Bayan-ul-Quran - Al-Anfaal : 71
وَ اِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر يُّرِيْدُوْا : وہ ارادہ کریں گے خِيَانَتَكَ : آپ سے خیانت کا فَقَدْ خَانُوا : تو انہوں نے خیانت کی اللّٰهَ : اللہ مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَاَمْكَنَ : تو قبضہ میں دیدیا مِنْهُمْ : ان سے (انہیں) وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اگر (بالفرض) یہ لوگ آپ کے ساتھ خیانت (نقض عہد) کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو (کچھ فکر نہ کیجئیے) تو اس سے پہلے انہوں نے اللہ کے ساتھ خیانت کی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو گرفتار کرادیا۔ اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں بڑی حکمت والے ہیں۔ (ف 2) (71)
2۔ سبب نزول ان آیات کا یہ ہے کہ بدر میں ستر کافر پکڑے ہوئے آئے تو آپ نے صحابہ سے ان کے بارے میں مشورہ کیا بعض نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردینا چاہیے بعض نے کہا کہ ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دینا چاہیے آپ پر وحی نازل ہوئی کہ ان صحابہ سے فرمادیجیے کہ تم کو اختیار دیا جاتا ہے خواہ ان کو قتل کردو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو مگر اس صورت میں اگلے سال ستر آدمی شہید ہوں گے غرض اکثر صحابہ کی یہی رائے تھی کہ خیرہم شہید ہوجائیں گے اس وقت ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے شاید یہ مسلمان ہوجائیں اور اس وقت مسلمانوں کو مالی مدد ملے آپ نے بھی بوجہ رحم دلی کے اس رائے کو پسند فرمایا چناچہ باستثناء بعض کے کہ وہ تو قتل کیے گئے جیسے عقبہ نضر اور طعمہ باقی سب قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا صرف حضرت ابوالعاص کو کہ وہ بھی اس وقت ان میں تھے صحابہ کی مرضی سے بدون کچھ لیے چھوڑ دیا اس کو اصطلاح شرع میں من کہتے ہیں اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ ماکان لنبی تاعذاب عظیم۔ ان آیتوں سے صحابہ کو اس فدیہ کے حلال و حرام ہونے کا شبہ ہوگیا تو آیت فکلوا۔ الخ۔ نازل ہوئی چونکہ بعض قیدی فدیہ دینے کے بعد مسلمان ہوگئے تھے جیسے حضرت عباس وغیرہ اور انہوں نے آپ سے بوجہ فدیہ دینے کے مفلس ہوجانے کی شکایت کی اس پر آیت یا ایھا النبی قل لمن فی ایدیکم۔ نازل ہوئی۔ تتمہ اس آیت قصہ کا یہ ہے کہ اس کے بعد بعض صحابہ نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ عذاب کے آثار بہت قریب آگئے تھے مگر اللہ کا فضل ہوا کہ نازل نہیں ہوا۔
Top