Mafhoom-ul-Quran - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت اور اللہ کا ان پر فضل و کرم تشریح : یہاں سے پھر اہل مکہ کو خطاب کیا جا رہا ہے۔ اور ان مسلمانوں کو جو کفار مکہ کی دشمنی کی وجہ سے مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے کردار اور صفات کی وجہ سے یہودی، عیسائی، کفار مکہ اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مکرم و محترم سمجھے جاتے ہیں سب ہی مذاہب میں ان کی بےحد بلند جگہ سمجھی جاتی ہے۔ کفار مکہ کو یاد کروایا گیا کہ تم کو جب بتوں کی پوجا سے منع کیا جاتا ہے تو تم لوگ کہتے ہو ” ہمارے آباو اجداد یہی کرتے آئے ہیں اور ساتھ ہی تم لوگ ملت ابراہیمی کے پیروکار ہونے پر فخر بھی کرتے ہو۔ تو یہ دہری پالیسی کیسے اختیار کیے ہوئے ہو۔ اگر تم لوگ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا جد امجد مانتے ہو تو پھر بت پرستی کیسی۔ انہوں نے تو بت پرستی کی وجہ سے ہی اپنے ماں باپ، رشتہ دار، عزیز دوست اور اپنا وطن چھوڑ دیا تھا۔ دوسرا پہلو اس میں ان مسلمانوں کو تسلی دینا مقصود ہے جو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے تھے۔ ان کو مثال دی جا رہی ہے کہ جس طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑ کر عزت و احترام اور دائمی شہرت اور اللہ کی قربت حاصل کی تمہیں بھی کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ فتح و کامیابی ضرور ملے گی۔ ان شاء اللہ۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پیغمبر فطرت ہیں انتہائی نرم مزاج، مستقل مزاج اور معمار کعبہ ہیں اور آپ کو سیدنا محمد ﷺ کا جد امجد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپ نے دین ابراہیمی کی بنیاد رکھی یعنی توحید کا سبق دیا کہ اللہ ایک ہے اس کی عبادت ہی کرو۔ یہی دعوت جب آپ نے اپنے والد کو بڑے احترام سے دی تو انہوں نے بڑی سختی سے انہیں ہجرت کر جانے کو کہا۔ لہٰذا آپ نے ان کو سلام کہا اور مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اپنے آبائی وطن ” کلدانیہ “ سے ہجرت کر کے ملک شام میں جا آباد ہوئے۔ آپ کی پوری زندگی آزمائشوں میں گزری۔ آپ نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بیشمار قربانیاں دیں۔ یہ ان قربانیوں کا ہی تو انعام ہے کہ ان کی یاد میں ارکان حج کے بےحد اہم رکن قربانی، طواف، سعی اور پھر درود پاک میں آپ کا نام اور آپ کی آل اولاد کا نام ضروری طور پر شامل کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کو ویسے ہی تو نہیں مل گیا۔ ہمیں مسلمانوں کو ان کی پاکیزہ زندگی کا بڑے غور سے مطالعہ کرنا چاہیے اور ان کے اسوہ کو اپنا کر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے اندر سوائے اللہ کے اور کسی کا بھی کوئی خوف پیدا نہ ہونے دیں۔ کسی بھی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے جھکنے کی بجائے پورے یقین اعتماد اور کامل بھروسہ رکھتے ہوئے اللہ کی راہ اختیار کریں اسی میں کامیابی اور عزت ہے اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کا راز بھی۔ جو شخص یا قوم اللہ پر پورا بھروسہ کرتے ہوئے شیطان کے خلاف کھڑی ہوجائے اللہ اس کی مدد ضرور کرتا ہے یہ اس کا وعدہ ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور آنحضرت ﷺ کی زندگیوں سے ہمیں اسلام کی تبلیغ کرنے کے سلسلے میں چند اصول ملتے ہیں۔ (1) اپنی ذات سے کردار کا نمونہ پیش کیا جائے، یعنی جب اس راہ پر چل پڑیں تو دنیا کی کوئی چیز اس راہ پر چلنے سے ہرگز ہٹا نہ سکے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ” لہٰذا اسی دین کی طرف تم دعوت دو اور جس طرح تم کو حکم دیا گیا ہے اس پر ثابت قدم رہو اور کہو کہ اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے اس پر ایمان لایا ہوں۔ “ (سورۃ الشؤرٰی آیت : 15 ) (2) دعوت کو انتہائی خوبصورت، آسان، موثر اور دلائل کے ساتھ لوگوں کی عقل کے مطابق ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ (3) ظلم و ستم، زبردستی اسلام کی دعوت میں ہرگز منع ہے۔ اور فرض کیا گیا ہے کہ جس معاشرے میں بھی مسلمان رہ رہا ہو۔ وہاں کے ہر قانون کی سختی سے پابندی کی جائے۔ (4) صبر و سکون سے ہر مرحلہ طے کیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ” بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ “ (5) ہجرت۔ جہاں ظلم و ستم انتہا سے بڑھ جائیں تو وہاں طاقت کا جواب طاقت سے دینے کی بجائے ہجرت کر جانا بہتر ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے کی، سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ نے کی اور کئی پیغمبروں نے ہجرت کی۔ جیسا کہ قرآن میں اصحاب کہف کے بارے میں آیا ہے : ” بیشک اگر وہ ہمارا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے تو ہم کو سنگسار کردیں گے یا ہم کو اپنی ملت کی طرف واپس جانے پر مجبور کردیں گے۔ “ ( سورة کہف آیت :20 ) یہ سب مثالیں صرف اس لیے دی جا رہی ہیں تاکہ یہ اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ دین کو قبول کرنا، اس پر قائم رہنا اور پھر اس کی تبلیغ کرنا آسان کام نہیں۔ اس میں مذکورہ تمام مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں۔ مگر یہ اسلام کی راہ میں ہرگز مشکل نہیں کیونکہ جب جذبہ سچا ہو اور لگن پاکیزہ ہو اور مقصد بلند ہو، پھر عقیدہ پختہ ہو اور منزل قربت الہ العلمین ہو تو پھر ڈر کیسا ؟ پھر تو ہر قدم، ہر سانس، ہر کام عبادت ہی عبادت میں شمار ہوجاتا ہے۔ کیا بہترین طریقہ ہے مسلمان کی کامیاب زندگی کا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے مسلمان نے اپنی عادات، اعتقادات، معیشت، معاشرت، تمدن اور بود و باش میں قرآنی قوانین کو یکسر بھلا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم کافی حد تک پستی کی طرف جا رہے ہیں اور اپنی پہچان سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جب کہ ہماری پہچان اقبال کی نظر میں کچھ اس طرح ہے ؎ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ایک بہت بڑا نعام جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو دیا گیا وہ ہے پاکیزہ اولاد اور پاکیزہ پوتا جن کو نبوت کے بہترین اعزاز سے نوازا گیا۔ دو مسئلے ہمیں ان آیات میں سے اور ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ غیر مسلم کو سلام کرنا چاہیے یا نہیں ؟ رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” یہود ونصارٰی کو سلام کرنے میں پہل مت کرو۔ مزید فرمایا : جب تمہیں اہل کتاب سلام کریں تو تم انہیں صرف ” وعلیکم “ کہا کرو۔ (صحیح بخاری صحیح مسلم ) دوسرا مسئلہ ہے کفا رکے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا۔ تو اس سے اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ کیونکہ کفر اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی مغفرت ناممکن ہے۔ اللہ نے منع فرمایا ہے کافر کی مغفرت کے لیے دعا کرنے سے۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کی محبت میں کہہ دیا کہ میں آپ کی مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا اسی طرح سیدنا محمد ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کی مغفرت کی دعا کرنے کا کہا کیونکہ ان سے بےحد محبت کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے مشرک کی مغفرت سے منع فرما دیا فرمان رب العلمین ہے۔ ” نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے استغفار کریں۔ “ ( سورة توبہ) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے چچا کی محبت سے زیادہ اللہ کی محبت کو جانا اللہ کے حکم کی اطاعت کی اور چچا کی مغفرت کی دعا کرنا چھوڑ دی۔ مشرک کی زندگی میں اس کو توبہ کی ہدایت کرنا اور اللہ سے اس کی ہدایت کے لیے دعا کرنا جائز ہے مگر مرنے کے بعد اس کے لیے معافی کی دعا کرنا بالکل ناجائز اور منع ہے۔
Top