Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 51
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُئْوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ١ؕ وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا
تُرْجِيْ : دور رکھیں مَنْ تَشَآءُ : جس کو آپ چاہیں مِنْهُنَّ : ان میں سے وَ تُئْوِيْٓ : اور پاس رکھیں اِلَيْكَ : اپنے پاس مَنْ تَشَآءُ ۭ : جسے آپ چاہیں وَمَنِ : اور جس کو ابْتَغَيْتَ : آپ طلب کریں مِمَّنْ : ان میں سے جو عَزَلْتَ : دور کردیا تھا آپ نے فَلَا جُنَاحَ : تو کوئی تنگی نہیں عَلَيْكَ ۭ : آپ پر ذٰلِكَ اَدْنٰٓى : یہ زیادہ قریب ہے اَنْ تَقَرَّ : کہ ٹھنڈی رہیں اَعْيُنُهُنَّ : ان کی آنکھیں وَلَا يَحْزَنَّ : اور وہ آزردہ نہ ہوں وَيَرْضَيْنَ : اور وہ راضی رہیں بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ : اس پر جو آپ نے انہیں دیں كُلُّهُنَّ ۭ : وہ سب کی سب وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَلِيْمًا : بردبار
ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں، اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں،116۔ اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا ان میں سے کسی کو پھر طلب کرلیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں، اس (انتظام) میں زیادہ توقع ہے اس کی کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور آزردہ نہ ہوں گی اور اس پر راضی رہیں گی جو کچھ آپ انہیں دے دیں گے،117۔ اور اللہ (خوب) جانتا ہے اسے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اور اللہ بڑا علم والا ہے، بڑا حلم والا ہے،118۔
114۔ یعنی یہ عام مومنین کے احکام سے آپ ﷺ کے حق میں بعض امتیازات وتخصیصات آپ ﷺ کی مخصوص مصلحتوں کے لحاظ ہیں تاکہ آپ ﷺ کے مقاصد پیغمبرانہ ومصالح میں ہرج واقع نہ ہو۔ اخبر اللہ تعالیٰ بتوسعہ علی النبی ﷺ فی اباحتہ لہ وعلی ال مومنین فی ما اطلقہ لھم (جصاص) (آیت) ” لکیلا یکون یکون علیک حرج “۔ کا ربط نحوی (آیت) ” قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم “۔ سے ہے۔ (آیت) ” وما ملکت ایمانھم “۔ درمیان میں بطور جملہ معترضہ کے ہے۔ 115۔ چناچہ رحیمیت کی بناء پر احکام میں بڑی سہولتیں ملحوظ رکھتا ہے۔ پھر اگر سہل احکام کی تعمیل میں بھی غفلت ہوجائے تو غفوریت کی بناء پر جب چاہے معاف بھی کردیتا ہے۔ 116۔ یعنی جس کو جتنی مدت تک چاہیں اسے باری نہ دیں اور اپنے سے الگ رکھیں۔ اور جس کو جتنی مدت تک چاہیں، باری دیتے رہیں اور اپنے پاس ہی رکھیں، یہ آپ ﷺ ہی کی صوابدید ومصلحت پر ہے۔ اس باب میں آپ پر وہ پابندیاں نہیں، جو عام امت پر ہیں۔ ھذہ الایۃ تدل علی ان القسم بینھن لم یکن واجبا علی النبی ﷺ وانہ کان مخیرا فی القسم لمن شاء منھن وترک من شاء منھن (جصاص) (آیت) ” منھن “۔ ضمیر ظاہر ہے کہ ازواج مطہرات کی جانب ہے ذکر انہیں کا ہورہا ہے۔ 117۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ پر ادائے حقوق زوجیت کے باب میں وہ متعدد پابندیاں عائد نہیں جو عام مسلمین کے لیے ہیں۔ اور بیویوں کو بہت سے معاملات میں آپ ﷺ پر کوئی دعوی یا حق ہی نہیں۔ یہ محض آپ کی خوشی ومصلحت پر ہے کہ آپ فلاں فلاں امور میں ان کی دلجوئی ورعایت کرتے رہیں تو جب ازواج مطہرات کا استحقاق ہی باقی نہ رہا تو قدرۃ انہیں رنج بھی بہت کم ہوگا۔ عموما وعادتا تو رنج کی بنیاد یہی استحقاق ہی ہوتا ہے۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ انتظامات حق تعالیٰ ہی کی جانب سے ہیں۔ تو اب بجائے رنج کے تعمیل احکام میں اور مسرت ہوگی۔ لانھن اذا علمن ان ھذا التفویض من عند اللہ اطمأنت نفوسھن وذھب التغایر وحصل الرضاء (مدارک) (آیت) ” ذلک “۔ یعنی یہی انتظامی سہولتیں اور رعایتیں جو آپ ﷺ کے حق میں اوپر مذکور ہوئیں۔ یا یہ کہ آپ ﷺ کی مرضی پر چھوڑ دینے کا حکم۔ اے التفویض الی مشیتک (مدارک) 118۔ وہ اپنے علم کامل سے ہر ایک کی بدگمانیوں اور گستاخانہ خیالات پر بھی مطلع ہے جس کی جب چاہے گرفت کرے، لیکن اپنے کمال حلم سے فورا گرفت نہیں کرتا۔ سب کو موقع ومہلت دے رہا ہے۔
Top