Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 14
لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهٖ١ؕ وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ
لَهٗ : اس کو دَعْوَةُ : پکارنا الْحَقِّ : حق وَالَّذِيْنَ : اور جن کو يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ : وہ جواب نہیں دیتے لَهُمْ : ان کو بِشَيْءٍ : کچھ بھی اِلَّا : مگر كَبَاسِطِ : جیسے پھیلا دے كَفَّيْهِ : اپنی ہتھیلیاں اِلَى الْمَآءِ : پانی کی طرف لِيَبْلُغَ : تاکہ پہنچ جائے فَاهُ : اس کے منہ تک وَمَا : اور نہیں هُوَ : وہ بِبَالِغِهٖ : اس تک پہنچنے والا وَمَا : اور نہیں دُعَآءُ : پکار الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اِلَّا : سوائے فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی
سچا پکارنا اسی کے لئے خاص ہے اور جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ذرا بھی ان کی درخواست کو منظور نہیں کرتے مگر جیسے کوئی شخص پانی کی طرف اپنی ہتھیلیاں پھیلائے ہوئے ہوتا کہ پانی اس تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں اور کافروں کی پکار بس ضائع ہے۔
بتوں میں حاجت روائی کی طاقت نہیں : 1:۔ ابن جریر وابوالشیخ نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لہ دعوۃ الحق “ سے مراد ہے التوحید یعنی لا الہ الا اللہ۔ 2:۔ عبدالرزاق والفریابی وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ والبیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لہ دعوۃ الحق “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے لا الہ الا اللہ کی شہادت۔ 3:۔ ابن جریر وابوالشیخ نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” لہ دعوۃ الحق “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے لا الہ الا اللہ اس کے علاوہ کسی کو یہ لائق نہیں اور کسی کو یہ لائق نہیں کہ یہ کہا جائے کہ بنو فلاں کا فلاں خدا ہے۔ 4:۔ ابن جریر (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا کباسط کفیہ الی المآء لیبلغ فاہ وما ھو ببالغہ “ یہ مثال اس شخص کہ ہے جو پیاسا ہو اور اپنے ہاتھ کو پھیلاتا ہے کنویں کی طرف تاکہ وہ پانی اس کی طرف اونچا ہوجائے حالانکہ وہ (اس کے ہاتھ میں) پہنچنے والا نہیں ہے۔ 5:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا کباسط کفیہ الی المآء “ سے مراد ہے کہ ایک آدمی ملاتا ہے پانی کو اپنی زبان سے اور اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتا ہے تو اس طرح کبھی بھی اس کے پاس نہیں آئے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی (جھوٹا معبود) اس کی پکار کو نہیں پہنچے گا۔ 6:۔ ابن جریر وابوالشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والذین یدعون من دونہ لا یستجیبون لہم بشیء الا کباسط کفیہ الی المآء لیبلغ فاہ وما ھو ببالغہ “ سے مراد ہے کہ وہ (پانی) اسکو کبھی نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ اس کی گردن ٹوٹ جائے اور وہ پیاس سے ہلاک ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” وما دعآء الکفرین الا فی ضلل “ (14) “ یہ اللہ تعالیٰ نے مثال بیان فرمائی کہ یہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کا پکارتا ہے (چاہے) یہ آیت ہے یا یہ پتھر ہے دنیا میں کبھی یہ ان کو جواب نہیں دیں گے۔ اور نہ اس کی طرف خیر کو لائیں گے اور نہ اس سے کسی تکلیف کو دور کریں گے یہاں تک اس کو موت آجائے گی۔ جیسے مثال اس شخص کی جس نے اپنے ہاتھوں کو پھیلا یا پانی کی طرف تاکہ اس کے منہ میں پہنچ جائے اور وہ اس کے منہ کو نہ پہنچے گا اور نہ یہ پہنچے گا اس کی طرف یہاں تک کہ پیاسا مرجائے۔ 7:۔ ابوعبید وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” والذین یدعون من دونہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت میں اس شخص کی مثال ہے جو بیٹھا ہوا ہے کنویں کے کنارے پر اور وہ اپنا ہاتھ کھول کر کنویں کے پاس لے جاتا ہے۔ تاکہ وہ اس کو پہنچ جائے تو اس کا ہاتھ پانی تک نہیں پہنچتا نہ پانی اس کے ہاتھ تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح نہیں نفع دیں گے ان کو جھوٹے معبودوں کو جن کو یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ پکارتے تھے۔ 8:۔ ابن ابی حاتم (رح) بکیربن معروف (رح) سے روایت کیا کہ جب قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی پیشانی کو سمندر میں کردیا۔ اس کے اور اسکے پانی کے درمیان (صرف) ایک انگلی کا فاصلہ ہے۔ اور وہ پانی کی ٹھنڈک کو اپنے قدموں کے نیچے سے پاتا ہے۔ لیکن وہ پانی کو نہیں پاسکتا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” الا کباسط کفیہ الی المآء لیبلغ فاہ وما ھو ببالغہ “ جب گرمی کا موسم ہوتا ہے تو اس پر جھلسنے والی گرم ہوا کی سات دیواریں لگا دی جاتی ہیں۔ اور جب سردی کا موسم ہوتا ہے تو اس پر برف کی سات دیواریں لگا دی جاتی ہیں۔ 9:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” الا کباسط کفیہ الی المآء لیبلغ فاہ “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ مثال مشرک کی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی غیر کی بھی عبادت کرتا ہے اس کی مثال جیسے پیاسے آدمی کی مثال ہے جو اپنے خیال میں پانی کو دور سے دیکھتا ہے۔ ؛ اور وہ ارادہ کرتا ہے کہ وہ اس کو پہنچ جائے اور وہ اس پر قادر نہیں ہوتا۔
Top