Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
قصۂ سوم حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام قال اللہ تعالیٰ ۔ واذکر فی الکتٰب ابرٰھیم۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ وجعلنا لھم لسان صدق علیا۔ ربط۔ اس سورة کا یہ تیسرا قصہ ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدا پرستی کا ذکر ہے کہ وہ کیسے خدا پرست تھے اور کس طرح انہوں نے اپنے باپ کو توحید کی دعوت دی اور کس طرح شرک اور بت پرستی کا بطلان ظاہر کیا اور اس دعوت اور تبلیغ میں اپنے باپ کے ادب اور احترام کو ملحوظ رکھا اور پھر کس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے باپ کو چھوڑا اور اپنے آبائی وطن سے ہجرت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے درجے بلند کیے اور ان کو اولاد صالح عطا فرمائی اور تمام امتوں اور قوموں میں ان کا ذکر خیر جاری رکھا۔ علامہ سیوطی (رح) نے بحر میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک سو پچھتر برس زندہ رہے اور ان کے اور آدم (علیہ السلام) کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ ہے اور ان کے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار برس کا فاصلہ ہے۔ نیز حضرت مریم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں ان مشرکین کا رد فرمایا جو کسی زندہ عاقل کو خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔ اب ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کر کے ان مشرکین کا رد فرماتے ہیں جو بےجان بتوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے تھے اس قسم کے مشرک قیامت کے دن اپنی حماقت پر بہت ہی زیادہ حسرت کریں گے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی ﷺ آپ اس کتاب یعنی قرآن میں لوگوں کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیجیے کہ یہ عرب کے مشرک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہونے پر فخر کرتے ہیں اور ان کے طریقہ کے خلاف شرک میں مبتلا ہیں۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) نہایت راستباز تھے۔ صدق و راستی میں حد کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ صدق و راستی انکے جز جز میں پوری طرح سرایت کیے ہوئے تھی اور پیغمبر تھے خدا کی طرف سے خبر دینے والے تھے یا یہ معنی ہیں کہ وہ عالی قدر اور بلند مرتبہ تھے۔ مطلب یہ ہے کہ نبوت اور صدیقیت کے جامع تھے جب کہ انہوں نے اپنے باپ آزر سے جو بت پرست تھے، یہ کہا کہ اے میرے باپ کیوں پوجتا ہے اس چیز کو جو نہیں سنتی اور نہیں دیکھتی اور نہ کسی ضرورت میں تیری کفایت کرسکے۔ یعنی جس چیز میں یہ صلاحیت نہیں کہ تیری خدمت اور عیادت کرسکے اور نہ تیری فریاد سن سکے اور نہ کسی نفع اور ضرر میں تیری کفایت کرسکے تو ایسی چیز کی عبادت سے کیا فائدہ کہ جس سے نہ نفع کی امید ہو اور نہ ضرر کا ڈر ہو اور یہ باتیں انتہائی ذلت کی ہیں اور معبود کے لیے نہایت عظمت چاہیے لہٰذا جب یہ بت نہ دیکھتے ہیں، اور نہ سنتے ہیں اور نہ ان کو یہ تمیز کہ کون ان کی عبادت کرتا ہے اور کون نہیں کرتا اور نہ یہ کسی نفع اور ضرر کے مالک ہیں تو ان کی عبادت سے کیا فائدہ ؟ ان بتوں سے تو ان کی عبادت کرنے والے ہی بہتر ہیں کہ جو سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں ایسی ذلیل اور خوار اور بیکار چیز کو اپنا معبود بنانا انتہائی حماقت ہے۔ ایک بات تو یہ ہوئی دوسری بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کی فہمائش کے لیے یہ کہی : اے میرے باپ بلا شبہ مجھے اللہ کی طرف سے وہ علم پہنچا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا۔ لہٰذا غیر عالم کو چاہیے کہ وہ عالم کا اتباع کرے۔ پس آپ میرا اتباع کیجیے میں آپ کو سیدھی راہ بتلاؤں گا جو چلنے والے کو منزل مقصود پر پہنچا دے۔ اتباع کے معنی پیچھے پیچھے چلنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اے میرے باپ میرے پیچھے پیچھے چلو ان شآء اللہ تعالیٰ میں تم کو خدا تک پہنچا دوں گا۔ بحق پدری و بمقتضائے محبت فرزندی میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ میرا اتباع کیجیے۔ مجھے اللہ کی طرف سے جو علم پہنچا ہے اس میں غلطی کا احتمال نہیں تو ایسے علم صحیح والے کا اتباع تو عقلا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ کہی اے میرے باپ تم شیطان کی عبادت نہ کرو کیونکہ بتوں کی عبادت در حقیقت شیطان کی عبادت ہے کیونکہ بتوں میں یہ صلاحیت اور لیاقت نہیں کہ وہ اپنی عبادت کی دعوت دے سکیں اور انبیاء اور اولیاء تو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے چلے آئے۔ لہٰذا بتوں کی عبادت کا داعی سوائے شیطان کے کون ہوسکتا ہے۔ اور سب کو معلوم ہے کہ بلاشبہ شیطان اللہ کا انتہائی نافرمان ہے جس کو ارحم الراحمین نے اپنی رحمت سے ملعون اور مطرود کردیا ہے۔ پس جو اس ملعون اور مطرود کی اتباع کرے گا اس کو بھی لعنت اور غضب سے حصہ ملے گا۔ خدا کا سب سے پہلا نافرمان یہی شیطان ہے جس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ چوتھی بات یہ کہی کہ اے میرے باپ بیشک میں ڈرتا ہوں کہ اگر تم اسی کفر و شرک کی حالت میں مرگئے تو تجھے رحمٰن کی طرف سے عذاب پہنچے گا۔ اور پھر تو دوزخ میں شیطان کا ساتھی بنے یعنی عذاب میں اس کا شریک بنے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب باپ کو نرمی اور تلطف کے ساتھ یہ نصیحت فرما چکے تو باپ نے اس کے برعکس درشتی سے یہ جواب دیا۔ اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تو میرے معبودوں سے منحرف اور برگشتہ ہے ؟ اگر تو میرے معبودوں کو برا کہنے سے باز نہ آیا تو میں تجھ کو ضرور سنگسار کر دوں گا۔ اور ایک مدت دراز تک یعنی عمر بھر کے لیے تو مجھ سے دور ہوجا۔ تاکہ میں تیری شکل نہ دیکھوں۔ ورنہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اچھا تم پر سلام ہو۔ لیجیے میں جاتا ہوں اور تم سے رخصت ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تم کو ہر ظاہری اور باطنی آفت سے سلامتی عطا فرمائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ سلام تحیہء اکرام نہ تھا بلکہ سلام رحمت تھا اور باپ کے لیے دعا کو متضمن تھا۔ البتہ میں تیرے لیے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگتا رہوں گا بلاشبہ وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ یعنی میں آپ سے جدا ہوتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایمان کی توفیق دے جو ذریعہ مغفرت ہے۔ چلتے وقت باپ سے دعاء مغفرت کا وعدہ کیا۔ شاید باپ نرم پڑجائے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ کے لیے دعاء مغفرت کرتے رہے۔ جب ان کے باپ کا خاتمہ کفر پر ہوگیا تو ان سے بیزار ہوگئے جیسا کہ سورة توبہ کے اخیر میں گزرا وما کان استغفار ابرٰھیم لابیہ الا عن موعدۃ و عد ھآ ایاہ فلما تبین لہٓ انہ عدوٌ للٰہ تبرا منہ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے سے علم نہ تھا کہ باپ کفر پر مرے گا ورنہ استغفار نہ کرتے۔ اور چھوڑ دوں گا میں تم سب کو یعنی باپ کو اور تمام خویش و اقارب کو اور سب اہل وطن کو اور چھوڑ دوں گا ان چیزوں کو یعنی ان بتوں کو جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو یعنی میں تم سب کو چھوڑ کر ملک شام کی طرف ہجرت کرتا ہوں اور صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں گا جو مجھے دیکھتا ہے اور میری دعا کو سنتا ہے۔ امید ہے کہ میں اپنے رب کے پکارنے میں محروم نہ رہوں گا۔ جیسا کہ تم اپنے بتوں کے پکارنے میں محروم اور ناکام ہو۔ پس جب ابراہیم (علیہ السلام) ان سے اور ان چیزوں سے جن کی وہ پرستش کرتے تھے علیٰحدہ ہوگئے اور سب کو چھوڑ دیا اور ملک شام کی طرف ہجرت کر گئے تو ہم نے ان کو اسحاق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا بخشا یعنی ان کو نیک اولاد عطا کی تاکہ ان کی وحشت دور ہو۔ خدا کیلئے خویش و اقارب کو چھوڑا اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر عطا کردیا۔ ایمان کے بعد سب سے زیادہ قابل قدر فرزند صالح ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؂ ندارد پدر ہیچ بایستہ تر، زفرزند شائستہ شائستہ تر اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو ہم نے نبی بنایا اور ان تینوں کو ہم نے اپنی رحمت اور برکت سے خاص حصہ دیا جو ان کی پشت ہا پشت میں جاری وساری رہی۔ اور اس دنیا میں ہم نے ان کا نیک نام بلند کیا کہ ہر کوئی ان کا ذکر۔ خیر اور بھلائی کے ساتھ کرتا ہے۔ اور تمام اہل ملت و دین ان کی مدح وثناء کرتے ہیں۔ لسان صدق سے ثناء مراد ہے۔ کیونکہ ثناء اور تعریف زبان سے ہوتی ہے اور بخشش ہاتھ سے ہوتی ہے اور درود میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور انکی اولاد کا ذکر یہ بھی لسان صدق میں داخل ہے۔ اور اس جملہ یعنی و جعلنا لھم لسان صدق علیا میں اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو یہ دعا مانگی تھی واجعل لی لسان صدق فی الاٰخرین وہ دعا قبول ہوئی شاید حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اس جگہ اس لیے نہیں کیا کہ وہ اس سے پہلے عطا ہوچکے تھے۔ اور بحکم الٰہی ان کو اور انکی والدہ ہاجرۃ (علیہ السلام) کو خانہ کعبہ کے قریب لا کر چھوڑ گئے تھے اس جگہ اس اولاد کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کو عزیز و اقارب کو چھوڑنے کے صلہ میں عطا کی تھی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) شروع ہی سے ان کے پاس نہیں رہے تھے۔ بچپن ہی میں ان سے جدا ہوگئے تھے۔ نیز حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا مستقل طور پر آئندہ ذکر آنے والا ہے۔ نکتہ : سلاطین اور ملوک کی اگر تعریف کی جائے تو اس تعریف سے لوگوں کی نظر میں سلاطین کا رتبہ بلند ہوتا ہے۔ بخلاف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کہ ان کی ثناء حسن سے ثنا کرنے والوں کا رتبہ بلند ہوگا کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی تعریف سر تا پا صدق اور حق ہوگی۔ اس لیے ان کی تعریف لوگوں کے حق میں موجب صد خیر و برکت ہوگی۔
Top