Mafhoom-ul-Quran - Al-Anfaal : 166
اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتَّ : تم نے معاہدہ کیا مِنْهُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر يَنْقُضُوْنَ : توڑ دیتے ہیں عَهْدَهُمْ : اپنا معاہدہ فِيْ : میں كُلِّ مَرَّةٍ : ہر بار وَّهُمْ : اور وہ لَا يَتَّقُوْنَ : ڈرتے نہیں
جن لوگوں سے آپ نے صلح کا عہد کیا ہے، پھر وہ ہر بار عہد کو توڑ ڈالتے ہیں اور اللہ سے نہیں ڈرتے۔
عہد توڑنے والوں کی سزا، اسلامی سیاست کا آغاز تشریح : ان آیات میں بنو قریظہ اور بنو نضیر کی بدعہدی اور ان کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا گیا ہے پھر اسلامی سیاست کی بنیاد کا ذکر کیا گیا ہے۔ بنو قریظہ یہودی قبیلہ تھا جو مصیبت کے وقت رسول اللہ ﷺ سے دوستی کا وعدہ کرلیتے مگر حقیقت میں کفار مکہ کے ساتھ ملے رہتے، پھر عہد کرتے، پھر توڑ ڈالتے یہ لوگ ہرگز اعتبار کرنے کے قابل نہ تھے۔ یہود کا سردار کعب بن اشرف تھا جیسا کہ کفار مکہ کا سردار ابوجہل تھا۔ تو ایسے بدعہد لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ غداری کے ثابت ہوجانے پر بڑی سخت سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسی سخت ترین سزادینی چاہیے کہ جو دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے اور اگر یہ شبہ ہوجائے کہ وہ خیانت کرنے والے ہیں تو ان کو پہلے سے ہی خوب اچھی طرح سمجھا دو کہ تمہاری خیانت تمہارے لیے وبال جان ثابت ہوگی، یعنی خیانت پر شدید ترین سزا ملے گی۔ اس طرح وہ خیانت کرنے سے باز آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا، اس لیے ہر مومن کو اس بدترین عادت سے اپنے آپکو بچا کر رکھنا چاہیے۔ مدینہ منورہ کیونکہ اسلامی ریاست بن چکا تھا، اس لیے اب سیاسی معاملات کی طرف توجہ دینا ضروری تھا۔ جس میں سب سے پہلا کام رسول اللہ ﷺ نے یہ کیا کہ مہاجرین (مکہ سے آئے ہوئے لوگ) اور انصار (مددگار مدینہ کے رہنے والے مقامی لوگ) کا آپس میں رشتہ مضبوط اور مخلص بنانے کے لیے ان کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ اللہ نے مدد کی اور یوں انصار کے آپس کے پرانے جھگڑے بھی ختم ہوگئے اور ان کا آپس میں اور مہاجرین کے ساتھ بھائی چارے کا رشتہ مضبوط ہوگیا۔ یوں مسلمانوں کو باہمی محبت، خیرسگالی اور امن و سکون سے مل جل کر رہنے کا ایک بہت بڑا سبق اور اصول دیا گیا۔ -2 دوسرا کام نبی کریم ﷺ نے سیاسی نظریہ سے یہ کیا کہ اطراف مدینہ کے یہود کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا۔ یہ معاہدہ باقاعدہ لکھ کر کیا گیا اور اس پر پابندی تمام انصار و مہاجرین اور اطراف مدینہ کے تمام یہودی قبائل پر عائد تھی۔ اور وہ معاہدہ ابن کثیر میں اس طرح موجود ہے۔ پہلا حصہ یوں بتایا گیا ہے کہ ” باہمی اختلاف کے وقت رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سب تسلیم کریں گے، دوسرا حصہ یہ کہ ” یہود مدینہ کسی بھی دشمن کا ساتھ ہرگز نہ دیں گے نہ ظاہری طور پر اور نہ ہی پوشیدہ طور پر۔ “ مگر یہود نے عہد شکنی کرتے ہوئے جنگ بدر میں مشرکین کی اسلحہ سے مدد کی۔ جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی تو پھر یہود معافی مانگنے رسول ﷺ کے پاس آگئے۔ ریاست کے انتظام میں نبی اکرم ﷺ کی سیاسی لحاظ سے سوجھ بوجھ کی داد دینا پڑتی ہے کیونکہ انہوں نے اندرونی انتظام مہاجرین و انصار کی مواخات، یعنی بھائی بھائی بنانے میں کردیا لوگوں کے دلوں میں محبت اور سکون پیدا ہوگیا۔ تاریخ عالم میں یہ پہلی برادری تھی جس کی بنیاد بجائے خون کے مذہب پر تھی اور یہ بہترین اور انوکھی مگر کامیاب روایت نبی اکرم ﷺ نے قائم کی تھی اس طرح اندرونی مضبوطی مسلمانوں میں جڑ پکڑ گئی۔ اور بیرونی مضبوطی میثاق مدینہ سے پیدا ہوگئی۔ اس کی اہم شرائط چھ تھیں۔ جس میں آخری شرط کہ ” کسی قسم کا جھگڑا ہوا تو فیصلہ رسول اللہ ﷺ کریں گے۔ اس سے مسلمانوں کو سیاسی طور پر بڑی مضبوطی اور حاکمیت حاصل ہوگئی جس کے بہترین اثرات بعد تک ظاہر ہوتے رہے۔ یہودی قبائل بنو قینقاع بنو نضیر اور بنو قریظہ کا وہ اقتدار نہ رہا تھا جو رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے پہلے تھا۔ آپ سیاسی اعتبار سے واقعی اللہ کے نائب ثابت ہوئے۔ ان آیات میں آپ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے قانون بنا دیا گیا ہے کہ منافق اور وعدہ خلافی کرنے والے، یعنی بدعہد کو بڑی سخت سزا دینی چاہیے عہد کو منسوخ کرنا پڑے تو منسوخ کر دو اور خوب اچھی طرح ان سے نمٹو بالکل لحاظ مت کرو۔ یاد رکھو کہ دغاباز، بدعہد اور منافق بندوں سے اللہ نہ تو خوش ہوتا ہے اور نہ ہی اللہ ایسے لوگوں کی حمایت کرتا ہے اس لیے ایسے لوگوں کو خوب اچھی طرح سزا دو جب وہ وعدہ خلافی کریں تو عہد کے منسوخ کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دو تاکہ تمہاری طرف سے بدعہدی کا خیال پیدا نہ ہو۔
Top