Dure-Mansoor - An-Nahl : 15
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙ
وَاَلْقٰى : اور ڈالے (رکھے) فِي الْاَرْضِ : زمین میں۔ پر رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ : کہ جھک نہ پڑے بِكُمْ : تمہیں لے کر وَاَنْهٰرًا : اور نہریں دریا وَّسُبُلًا : اور راستے لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : راہ پاؤ
اور اللہ نے زمین میں بھاری پہاڑ ڈال دیئے تاکہ زمین تمہیں لے کر ہلنے نہ لگے اور اس نے نہریں بنائیں اور راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ
1:۔ عبد ابن حمید ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ کے طریق سے حسن بصری (رح) سے انہوں نے قیس بن عباد (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا فرمایا تو وہ حرکت کرنے لگی فرشتے کہنے لگی یہ تو اپنی پشت پر کسی کو قرار نہیں پکڑنے دے گی لیکن یونہی صبح ہوئی زمین کے اندر پہاڑ گاڑ دیئے گئے اور فرشتوں کو معلوم بھی نہ ہوا کہ کہاں سے پیدا ہوگئے کہنے لگے اے ہمارے رب کیا تیری مخلوق میں کوئی ایسی چیز بھی ہے جو ان سے زیادہ سخت ہو اللہ نے فرمایا ہاں لوہا ہے پھر فرشتوں نے عرض کیا لوہے سے بھی سخت کوئی چیز اور مخلوق ہے فرمایا ہاں آگ ہے فرشتوں نے عرض کیا اے ہمارے رب کیا آگ سے بھی زیادہ سخت کوئی اور چیز بھی ہے فرمایا ہاں پانی ہے فرشتوں نے عرض کیا اے ہمارے رب کیا تو نے اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز پیدا کی ہے فرمایا ہاں ہوا ہے فرشتوں نے عرض کیا ہوا سے بھی سخت کوئی چیز تو نے بنائی ہے فرمایا ہاں مرد عرض کیا کیا تیری کوئی مخلوق مرد سے بھی زیادہ سخت ہے فرمایا ہاں عورت ہے۔ 2:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” رواسی “ سے مراد پہاڑ ہیں (آیت) ” ان تمیدبکم “ اس کو ٹھہرادیا پہاڑوں کے ذریعہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس پر کوئی مخلوق نہ ٹھہرتی۔ 3:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” رواسی ان تمید بکم “ یہاں تک تمہارے ساتھ ہلنے نہ لگے فرشتے زمین پر تھے تو زمین ہل رہی تھی اور قرار نہیں پاتی تھی پس صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو (کھڑا) کردیا اور وہ پہاڑ زمین میں کیلیں ہیں۔ 4:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان تمیدبکم “ سے مراد ہے (کہ ایسا نہ ہو) کہ وہ تمہارے ساتھ الٹ پلٹ ہوجاتی اور فرمایا تمہارے ہر شہر میں نہریں جاری کردیں۔ 5:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وسبلا “ سے مراد ہے پہاڑوں کے درمیان راستے۔ 6:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، اور خطیب نے کتاب النجوم میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وسبلا “ سے مراد ہیں ” و علامات “ سے مراد ہیں ستارے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” وعلمت “ سے مراد ہے پہاڑوں کی نہریں۔ 8:۔ عبدالرزاق، ابن جریر اور ابن منذر نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلمت “ سے مراد ہیں پہاڑ۔ 9:۔ ابن جریر ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلمت “ یعنی دن میں راستوں کے نشان ” وبالنجم ھم یھتدون “ یعنی رات کو (ستاروں سے راہ پاتے ہیں ) ۔ 10:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں ابراہیم (رح) سے روایت کیا (آیت) ” وعلمت “ سے مراد ہے وہ نشانیاں جو آسمانوں میں ہوتی ہیں (آیت) ” وبالنجم ھم یھتدون “ یعنی وہ راہ پاتے ہیں اپنے سمندری سفروں میں۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلمت وبالنجم ھم یھتدون “ سے مراد ہے کچھ ستارے علامت کے طور پر ہوتے ہیں اور کچھ ستاروں سے راہ پاتے ہیں۔ 12:۔ ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ کسی آدمی سے چاند کی منزلوں کو سیکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ 13:۔ ابن منذر نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ وہ کسی آدمی کے ستاروں (کے علم) کو سیکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جن سے راستہ کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ 14:۔ عبدبن حمید ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” افمن یخلق کمن لا یخلق “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی پیدا کرنے والے وہی رزق دینے والے ہیں اور یہ بت جن کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی ہے وہ پیدا کئے جاتے ہیں (یعنی ان کو گھڑا جاتا ہے) اور وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے اور وہ اپنے پجاریوں کے لئے نہ نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” افلا تذکرون “ اور فرمایا (آیت) ” والذین یدعون من دون اللہ “ یعنی یہ بت جن کی عبادت کی جاتی ہے اللہ کو چھوڑ کر وہ مردے ہیں ان میں کوئی روح نہیں وہ اپنے لوگوں کے لئے نہ خیر کے مالک ہیں اور نہ نفع کے (آیت) ” الھکم الہ واحد “ یعنی اللہ تعالیٰ ہمارا معبود ہے اور ہمارا مددگار ہے اور ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہم کو رزق دینے والا ہے اور ہم نہ کسی کی عبادت کرتے ہیں اور نہ ہم پکارتے ہیں اس کے علاوہ کسی غیر کو (آیت) ” فالذین لا یومنون بالاخرۃ قلوبہم منکرۃ “ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل اس کا انکار کررہے ہیں (آیت) ” وھم مستکبرون “ یعنی وہ اس بات سے تکبر کرنے والے ہیں۔ 15:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی کی طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاجرم “ سے مراد ہے بلی ! کیوں نہیں۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے ا بومالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاجرم “ یعنی حق۔ 17:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاجرم “ یعنی (یہ بات) جھوٹ نہیں۔ 18۔ عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” انہ لا یحب المستکبرین “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو اس نے کردیا (آیت) ” انہ لا یحب المستکبرین “ اور ہم کو بتایا گیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے نبی ! میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں یہاں تک کہ میں پسند کرتا ہوں کہ میرے کوڑے کا دستہ اور میری جوتی کا تسمہ خوبصورت ہو کیا آپ ڈرتے ہیں مجھ پر تکبر کا اندیشہ کرتے ہوئے ؟ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو اپنے دل کو کیسے پاتا ہے ؟ اس نے کہا میں اس کو پاتا ہوں حق کو پہچاننے والا اور اس کی طرف مطمئن ہونے والا، آپ ﷺ نے فرمایا وہ تکبر نہیں ہے لیکن تکبر یہ ہے کہ تو حق کو تھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے اور تو اپنے سے کسی کو افضل نہ جانے اور تو حق کو حقیر جانے اور تو تجاوز کرے اس سے اس کے غیر کی طرف۔ اللہ تعالیٰ متکبرین کو پسند نہیں فرماتے : 19:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں عبد بن حمید ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسین بن علی ؓ سے روایت کیا کہ وہ مساکین کے پاس بیٹھتے تھے پھر فرماتے تھے (آیت) ” انہ لا یحب المستکبرین “۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے علیؓ سے روایت کیا کہ تین کام ایسے ہیں کہ ان کو کرنے والا متکبر نہیں لکھا جائے گا جو شخص گدھے پر سوار ہو اور اس کو عار نہ سمجھے اور جو شخص بکری کی ٹانگوں کو باندھے اور اس کا دودھ نکالے اور مساکین کے لئے جگہ کشادہ کرے اور اپنی مجلس کو حسین بنائے۔ 21:۔ مسلم اور بیہقی نے شعب میں عیاض بن حمار المجاشعی (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی کہ تم تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے۔ 22:۔ بیہقی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے میرے لئے تواضع اختیار کی اس طرح اور آپ نے اپنی ہتھیلی کے اندرونی حصہ کے ساتھ زمین کی طرف اشارہ فرمایا اور اس کو زمین سے قریب کردیا میں اس کو اس طرح بلند کردوں گا اور اپنی ہتھیلی کے اندورنی حصہ کو آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اور اس کو آسمان کی طرف اٹھایا۔ 23:۔ خطیب اور بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ منبر پر فرما رہے تھے اے لوگوتواضع اختیار کرو میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اللہ کے لئے تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو بلند کردیں گے اور فرمایا تو سر اٹھا اللہ تعالیٰ نے تجھے بلند کیا ہے پس وہ اپنے نفس میں حقیر ہے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوتا ہے اور جس نے تکبر کیا اللہ اس کو ذلیل کریں گے اور فرماتا ہے تو پست رہ اللہ تعالیٰ نے تجھے پست کیا ہے اور وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کے نزدیک زیادہ ذلیل ہوتا ہے کتے اور خنزیر سے بھی۔ 24:۔ بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے مگر اس کے سر میں درزنجیر ہوتے ہیں ایک کا تعلق آسمان سے اور ایک کا تعلق زمین سے جب بندہ تواضع کرتا ہے تو فرشتہ اس کو بلند کرتا ہے جس کے ہاتھ میں آسمان کی زنجیر ہوتی ہے اور جب بندہ تکبر کرتا ہے تو وہ کھینچ دیتا ہے اس زنجیر کو جو زمین میں ہوتی ہے۔ 25:۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے مگر اس کے سر میں حکمت ہوتی ہے اور وہ حکمت فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے جب وہ تواضع اختیار کرتا ہے تو فرشتے سے کہا جاتا ہے اس کی حکمت بلند کردے اگر وہ تکبر کرتا ہے تو فرشتے سے کہا جاتا ہے اس کی حکمت کو گرادے۔ 26:۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے تکبر کیا بڑا بنتے ہوئے اللہ اس کو پست کردیتا ہے اور جس نے تواضع اختیار کی اللہ کے لئے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس کو بلند کردیتا ہے۔ 27:۔ ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داود، ترمذی ابن ماجہ، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا اور وہ شخص آگ میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ ﷺ ایک آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اس کی جوتی اچھی آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔ صفائی ستھرائی کو پسند کرنا تکبر میں داخل نہیں : 28:۔ ابن سعد، احمد اور بیہقی نے ابو ریحانہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تکبر کا کوئی حصہ بھی جنت میں داخل نہ ہوگا ایک کہنے والے نے کہا یارسول اللہ ! میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرے کوڑے کا دستہ اور میری جوتی کا تسمہ خوبصورت ہو آپ نے فرمایا یہ تکبر میں سے نہیں ہے اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں تکبریہ ہے کہ جو حق کو بیوقوف بنائے اور اپنی آنکھوں کے ذریعہ لوگوں کو حقیر جانے اور بغوی (رح) اپنے مجمع میں اور طبرانی نے سوار بن عمروانصاری ؓ سے روایت کیا کہ میں عرض کیا یارسول اللہ کہ میں ایک ایسا آدمی ہوں جو خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں اور اس میں سے مجھے حصہ دیا گیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ میرے تسمہ سے اچھا ہو کیا یہ بات تکبر میں سے ہے ؟ فرمایا نہیں میں نے عرض کیا پھر یارسول اللہ تکبر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر جانے۔ 29:۔ بغوی اور طبرانی نے سوار بن عمر وانصاری ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک ایسا آدمی ہوں جو خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں یہاں تک کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی میری جوتی کے تسمہ سے اچھا ہو کیا یہ تکبر ہے ؟ فرمایا نہیں لیکن تکبر یہ ہے کہ لوگوں کو حقیر سمجھنا اور حق بات کو ٹھکرا دینا۔ 30:۔ ابن عساکر نے ابن عمر سے اور انہوں نے ابوریحانہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں یہاں تک کہ میں اپنا جوتا اور اپنے کوڑے کا دستہ بھی خوبصورت رکھنا چاہتا ہوں کیا یہ بات تکبر کی ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں اور وہ اس بات کو بھی پسند فرماتے ہیں کہ وہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھیں تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو ان کے اعمال میں حقیر سمجھنا۔ 31:۔ ابن عساکر نے خریم بن فاتک ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کہ میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں یہاں تک کہ میں اپنی جوتی کے تسمے اور اپنے کوڑے کے چمڑے میں بھی (خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں) اور میری قوم یہ خیال کرتی ہے کہ یہ (چیزیں) تکبر میں سے آپ نے فرمایا یہ تکبر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی خوبصورتی کو پسند کرے لیکن تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر جانے۔ 32:۔ سمویہ نے فوائد میں، باوردی، ابن قانع اور طبرانی نے ثابت بن قیس بن شماس (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تکبر کیا گیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نہیں پسند فرماتے اترانے والے اور شیخی بگاڑنے والے کو قوم میں سے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم میں اپنے کپڑوں کو دھوتا ہوں اور میں اس کی سفیدی کو پسند کرتا ہوں اور میں اپنے کوڑے کے دستے کو اور اپنے جوتے کے تسمے (کو خوبصورتی کو) پسند کرتا ہوں نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ تکبر میں سے نہیں ہے تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔ ریشم اور سونے کا استعمال مردوں کے لئے حرام ہے : 33:۔ طبرانی نے نقل کیا ہے کہ اسامہ ؓ نے بیان فرمایا کہ بنوعامر میں سے ایک آدمی آیا اور اس نے کہا یارسول اللہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے بہت سختی کی ہے ریشم اور سونے کے پہننے سے اور میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں بلاشبہ تکبر یہ ہے کہ انسان حق کی قدرومنزلت کو نہ جانے اور لوگوں کو اپنی آنکھوں سے حقیر سمجھے۔ 34:۔ حاکم نے (اور صحیح بھی کہا) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں ایسا آدمی ہوں کہ مجھے خوبصورتی پسند ہے اور مجھے خوبصورتی میں سے یہ حصہ دیا گیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی میری جوتی کے تسمہ سے اچھا ہو کیا یہ تکبر ہے ؟ فرمایا نہیں لیکن تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔ 35:۔ حاکم نے (اور صحیح بھی کہا) ابن مسعود ؓ سے اسی طرح روایت کیا اور اس میں یہ ہے کہ ایک شخص ریشمی کپڑوں کا مالک تھا اور فرمایا یہ کبر کا بدل ہے۔ 36:۔ احمد نے زہد میں عطاء بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھ کو ایک وصیت کرنے والا ہوں اسے اوپر لازم کرلے تاکہ تو اس کو بھول نہ جائے میں دو چیزوں کی تجھ کو وصیت کرتا ہوں اور دو چیزوں سے تجھ کو روکتا ہوں وہ دو چیزوں سے تجھ کو روکتا ہوں وہ دو چیزیں جن کی میں تجھ کو وصیت کرتا ہوں بلاشبہ میں ان دونوں کو کثرت سے داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے اللہ عزوجل کے ہاں اور میں نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ کو کہ وہ ان دونوں چیزوں سے خوش ہوتا ہے میں اور اصلاح فرماتے ہیں اپنی مخلوق کی تو کہہ ” سبحان اللہ وبحمدہ “ کیونکہ یہ مخلوق کی نماز ہے اور اسی کے ذریعہ مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے اور تو کہہ ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ “ اگر آسمان اور زمین ایک حلقہ بن جائیں تو البتہ ان کو توڑ دے آسمان و زمین ایک پلڑے میں ہوں اور یہ ذکر ان پر بھاری ہوجائے اور وہ دو چیزیں جن کے بارے میں تجھ کو روکتا ہوں وہ شرک کرنا اور تکبر کرنا ہے عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا یہ تکبر ہے کہ میرے لئے ایک خوبصورت لباس ہو اور میں اس کو پہن لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں پھر پوچھا کیا تکبر یہ ہے کہ میرے لئے ایک اچھی سواری ہو کہ میں اس پر سواری کروں ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر پوچھا کیا تکبر یہ ہے کہ میرے لئے کچھ دوست ہوں کہ وہ میرے پیچھے آئیں اور میں ان کو کھانا کھلاوں ؟ فرمایا نہیں پھر پوچھا کہ تکبر کون سا ہے یارسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حق کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔ 37:۔ ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ متکبر جنت میں داخل نہ ہوگا۔ 38:۔ عبد بن حمید نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا تکبر کرنے والے قیامت کے دن آگ کے صندوقوں میں ڈالے جائیں گے پھر ان پر (صندوقوں کو) بند کردیا جائے گا۔ 39:۔ احمد دارمی، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابویعلی، ابن حبان اور حاکم نے ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کی روح اس کے جسم سے (اس حال میں) جدا ہو کہ دو تین چیزوں سے بری تھا جنت میں داخل ہوگا، تکبر قرضہ اور خیانت۔ 40:۔ طبرانی نے سائب بن یزید (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم تو ہلاک ہوگئے ہمیں کیسے علم ہوگا کہ ہمارے دلوں میں تکبر ہے اور وہ کہاں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص اونی لباس پہنے یا بکری کو دو ہے یا اپنے غلام کے ساتھ کھانا کھائے تو اس کے دل میں انشاء اللہ کوئی تکبر نہیں ہے۔ 41:۔ ثمام نے فوائد میں اور ابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اونی لباس پہنے اور گانٹھا ہوا جوتا پہنے اور اپنے گدھے پر سواری کرے اور اپنی بکری کو دو ہے اور اپنے کنبہ کے ساتھ کھانا کھائے تو اللہ تعالیٰ اس کو تکبر سے نجات عطا فرما دیتا ہے میں ایک بندہ کا بیٹا ہوں میں ایک عبد (یعنی غلام) کی طرح بیٹھتا ہوں اور ایک عبد کی طرح کھانا کھاتا ہوں میری طرف یہ وحی کی گئی کہ تم آپس میں) تواضع اختیار کرو اور کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے بلاشبہ اللہ کا ہاتھ پھیلا ہوا ہے اپنی مخلوق میں جس نے اپنے آپ کو اونچا کرلیا اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل فرمائیں گے اور جس نے اپنے آپ کو نیچے کیا (یعنی عاجزی اختیار کی) اللہ تعالیٰ اس کو بلند کردیں گے اور کوئی آدمی زمین پر نہیں چلتا ایک بالشت بھی کہ وہ اللہ کی طاقت چاہتے ہوئے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے گرا دیں گے (جہنم میں) 42:۔ احمد نے زہد میں یزید بن میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم میں افضل عبادت نہیں دیکھتا لوگوں نے کہا اے روح اللہ افضل عبادت کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کے لئے تواضع اختیار کرنا۔ 43:۔ احمد نے زہد میں اور بیہقی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ تم افضل عبادت تواضع یعنی عاجزی اختیار کرنا سمجھو گے۔ 44:۔ بیہقی نے یحی بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ افضل عمل تقوی ہے اور بہترین عبادت تواضع کرنا ہے۔ 45:۔ ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دیں گے۔ 46:۔ بیہقی نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شیطان کے پھندے اور جال ہیں اور اس کے پھندے اور جال میں سے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کرنا اور فخر کرنا اللہ کی عطا پر اور اللہ کے بندوں پر بڑائی کا اظہار کرنا اور خواہشات نفس کی پیروی کرنا اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ (دوسری) ذات میں۔ 47:۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم کو دوزخ والوں کے بارے میں نہ بتاوں ؟ ہر اکھڑا مزاج، ترش خو، متکبر (دوزخی ہے) (پھر فرمایا) کیا میں تم کو جنت والوں کے بارے میں بتاوں ہر کمزور پرانے کپڑے پہننے والا جس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اگر وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے کوئی قسم کھالے تو اس کی قسم کو (اللہ تعالیٰ ) پورا کردے۔ 48:۔ ترمذی حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح اور ترمذی نے حسن بھی کہا) جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ وہ لوگ میرے متعلق تکبر کرنے کا ذکر کرتے ہیں حالانکہ میں گدھے پر سوار ہوں چادر پہنی ہوئی ہے اور دودھ دوہا ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ کام کرے تو اس میں تکبر نام کی کوئی چیز نہیں۔ 49:۔ احمد نے زہد میں عبداللہ بن شداد ؓ سے مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ جو شخص اون (کا کپڑا) پہنے اور بکری کو اسی سے باندھے اور گدھے پر سواری کرے اور کسی نادار آدمی یا غلام کی دعوت قبول کرے تو اس پر تکبر میں سے کوئی چیز نہ دیکھو گے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی عاجزی : 50:۔ عبداللہ بن احمد زوائد الزہد میں ابویعلی، حاکم، اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا) عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ وہ بازار میں لکڑی کا گھٹا اٹھائے ہوئے تھے ان سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وسعت نہیں کردی (یعنی اب آپ مال دار ہیں آپ کو لکڑی اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ) انہوں نے فرمایا کیوں نہیں لیکن میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں تکبر کو دور کردوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہآدمی جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا جنت میں داخ نہ ہوگا۔ 51:۔ بیہقی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ایک آدمی آیا جن صحابہ ؓ نے اس کو دیکھا تو اس کی تعریف کرنے لگے نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اس کے چہرے پر آگ کے سیاہ داغ دیکھ رہا ہوں جب وہ آیا اور بیٹھ گیا آپ نے فرمایا میں تجھ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں تو سچ سچ بتا جب تو مجلس میں آیا تھا تو تو یہی سوچ رہا تھا کہ سب لوگوں میں افضل ہے ؟ اس نے کہا ہاں۔ 52:۔ بیہقی نے ابن مبارک (رح) سے روایت کیا کہ ان سے تواضع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اغنیاء کے سامنے تکبر کرنا۔ 53:۔ بیہقی نے ابن مبارک (رح) سے روایت کیا کہ یہ بھی تواضع میں سے ہے کہ تو اس شخص کے سامنے تواضع کرے جو دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے تم سے کم ہو یہاں تک کہ تو اس کو آگاہ کردے کہ تجھے اس پر کوئی فضلیت نہیں تیری دنیا کی وجہ سے اور جو دنیا کے اعتبار سے تجھ سے بلند مرتبہ ہے اس کے سامنے بڑائی کا اظہار کر حتی کہ تو اسے اپنے عمل سے آگاہ کردے کہ اسے دنیا کی وجہ سے تم پر فضیلت نہیں۔ 54:۔ بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص کسی غنی مال دار کے سامنے جھکا اس کی تعظیم کی خاطر تواضع کی اور اس کے عطیہ کی لالچ میں انکسار کی تو اس کی دو تہائی ضرورت چلا گئی اور اس کا آدھا دین بھی چلا گیا۔ 55:۔ احمد نے زہد میں عون بن عبداللہ (رح) سے روایت کیا کہ عبدالل بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جو ایمان کی چوٹی پر نہ اترے یہاں تک کہ غریبی اس کی طرف زیادہ محبوب ہوجائے یہاں تک کہ اس کی تعریف اور مذمت اس کے نزدیک برابر ہوں اور عبداللہ ؓ کے اصحاب نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا یہاں تک کہ غربت حلال میں حرام میں غنا کی نسبت محبوب ہو، یہاں تک کہ تواضع اللہ کی فرمانبرداری میں معصیت الہی میں شرف کی نسبت زیادہ محبوب ہو یہاں تک کہ اس کی تعریف اور اس کی مذمت حق کے بارے میں برابر ہو۔
Top