Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
(اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو تمام اہل جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 107 تا 112 ارسلنا ہم نے بھیجا۔ ھل کیا۔ مسلمون فرمانبرداری کرنے والے۔ اذنت میں نے خبر دے دی۔ سواء برابر، پوری پوری۔ ان ادری میں نہیں جانتا۔ الجھر پکارنا، زور سے کہنا۔ متاع سامان راحت، فائدہ۔ حین زمانہ، وقت۔ المستعان مدد طلب کی جاتی ہے۔ تشریح : آیت نمبر 107 تا 112 نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے آپ اہل ایمان کے لئے تو اس لئے رحمت ہیں کہ آپ کے ذریعہ ان کو اللہ کا وہ پیغام ہدایت نصیب ہوا جو قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لئے رحمت ہی رحمت ہے اور کفار اور مشرکین کے لئے بھی رحمت ہے کیونکہ آپ کی وجہ سے وہ قومیں اللہ کے اس عذاب سے محفوظ ہوگئی ہیں جو گزشتہ قوموں پر آئے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کفار و مشرکین کے لئے رحمت ہیں کہ جس طرح قوموں کے چہرے مسخ کردیئے گئے، زمین میں دھنسا دیئے گئے اور ان کو ان کے کفر کے سبب جڑ اور بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا اب نبی کریم ﷺ کی وجہ سے ان پر ان جیسے عذاب نہیں آئیں گے البتہ زلزلے، طوفان اور آپس کے لڑائی جھگڑوں وغیرہ کے عذاب ضرور آئیں گے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ عذاب بنا کر نہیں بھیجا۔ ایک مرتبہ کسی صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ مشرکین کے لئے بد دعا کیجیے، آپ نے فرمایا کہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں لعنتیں بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آپ کے ذریعہ اللہ نے انسانیت کو وہ رہبر و رہنما کتاب عطا کی ہے جس کے ذریعے یہ پوری کائنات ہر ایک کیلئے رحمت ہی رحمت بن جاتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میرے اوپر اس اللہ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے جو تم سب کا رب اور اللہ ہے۔ جس کو ماننے میں دیر نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن اگر وہ اس وحی الٰہی سے اپنا منہ پھیرتے ہیں ان سے صاف صاف کہہ دیجیے کہ میں نے تمام حالات سے تمہیں پوری طرح آگاہ کردیا۔ اگر تم نے اس کو مان لیا تو اس میں تمہارے لئے ہی بھلائی اور خیر ہے۔ فرمایا کہ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ میں نے اللہ کی طرف سے ہر بات کو واضح طریقے پر بیان کردیا ہے۔ اب مجھے یہم علوم نہیں ہے کہ تم سے جو وعدہ کیا گیا وہ فیصلہ جلد آئے گا یا اس میں دیر ہوگی۔ اس بات کا علم صرف اس اللہ کو ہے جو ہر اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے جو انسان آہستہ سے کہتا ہے یا پکار کر کہتا ہے۔ فرمایا کہ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ تمہیں ایک دفعہ پھر مہلت دی جا رہی ہے تاکہ تم سمجھ کر سنبھل جاؤ۔ لیکن اگر وہ اپنی روش زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر آپ کہہ دیجیے کہ ان کا جو بھی ٹھیک ٹھیک فیصلہ ہوگا۔ اس کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں مدد مانگنے والے ہیں۔ وہی ہماری مدد فرمائے گا۔ اس مضمون پر الحمد للہ سورة الانبیاء کا ترجمہ اور تشریح تکمیل تک پہنچی۔ و آخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
Top