات ہوگی فرمایا کہ یہ چاند سورج اور ستارے ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہے جن کو معبود بنایا جاسکے اے ابا جان میری بات مانئے اگر آپ نے اس گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر میری بات کو مان لیا تو اس سے نہ صرف دنیا میں بکلہ آخرت میں بھی نجات نصیب ہو جائیگی اور ہر طرح کی بھلائیاں آپ کو عطا کی جائیں گی۔ حضرت ابراہیم نے کھل کر کہا کہ ان بتوں اور غیر اللہ کی عبادت درحقیقت شیطان کی پیروی ہے وہ شیطان جو اللہ کا سخت نافرمانی ہے مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ آپ کی گرفت نہ کرلیں اور آپ کسی کام کے نہ رہیں اور کھلم کھلا شیاطن کے ساتھی اور رفیق بن جائیں۔ یہ تمام باتیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے نہایت ادب و احترام اور نرمی سے کہی تھی کیونکہ انبیاء کرام کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ کسی کو دھمکی اور دھونس میں لانے کے لئے سخت لہجہ اختیار نہیں کرتے بلکہ نرمی اور محبت سے دین کی سچائی اور صداقت کی طرف دعوت دیتے ہیں اس کے برخلاف جو لوگ دنیا داری اور جھوٹے معبودوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ذرا ذرا سی بات پر ھڑک اٹھتے اور دھمکیوں پر اتر آتے ہیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی دو ٹوک باتوں کے جواب میں آذر نے جاہلانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا اے ابراہیم کیا تیرا یہ خیال ہے کہ میں تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دوں گا۔ ڈانتے ہوئے کہا کہ اگر تم ان باتوں سے باز نہ آئے تو میں تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر ڈالوں گا۔ بہتر یہ ہے کہ تم میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔ اتنی سخت اور دھمکی آمیز لہجے کے باوجود حضرت ابراہیم نے اپنے ادب اور احترام کے لہجے میں فرق نہ آنے دیا بلکہ یہ کہا کہ میں اپنے پروردگار سے آپ کے گناہوں کی معافی کے لئے درخواست کروں گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا مہربان ہے۔ مجھ پر اس کی نظر کرم ہے شاید وہ اللہ میری دعاؤں کو آپ کے حق میں قبول کرلے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملک عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرما گئے اور کہنے لگے کہ میں تمہیں اور تمہارے معبودوں (جن سے میں بیزار ہوں) کو چھوڑ کرجاتا ہوں۔ فلسطین پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اٹھارہ سال بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق جیسا بیٹا عطا فرمایا حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے گھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پیدا کیا جن کا لقب اسرائیل تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے بارہ بیٹے عطا فرمائے جن کو بنی اسرائیل (یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد) کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ صرف حضرت اسماعیل، حضرت اسحقٰ جیسے بیٹے عطا کئے بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت کی دولت سے سرفراز فرمایا۔ وہ باپ کتنے خوش نصیب تھے جن کی اولاد کو ان کی زندگی میں شان نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور سلسلہ نبوت نبی کریم ﷺ پر جا کر مکمل ہوا۔ چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سینکڑوں نبی اور رسول آئے ہیں۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے چوبیس ہزار پیغمبر صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوئے ہیں۔ اسلئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ابوالانبیاء کہا جاتا ہے۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) والدین خواہ مسلم ہوں یا کافر ان کا ہر حال میں ادب و احترام کرنا لازم ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے والد سے جو صرف کفر ہی نہ کرتے تھے بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کے لئے بتوں کی طرف مائل کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو لگائے ہوئے تھے ان سے سخت لہجے یا بےادبی کے انداز میں گفتگو اور تبلیغ نہیں فرمائی بلکہ ان کے ادب کا بھی پوری طرح خیال فرمایا۔ پوری گفتگو میں آخرت سے ڈرایا گیا لیکن کہیں بھی دھمکی یا جارحانہ انداز گفتگو کو نہیں اپنایا گیا۔ اگر غور کیا جائے تو پورے قرآن کریم میں سارے نبیوں کا اور رسولوں کا انداز مشفقانہ ہوا کرتا ہے اس میں دھمکی کا کوئی انداز نہیں ہوتا وہ صبر تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہیں جب کہ مشرکین کفار اور فساق اور فجار کی گفتگو میں زبردستی دھاندلی دھونس اور دھمکی کا انداز نمایاں ہوا کرتا ہے جیسے نمرود ، فرعون اور آذر وغریہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کی سختی کا جواب سخت سے نہیں دیا بلکہ اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرتے ہئے فرمایا کہ میں اللہ سے آپ کے گناہوں کی معافی کی درخواست ضرور کروں گا شاید میرا اللہ میری دعاؤں کو سن لے یہاں اس بات کو ذہن میں رکھ لیجیے کہ کافر والدین کا ادب و احترام تو لازم ہے لیکن ان کے لئے دعائے مغفرت کی اجازت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب آپ والد سے رخصت ہو رہے تھے لیکن بعد میں جب اللہ کا فیصلہ آگیا کہ کفار کے لئے دعائے مغفرت کرنے کی اجازت نہیں ہے تو آپ نے ان کے لئے دعائے مغفرت نہیں فرمائی۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ حقیقی علم وہی ہے جو اللہ نے حضرت انبیاء کرام کے ذریعے سے انسانوں کو عطا کیا ہے یہی راہ ہدایت اور راستے کی روشنی ہے۔ لیکن شیطان کا راستہ گمراہی اور ضلالت کا راستہ ہے جس میں کسی رطرح کی نجات نہیں ہے۔ (3) دین اسلام کی تبلیغ کا بہترین طریقہ حلم و تحمل صبر و برداشت اور دین کی سچائیوں کو پہنچانے کی مسلسل جدوجہد کرنا ہے۔ بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جن سے لوگوں کے ذہن دین اسلام کی طرف آنے کے بجائے اکھڑ جائیں۔ نرمی اور شفقت تبلیغ دین کی بنیاد ہے۔ جاہلانہ اور جارحانہ انداز گفتگو سے کبھی مفید نتائج نہیں نکلتے اسی لئے انبیاء کرام حلم و تحمل کے ذریعے دین کی سچائیوں کو دلوں میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (4) جب اللہ کے دین کے لئے قربانیاں دی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اولاد صالح اور ہر طرح کی خیر و برکت سے نواز دیا کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم کو ہر طرح کی خیر و برکت سے نواز کر حضرت ابراہیم کو دنیا کے تمام اہل مذہب کا پیشوا اور رہنما بنا دیا ہے اور آج ساری دنیا کے مذاہب اپنے اپنے انداز پر حضرت ابراہیم کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔ عرب کے سارے قبائل کو اس بات پر ناز تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ماننے والے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کو بھلا دیا تھا اسی لئے قرآن کریم کے ذریعے ان کی رہنمائی فرمائی گئی اور ان کو دین ابراہیمی کی طرف راغب فرمایا گیا۔
Top