Bayan-ul-Quran - Al-Ahzaab : 19
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو پھر اپنے کئے پر پچتانا پڑے۔ (ف 3)
3۔ اس کے نزول کا واقعہ اس طرح ہوا (اور پھر حکم عام ہے) کہ حضور ﷺ نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰة وصول کرنے کے لئے بھیجا، اور ایک روایت میں بنی وکیعہ آیا ہے، ولید میں اور ان میں زمانہ جاہلیت میں کچھ عداوت تھی، ولید کو ہاں جاتے ہوئے کچھ اندیشہ ہوا، ان لوگوں نے سن کر استقبال کیا، ولید کو یہ گمان ہوا کہ یہ لوگ بارداہ قتل آئے ہیں، واپس آکر اپنے خیال کے موافق کہہ دیا کہ وہ تو مخالفت اسلام ہوگئے، آپ ﷺ نے حضرت خالد کو تحقیق حال کے لئے بھیجا اور فرمادیا کہ خوب تحقیق کرنا، اور جلدی مت کرنا، چناچہ انہوں نے وہاں بجز اطاعت اور خیر کے کچھ نہ دیکھا، آکر آپ ﷺ کا اطمینان کردیا، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔ (فائدہ) اس سے ایک حکم شرعی ثابت ہوگیا کہ بدوں تحقیق کے ایسی خبر پر عمل نہ کرنا چاہئے۔
Top