Baseerat-e-Quran - Az-Zumar : 69
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُئْوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ١ؕ وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا
تُرْجِيْ : دور رکھیں مَنْ تَشَآءُ : جس کو آپ چاہیں مِنْهُنَّ : ان میں سے وَ تُئْوِيْٓ : اور پاس رکھیں اِلَيْكَ : اپنے پاس مَنْ تَشَآءُ ۭ : جسے آپ چاہیں وَمَنِ : اور جس کو ابْتَغَيْتَ : آپ طلب کریں مِمَّنْ : ان میں سے جو عَزَلْتَ : دور کردیا تھا آپ نے فَلَا جُنَاحَ : تو کوئی تنگی نہیں عَلَيْكَ ۭ : آپ پر ذٰلِكَ اَدْنٰٓى : یہ زیادہ قریب ہے اَنْ تَقَرَّ : کہ ٹھنڈی رہیں اَعْيُنُهُنَّ : ان کی آنکھیں وَلَا يَحْزَنَّ : اور وہ آزردہ نہ ہوں وَيَرْضَيْنَ : اور وہ راضی رہیں بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ : اس پر جو آپ نے انہیں دیں كُلُّهُنَّ ۭ : وہ سب کی سب وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَلِيْمًا : بردبار
اے نبی ﷺ آپ ان بیویوں میں سے جسے چاہے اپنے سے دور رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھے اور جسے چاہیں اپنے سے دور رکھنے کے بعد دوبارہ اپنے پاس بلا لیں۔ اس میں آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی ۔ وہ رنجیدہ نہ ہوں گی اور وہ اس پر راضی رہیں گی جو آپ انہیں دیں گے۔ اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے ؟ اللہ جاننے والا اور برداشت کرنے والا ہے ۔
لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 52 ترجی (ارجاء) : موخر کرنا ۔ دور رکھنا توی (ایواء) : قریب کرنا ابتغیت : تو نے تلاش کیا۔ طلب کیا عزلت : تو نے الگ کردیا ادنی : قریب ان تقر : یہ کہ ٹھنڈی رہیں اعین (عین) : آنکھیں لا یحزن : وہ ہرگز رنجیدہ نہ ہوں گی رقیب : نگران۔ گہری نظر رکھنے والا تشریح : آیات نمبر 51 تا 52 اللہ تعالیٰ نے قرآن کرم میں عدل و انصاف کی بعض شرائط کے ساتھ اس بات کو واضح طور پر بیان فرمادیا ہے کہ ہر مومن زیادہ سے زیادہ چار بیویاں تک رکھ سکتا ہے ۔ ان کے نان و نفقہ (کھانے پینے اور ضروریات زندگی) اور ہر ایک کے پاس شب باشی یعنی رات گذارنے کی باری مقرر کرنا لازمی اور ضروری ہے اس کے خلاف جائز نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض دینی مصلیحتوں کی وجہ سے بنی کریم ﷺ کو چار سے زیادہ شادیاں کرنے اور ان کے درمیان باری مقرر کرنے کو آپ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اس وقت آپ کے گھر میں نو بیویاں تھیں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب ایک ہی وقت میں اتنی بیویاں ہوں گی تو بوض گھریلو مشکلات ، پریشانیاں اور اختلافات کا پیدا ہونا لازمی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اس بات کا اختیار عطا کردیا ہے کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں اپنے دور رکھیں یعنی جس کی باری ہے آپ اس کے پاس نہ جائیں اور جانا موخر کریں۔ اور جو کو چاہیں قریب رکھیں اور اگر آپ نے کسی کو دور رکھا ہوا ہے اور پھر اس کو قریب لانا چاہیں تو آپ بلاسکتے ہیں۔ آپ پر اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو اس حقیقت نے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عام قائدہ چھوڑکر بعض عظیم دینی مصلحتوں اور تبلیغ دین میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی وجہ سے آپ کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں تاکہ آپ کو اپنے گھر والوں کی طرف سے سکون وا طمینان رہے اور اس سلسلہ کی تمام رکاوٹیں دور ہوتی چلی جائیں جن سے باہمی رنجشیں ، شکایتیں اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ بنی کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو عظمتوں کا شاہکار ہے۔ خاص طو رپر آپ کی گھریلو زندگی آپ کے شفیقانہ برتائو اور محبت بھرے انداز سے نہایت پر سکون زندگی تھی۔ آپ کی خواہش رہتی تھی کہ گھر میں سب ہنسی خوشی باہم مل جل کر محبت پیار سے رہیں اور کسی طرح آپ کے گھر پر غموں کے سائے نہ منڈلائیں ۔ آپ کی طرف سے آپ کی ازواج مطہرات کو جو کچھ ملے وہ اس پیار سے رہیں اور کسی طرح آپ کے گھر پر غموں کے سائے نہ منڈلائیں۔ آپ کی طرف سے آپ کی ازواج مطہرات کو جو کچھ ملے وہ اس پر راضی رہیں کیونکہ اتنی بیویوں کی موجودگی میں کسی کو دور کرنے، کسی کو پاس بلانے ، کسی کی باری میں دوسری بیوی کے پاس چلے جانے میں دلی رنجش پیدا ہوجانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن جب ہر ایک کو یہ معلوم ہوگیا کہ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے سارے اختیارات آپ کو عطا کردیئے ہیں کہ آپ جس طرح چاہیں جسے چاہیں اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ معاملہ اور سلوک کریں تو اب کسی کو شکایت کرنے اور اختلاف کرنے کا موقع نہ رہا کیونکہ سب کچھ اللہ کے حکم کے تحت ہو رہا ہے یہ ایک ایسا بہترین اصول تھا کہ جس سے ازواج مطہرات کے رنجیدہ رہنے کی وجہ نہیں تھی ۔ اس موقع پر اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تو وہ اختیارات تھے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھریلو زندگی گذارنے کے لئے عطا فرمائے تھے کہ آپ جس طرح چاہیں جیسے چاہے ان ازواج کے ساتھ سلو کریں لیکن آپ نے ان اختیارات کا نہ ہونے کے برابر استعمال فرمایا ہے۔ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان پورا عدل و انصاف کرنے کی ایک ایسی روایت چھوڑی ہے جو اپنی جگہ ایک بہترین مثال ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد بھی آپ کا طرز عمل اور حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ ہم میں سے کسی کی باری کے دن اگر آپ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے جانا چاہتے تو جس کی باری ہوتی اس سے آپ اجازت لے لیا کرتے تھے۔ (بخاری ۔ مسلم ۔ نسائی) دنیاوی حیات کے آخری دور میں جب آپ بہت کمزور ہوگئے اور سہولت کے ساتھ آنے جانے میں دشواری محسوس کرنے لگے تو نے اپنی سب ازواج مطہرات سے یہ کہہ کر اجازت لی کہ مجھے عائشہ کے ساتھ رہنے دیں۔ جب سب نے خوشی سے اجازت دیدی تب آپنے حیات دنیاوی کا آخری حصہ حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں گذارا۔ وہیں آپ کا وصال ہوا اور آج آپ اسی حجرے میں آرام فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ام ا المومنین حضرت عائشہ ؓ کے اس حجرے کو وہ عظمت کا مقام عطا فرما یا کہ اس میں نہ صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ، حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ آرام فرمار ہے ہیں بلکہ بنی اسرائیل کے آخری بغمبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب آسمانوں سے دنیا میں تشریف لا کر اور عمر طبعی کو پہنچ کر وصال فرمائیں گے تو ان کو بھی نبی کریم ﷺ کے پہلو میں دفن کردیا جائے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو عظیم رتبہ عطا کیا ہے کہ جس سعادت میں کوئی ان کے برابر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو گھریلو زندگی میں دینی مصلحتوں کے پیش نظر جہاں بہت سے اختیارات عطا فرمائے ہیں وہیں آپ کو چند احکامات کا پابند بھی بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کی بےمثالی اور عظیم قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اب جتنی ازواج مطہرات آپ کے گھر میں ہیں اب وہی رہیں گی ان کی موجودگی میں کسی دوسری بیوی کو لانے کی اجازت نہیں ہے یعنی باندیوں کے سوا اب مزید عورتوں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے ۔ اسی طرح آپ کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ آپ موجودہ ازواج مطہرات میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بیوی لے آئیں خواہ وہ حسن و جمال کی پیکر ہی کیوں نہ ہو۔ چناچہ آپ نے اللہ کا حکم آنے کے بعد ان ازواج مطہرات کے بعد کسی سے نکاح نہیں فرمایا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام احوال سے پوری طرح واقف ہے اور وہ ان کے اعمال کی نگرانی کر رہا ہے وہی جانتا ہے کہ کس بات میں کیا مصلحت ہے۔
Top