Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 23
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ
وَيْلٌ : خرابی لِّكُلِّ : واسطے، ہر هُمَزَةٍ : طعنہ زن لُّمَزَةِۨ : عیب جو
خرابی ہے اس شخص کے لیے جو طعنہ زنی اور عیب جوئی کرنے والا ہے
خرابی ہے اس شخص کے لیے جو طعنہ زنی اور عیب جوئی کرنے والا ہے 1 ؎ (ھمزۃ) اس کا اصل مادہ م ز ہے اور ہمزہ صیغہ مبالغہ ہے۔ بڑا عیب گو اور کثیر الغیۃ یعنی کثرت سے غیب کرنے والا ۔ بطور طعن آنکھ سے اشارہ کرنا ، نچوڑنا ، چبھونا ، عیب گوئی کرنا ، دور کرنا ، مارنا ، کاٹنا ، توڑنا ، شیطانی وسوسہ اور دیوانگی پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ لوگوں کے عیب ڈھونڈنے والا ، چغل خور اور عیب چیں وغیرہ سب اس کے معانی ہیں اور اس کے معنوں میں بہت وسعت ہے اور اس میں خرابی اور بڑائی ۔ ہائے ہائے اور افسوس پایا جاتا ہے۔ ( لمزۃ) صیغہ صفت برائے مبالغہ عیب چینی اور پس پشت عیب بیان کرنے والا ۔ آنکھ سے بطور طنز اشارہ کرنے والا اور اس کا مادہ ل م ز ہے اور اس مادہ کے چند الفاظ بھی قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں جیسے ( تلمزوا) (49 : 11) (یلمزک) (9 : 58) (یلمزون) (9 : 79) اور زیر نظر آیت میں ( لمزۃ) گویا ہمزہ اور لمزہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں ۔ ہر چغلی کھانے والے ، دوستوں میں جدائی اور تفرقہ ڈالنے والے ، بےقصور اور بےعیب انسانوں میں نقص نکالنے والے کو ہمزہ اور لمزہ کہتے ہیں اور بعض اہل زبان نے ان دونوں میں جو باریک فرق بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بدو لعنت زنی کرنے والے کو ہمزہ اور پس پشت عیب جوئی کرنے ووالے کو لمزہ کہتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کا عکس بھی بیان کیا ہے علاوہ ازیں ان کے لیے کئی اقوال نقل کیے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اتنے قریب المعنی ہیں کہ اہل لغت کے لیے ان کا الگ الگ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ کفار مکہ میں بھی قرآن کریم کے نزول کے وقت ایسے لوگ موجود تھے لیکن اس وقت ہمارے معاشرہ اسلامی میں بھی بکثرت ایسے لوگ موجود ہیں اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ وہ کافر تھے اور ہم مسلمان ہیں اور اس وقت مسلمانوں میں یہ کمزوریاں عام ہیں کہ جہاں غریب اور کمزور سے آمنا سامنا ہوا تو اس کے منہ پر اس کو برا بھلا کہہ لیا کیونکہ اس کی طرف سے کسی طرح کی مزاحمت کا خطرہ کم ہی ہوتا ہے اور وہ جوابی کارروائی کر ہی نہیں سکتا اور اگر زبان کھولے گا تو بھی سختی سے اس کو لگام دی جاسکتی ہے اور جہاں کوئی اپنے سے طاقتور مد مقابل ہوا اس کے سامنے اس کی تعریف بھی کردی اور اس کی خوشامد میں بھی چند جملے بول دیئے اور جب وہ چلا گیا تو دوسروں سے آنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس کی غیبت کرنا شروع کردی یہ ایسا ہے ، ویسا ہے ، اس میں یہ عیب ہے ، وہ عیب ہے اور اس میں فلاں کمزوری ہے اور فلاں کمزوری ہے گویا اس کی عدم موجودگی میں دل کی بھڑاس نکال لی جاتی ہے اور اس وقت بڑے علامہ حضرات اور حضرت العلام ، مذہبی رہنما اور قوم کے و ڈیرے سب کے سب اس میں شامل ہیں لیکن ماشاء اللہ سب اس وقت کے کفار کے لیے یہ آیت خاص سمجھتے ہیں اگرچہ یہ بات سو فی صد غلط ہے کیونکہ یہ عادات و خصائل ہیں ، جس زمانہ میں ، جس میں یہ پائی جائیں گی ان کو ان القابات کا مستحق قرار دیا جائے گا خواہ موجودہ دور میں ہوں یا کسی آگے آنے والے زمانہ میں ۔
Top