Dure-Mansoor - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور تو اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہ ہو، بلاشبہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال ہوگا۔
1:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تقف “ سے مراد ہے تو مت کہہ 2:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تقف مالیس لک بی علم “ سے مراد ہے کہ تو کسی پر ایسا بہتان نہ لگا اس بات کا جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں۔ 3:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن الحنفیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تقف مالیس لک بی علم “ سے مراد ہے جھوٹی گواہی۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے (آیت) ” ولا تقف مالیس لک بی علم “ کے بارے میں روایت کیا گیا کہ یہ (حکم) جھوٹ کے بارے میں ہے جس دن یہ آیت نازل ہوئی جھوٹ کے بارے میں کوئی حد موجود نہ تھی بلاشبہ اس کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوئی تھی پھر اس کو معاف کردیا گیا یہاں تک کہ جھوٹ کی یہ آیت نازل ہوئی اسی کوڑوں کے بارے میں۔ 5:۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا “ سے مراد ہے کہ انسان کے اپنے کان اس کی آنکھیں اس پر گواہی دیں گے۔ 6:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” ولا تقف مالیس لک بی علم “ کے بارے میں روایت کیا کہ تو یہ نہ کہے کہ میں نے سنا بلکہ تو سنا گیا اور تو مت کہہ میں نے دیکھا حالانکہ تو نہیں دیکھا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب کے بارے میں تجھ سے پوچھیں گے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے عمرو بن قیس (رح) سے (آیت) ” کل اولئک کان عنہ مسئولا “ کے بارے میں فرمایا قیامت کے دن کان سے کہا جائے گا کیا تو نے سنا ؟ اور آنکھ سے کہا جائے گا کیا تو نے دیکھا ؟ اور دل سے اسی طرح کہا جائے گا۔ 8:۔ فریابی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کل اولئک کان عنہ مسئولا “ سے مراد ہے کہ قیامت کے دن کہا جائے گا کیا اسی طرح معاملہ تھا ؟ یا نہیں۔ 9:۔ حاکم نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی کسی مسلمان آدمی کے بارے میں ایسی بات پھیلاتا ہے حالانکہ وہ اس سے بری ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کو قیامت کے دن آگ میں پگھلا دے یہاں تک کہ وہ اپنی بات کا ثبوت پیش کرے جو اس نے کہی۔ 10:۔ ابو داود اور ابن ابی الدنیا نے صمت میں معاذ بن انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے روکا کسی مومن کو کسی منافق سے ( یعنی اس کو بچایا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک فرشتہ کو بھیجیں گے جو اس کے گوشت کو جہنم کی آگ سے روکے گا (یعنی اس کو بچائے گا) اور جس شخص نے کسی مومن کو کسی چیز کے عیب لگایا کہ جس سے اس کو عیب دار کرنے کا ارادہ تھا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کے پل پر روک دیں گے یہاں تک کہ وہ اس بات کا عذر پیش کرکے خلاصی حاصل کرے۔
Top