Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 56
اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتَّ : تم نے معاہدہ کیا مِنْهُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر يَنْقُضُوْنَ : توڑ دیتے ہیں عَهْدَهُمْ : اپنا معاہدہ فِيْ : میں كُلِّ مَرَّةٍ : ہر بار وَّهُمْ : اور وہ لَا يَتَّقُوْنَ : ڈرتے نہیں
(خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تُو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ 41
سورة الْاَنْفَال 41 یہاں خاص طور پر اشارہ ہے یہود کی طرف، نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں۔ نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب تر سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب ہی کے طریقہ کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن ان کے علماء اور مشائخ کو توحیدخالص اور اخلاق صالحہ کی وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی، جو نبی ﷺ کر رہے تھے، ایک آن نہ بھاتی تھی اور ان کی پیہم کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے۔ اسی کے لیے وہ اوس اور خزرج کے لوگوں میں ان پرانی عدادتوں کو بھڑکاتے تھے جو اسلام سے پہلے ان کے درمیان کشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں۔ اسی کے لیے قریش اور دوسرے مخالف اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ حرکات اس معاہدہ دوستی کے باوجود ہو رہی تھیں جو نبی ﷺ اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا۔ جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتدا میں ان کو توقع تھی کہ قریش کی پہلی ہی چوٹ اس تحریک کا خاتمہ کر دے گی۔ لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو ان کے سینوں کی آتش حسد اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی طاقت کو ایک مستقل ”خطرہ“ نہ بنا دے اپنی مخالفانہ کوششوں کو تیز تر کردیا۔ حتٰی کہ ان کا ایک لیڈر کعب بن اشرف (جو قریش کی شکست سنتے ہی چیخ اٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے) خود مکہ گیا اور وہاں سے اس نے ہیجان انگیز مرثیے کہہ کہہ کر قریش کو انتقام کا جوش دلا یا۔ اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی۔ یہودیوں کے قبیلہ بنی قینقاع نے معاہدہ حسن جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں۔ اور جب نبی ﷺ نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ ”یہ قریش نباشد، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب تمہیں پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔“
Top