Baseerat-e-Quran - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ : اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا) الطَّيْرَ : پرندے فَقَالَ : تو اس نے کہا مَا لِيَ : کیا ہے لَآ اَرَى : میں نہیں دیکھتا الْهُدْهُدَ : ہدہد کو اَمْ كَانَ : کیا وہ ہے مِنَ : سے الْغَآئِبِيْنَ : غائب ہونے والے
اور انہوں نے (سلیمان نے ) پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا بات ہے میں نے ہدہد کو نہیں دیکھا۔ کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے ؟
لغات القرآن : آیت نمبر 20 تا 37 : تفقد (اس نے جائزہ لیا۔ اس نے ڈھونڈا) ‘ مکت (وہ ٹھہرا۔ اس نے دیر کی) نباء (خبر) ‘ وجدت ( میں نے پایاض تملک ( وہ بادشاہت کرتی ہے) اوتیت (دیا گیا) الخبئ (پوشیدہ) القہ ( اس کو ڈال دے) افتونی ( مجھے بتائو۔ مجھے مشورہ دو ) ‘ قاطعۃ (کاٹنے والی) ‘ تشھدون ( تم موجود ہو) اولوقوۃ (قوت و طاقت والا) ‘ اولوباس ( لڑنے والے) ‘ تامرین (تو کیا حکم دیتی ہے) ‘ مرسلۃ ( بھیجنے والی) ‘ نظرۃ (دیکھنے والی) ‘ اتمدون (کیا تم مدد کرتے ہو) تفرحون ( وہ اتراتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں) ‘ صغرون (ذلیل و خوارہونے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر 20 تا 37 : حضرت سلیمان (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ایک عظیم پیغمبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی حکومت و سلطنت بھی عطافرمائی تھی کہ جس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنات اور پرندے بھی انکے تابع کردیئے گئے تھے اور وہ اللہ کے حکم سے ہر جان دار یہاں تک کہ چیونٹی جیسی معمولی اور چھوٹی سی مخلوق کی زبان تک کو سمجھتے تھے۔ ہد ہد جو ارض شام و فلسطین کا ایک ایسا پرندہ ہے جو زمین کی تہہ میں یہ آسانی سے دیکھ سکتا ہے کہ پانی کہاں موجود ہے۔ یقیناً حضرت سلیمان (علیہ السلام) جو ایک عظیم لشکر کے مالک تھے جب بھی جہاد کے لئے نکلتے تو پورے لشکر کے لئے پانی ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا تھا جس کے لئے ہد ہد جیسے پرندے سے کا م لیا جاتا تھا۔ ایک دن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے لشکر میں ہد ہد کو نہ دیکھ کر پوچھا کہ ہد ہد کہاں ہے اور جس مقصد کے لئے اس کو بھیجا گیا تھا اس میں کوتاہی کیوں کی گئی ہے۔ اگر اس کی کوتاہی ثابت ہوگئی تو نہ صرف اس کو سخت سزادی جائے گی بلکہ اس ذبح کردیا جائے گا۔ چند روز کے بعد ہد ہد پرندہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دربار میں حاضر ہوا تو اس سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں اور کیوں غائب ہوگیا تھا اور اس کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا اس میں کوتاہی کیوں کی گئی ؟ ہد ہد نے کہا کہ میں اڑتے ہوئے ایک ایسے ملک میں گیا جہاں عورت حکمرانی کررہی ہے جس کے پاس نہ صرف تمام وسائل ‘ مال و دولت موجود ہے بلکہ اس کا تخت سلطنت بھی بہت وسیع ہے۔ یہ قوم سورج کو اپنا معبود مانتی ہے۔ ایک اللہ کو چھوڑ کر وہ شیطان کی پیروی کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نگاہوں میں اتنا خوبصورت بنادیا ہے کہ جس سے وہ صراط مستقیم کو چھوڑ کر گم راہی میں جا پڑے ہیں حالانکہ ان کو اس اللہ کی عبادت و بندگی کرنا چاہیے تھی جو تمام آسمانوں اور زمین کے بھیدوں سے واقف ہے۔ اسی نے زمین کو سزسبز و شاداب بنایا ہے ‘ وہی معبود برحق ہے اور اس کا تخت سلطنت ہی سب سے بلند وبالا ہے۔ ہد ہدنے کہا شاید آپ کو اس سلطنت اور اس کی حکمران کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ مجھے جو معلوم ہواوہ میں نے عرض کردیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے شان پیغمبری کے مطابق اللہ کے نام سے اس خط کو شروع کیا اور فرمایا کہ تمہیں جیسے ہی میرا خط ملے تو ایک فرماں بردار کی طرح فوراً حاضر ہوجائو۔ خط کی مہر اور شاہی انداز سے لکھے گئے اس خط سے ملکہ بلقیس نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ یہ خط ایک عظیم بادشاہ نے لکھا ہے جن سے وہ واقف بھی تھی۔ یہ دعوت ملکہ بلقیس کا تاج و تخت ‘ حکومت و سلطنت حاصل کرنے کے لئے نہ تھی بلکہ اسلام کے اس مزاج کی عکاسی تھی جو اس نے ہمیش انسانوں کو راہ راست پر رکھنے کے لئے اختیار کی ہے تاکہ وہ کفر و شرک کو چھوڑ کر دین اسلام کی سچائیوں کی طرف آجائیں چناچہ خود مختار قوموں کو یہ کہا گیا کہ وہ دین اسلام کو ایک سچادین سمجھ کر اس کو قبول کرلیں تاکہ وہ ان کے بھائی بن کر برابر کی بنیاد اسلامی نظام کا ایک حصہ بن جائیں اور اگر وہ اس کو قبول نہیں کرتے تو اسلامی حکومت کی تابع داری قبول کرلیں اور سیدھے ہاتھ سے جزیہ اداکریں تاکہ ان کی حفاظت کی جاسکے۔ اور اگر یہ دونوں سورتیں ممکن نہ ہوں تو پھر وہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ تلوار خود فیصلہ کردے گی کہ کس کو حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ ملکہ بلقیس جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ ‘ ترقی یافتہ اور مال دار قوم سبا کی حکمران تھی جس قوم سبانے دنیا پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کی ہے اور دنیاوی وسائل میں بہت مشہور ہے۔ اس نے پانی کو روکنے اور اس کو تقسیم کرنے کے لئے ایسے بہترین بند باندھ رکھے تھے کہ جس سے یہ ملک سر سبز و شاداب نظر آتا تھا۔ سورة سبا میں اس کی کچھ تفصیلات ملتی ہیں۔ غرضیکہ جب ملکہ بلقیس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ خط پہنچا تو اس نے ملک کے تمام ذمہ داروں کو جمع کرکے پوچھا کہ میں ہمیشہ تم سے مشورہ کرتی ہوں مجھے یہ مشورہ دو کہ ہمیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے کہنے لگے کہ ہم بہترین اور ہر اعتبار سے جنگ کرنے کی عظیم صلاحیتیں رکھتے ہیں اگر ہمارے اوپر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں ہمیں کسی سے دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم تو ہر طرح تیار ہیں باقی آپ جیسے بہتر سمجھیں فیصلہ کرلیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مشورہ کے بعد ملکہ بلقیس جو نہایت ذہین عورت تھی اس نے عقل مندی اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے بادشاہوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی ملک میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں تو اس ملک کو تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل وخوارکرکے رکھ دیتے ہیں۔ میں اپنی طاقت پر بےجا گھمنڈ کرنے کے بجائے ایک ایسا طریقہ اختیار کرتی ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ سیلما (علیہ السلام) کیا چاہتے ہیں۔ انہیں ہماری دولت سے غرض ہے یا وہ ہمیں دین اسلام کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس نے بڑے قیمتی تحفے بھیجے جس میں سونا ‘ چاندی ‘ قیمتی جواہرات کے علاوہ کچھ غلام اور باندیاں بھی بھیجیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ردعمل کا اظہار کریت ہوئے تحفے لانے والوں سے کہا کہ مجھے اللہ نے اس سے بھی زیادہ دیا ہے۔ میں نے یہ سب کچھ اس لئے نہیں کہا تھا کہ مجھے تمہاری دولت اور تحفوں کی ضرورت ہے بلکہ میں نے دین اسلام پیش کیا تھا۔ لہٰذا یہ تحفے قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ ملکہ سے جا کر کہہ دینا کہ اگر تم نے میری اس دعوت کو قبول نہ کیا تو میں ایک ایسے زبردست لشکر کے ساتھ حملہ کرنے والا ہوں جس کے سامنے تم اور تمہاری طاقت ٹھہر نہ سکے گی۔ گویا اب میدان جنگ میں تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ کی بقیہ تفصیل اس کے بعد کی آیات میں آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جو اپنے وقت کے عظیم بادشاہ ہی نہ تھے بلکہ اللہ کی طرف سے نبوت کے مقام پر مقرر فرمائے گئے تھے ۔ آپ نے ملکہ بلقیس کو دعوت اسلام دے کر صراط مستقیم کی طرف بلایا ہے تاکہ وہ سورج کی عبادت و بندگی کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کریں اور اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلیں۔ ان کا مقصد حکومت و سلطنت یا مال و دولت سمیٹنا نہیں تھا کیونکہ اللہ نے ان کو اتنا کچھ عطا فرمایا تھا اور ہر مخلوق پر حکمرانی حاصل تھی کہ اس سے پہلے کسی کو نصیب نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ جب ملکہ بلقیس نے سونے ‘ چاندی اور جواہرات وغیرہ بھیجے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ بلقیس پر اس بات کو واضح کردیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ کا قبول اسلام یا اسلامی حکومت کے تابع داری مطلوب تھی دنیا کا سازو سامان کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ یہ وہ اسلامی مزاج تھا جس پر صحابہ کرام نے بھی عمل کیا۔ وہ جب بھی کسی سے جنگ کرتے تھے تو سب سے پہلے ان کو اسلام کی طرف بلاتے تھے اور ان پر واضح کردیتے تھے کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو وہ ہمارے بھائی ہیں اور تمام حقوق میں برابر ہیں۔ اگر وہ دین کو قبول نہیں کرتے تو اسلامی حکومت کی ذمہ داری میں آجائیں اور ایک معمولی ساٹیکس اداکریں یعنی جزیہ دیں۔ اگر وہدونوں میں سے کسی بات کو قبول نہ کریں تو پھر جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔
Top