Kashf-ur-Rahman - An-Naml : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
(10) سوائے اس کے نہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جب حکم شرع کے تابع ہوں تو انصاف سے صلح کروادو ایک کی طرف داری نہ کرو۔ یہ حکم ہے خانہ جنگی کا جو مسلمان آپس میں لڑپڑیں۔ خلاصہ : یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں اگر جنگ ہوجائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں سمجھا بجھا کر مابہ النزاع امور کو ختم کر ا کے اصلاح کردیں اور دونوں پارٹیوں میں صلح کرادیں اور اگر باوجود اصلاح کی اور صلح کی کوشش کے کسی جماعت کی زیادتی دیکھو یعنی وہ قتال کے ترک پر آمادہ نہ ہو اور زیادتی اور تعدی سے باز نہ آئے تو زیادتی کرنے والی جماعت سے تم سب مل کر لڑو اور جنگ کرو یہاں تک کہ وہ تعدی اور زیاتی کرنے والی جماعت اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے فیصلے کے آگے جھک جائے اور جنگ بند کردے۔ پھر جب وہ پارٹی جھک جائے اور جنگ سے رجوع کرلے تو حدود شرعیہ کے موافق ان کی اصلاح کردو عدل کا مطلب سے شرعی حدود کے موافق صلح کرادو تاکہ صلح پائے دار دائمی ہو صرف جنگ بند کرادینے سے پھر اندیشہ رہے گا کہ کسی وقت پھر لڑائی ہوجائے اس لئے تمام معاملات کو انصاف کے ساتھ طے کرادو اور انصاف کیا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ آگے پھر اس مضمون کی تاکید ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں تو کبھی بھائیوں میں لڑائی ہوجائے تو تم اپنے دونوں بھائیوں میں اصلاح کردیا کروکیون کہ بہرحال وہ دونوں پارٹیاں تمہارے بھائی ہیں اور صلح کراتے وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو یعنی جانب داری سے کام نہ لو اور کسی پارٹی کی طرف داری نہ کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ کہتے ہیں کہ انصار کے بعض حضرات اور عبداللہ بن ابی کے بعض طرف داروں میں میں ایک جھگڑا ہوگیا جھگڑا معمولی بات پر تھا۔ نبی کریم ﷺ ایک سواری پر سوار تھے سواری نے پیشاب کیا عبداللہ بن ابی نے پیشاب پر کچھ ناک بھول چڑھائی عبداللہ بن رواحہ نے اس کی ناک بھوں چڑھانے پر کوئی ناراضگی کا اظہار کیا اسی پر بات بڑھ گئی اور اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اس آیت کے متعلق بہت سے مسائل ہیں کیونکہ یہ آیت ہراس جنگ کو شامل ہے جو مسلمان آپس میں لڑیں امام سے بغاوت کرکے مقابلے میں آئیں اور آپس میں لڑیں ان کا حکم فرمایا مرتدین کا نہیں ہے۔ حضرت کرم اللہ وجہہ نے جنگ جمل صفین کے موقعہ پر فرمایا تھا اخواننا بغواعلینا۔ حضرت علی ؓ نے بغاوت کرنے والوں کو اپنا بھائی فرمایا معلوم ہوا کہ ایسی بغاوت یا باہمی جنگ سے مسلمان کا نام باقی رہتا ہے اور ایک مسلمان کو کفار نہیں کہا جاسکتا اسی لئے اس قسم کے لڑنے والوں کے احکام بھی جدا ہیں مثلاً جودو پارٹیاں باہم نبردآزما ہیں وہ دونوں امام المسلمین کی ولایت کے تحت ہیں یا دونوں امام المسلمین کی ولایت کے ماتحت نہیں ہیں یا ایک امام کی ولایت کے تحت ہے اور دوسری نہیں ہے ان کے تمام احکام علیحدہ علیحدہ فقہ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں جو ان کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس مختصر تیسیر میں ان کی گنجائش نہیں یہاں صرف اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمانوں کو اخوۃ قائم رکھنے کی غرض سے ایک طریقہ صلح وآشتی اور باہم صفائی کا بتایا گیا ہے اور تیسری پارٹی جو اصلاحی ہو اس کو عدل و انصاف کی تاکید کی گئی ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے اور آداب تعلیم فرمائے اور سماج کو اعلیٰ کردار سکھائے تاکہ اخلاق کی بلندی میسر ہو اور باہمی خانہ جنگی بند ہو۔
Top