Dure-Mansoor - Al-Kahf : 78
قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ١ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ فِرَاقُ : جدائی بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنِكَ : اور تمہارے درمیان سَاُنَبِّئُكَ : اب تمہیں بتائے دیتا ہوں بِتَاْوِيْلِ : تعبیر مَا : جو لَمْ تَسْتَطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
اس بندئہ خدا نے کہا کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی کا وقت ہے۔ میں تمہیں ان چیزوں کی حقیقت ابھی بتلا دوں گا جن پر تم صبر نہ کرسکے۔
نیکی اور بدی کے اثرات : 107:۔ ابن ابی حاتم نے شیبہ کے طریق سے سلیمان بن سلیم بن سلمہ (رح) سے روایت کیا کہ تورات شریف میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مومن بندے کی وجہ سے اس کی سات نسلوں تک حفاظت فرماتا ہے اور ایک بدکار کی وجہ سے ساتھ نسلوں کو ہلاک فرماتا ہے۔ 108:۔ احمد نے زہد میں وھب (رح) سے روایت کیا کہ رب تبارک وتعالیٰ نے فرمایا بعض باتوں میں جو بنی اسرائیل کو فرمائیں گئی کہ جب تو اطاعت میری کرے گا تو میں راضی ہوں گا اور جب میں راضی ہوں گا برکت دوں گا اور میری برکت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ جب تو نافرمانی کرے گا تو میں ناراض ہوں گا اور لعنت کروں گا اور میری لعنت اولاد میں ساتویں (پشت) تک جائے گی۔ 109:۔ احمد نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میری غضب سے ڈرو کیونکہ جب میرا غضب تین آباء (یعنی تین نسلوں) تک پہنچتا ہے اور تم میری رضا سے محبت کرو کیونکہ میری رضا ایک امت تک پہنچتی ہے۔ 110:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ نے (آیت) ” وما فعلتہ عن امری “ کے بارے میں فرمایا کہ خضر (علیہ السلام) عبد مامور تھے اور انہوں نے حکم کو پورا کیا۔ 111:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انسرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نوجوان یوشع بن نون سے فرمایا (آیت) ” لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین “ تو دونوں نے ایک مچھلی کا شکار کیا اور اس کو توشہ بنالیا اور چل دیئے یہاں تک کہ اس چٹان تک پہنچ گئے جس کا انہوں نے ارادہ کیا تھا تیز ہوا چلی تو ان پر جگہ مشتبہ ہوگئی اور مچھلی کو بھی بھول گئے پھر چلتے رہے یہاں تک کہ کھانے کی بھوک لگی تو اپنے نوجوان سے فرمایا (آیت) ” اتنا غدآءنا، لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا “ یعنی سفر میں تھکان ہوگئی نوجوان نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا۔ (آیت) ” ارءیت اذاوینا الی الصخرۃ فانی نسیت الحوت وما انسنیہ الا الشیطن ان اذکرہ “ راوی نے کہا کہ ہم نے ابن عباس ؓ سے سنا کہ وہ علماء اہل کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا فرمائی اور ان سے سوال فرمایا جبکہ آپ کے ساتھ میٹھا پانی تھا ایک مشکیزے میں انہوں نے اس پانی میں سے سمندر میں ڈال دیا تو پانی اس کے نشان پر رک گیا اور سفید کھوکھلا پتھر بن گیا انہوں نے اس پر چلنا شروع کیا یہاں تک کہ اس چٹان تک پہنچ گئے جس کا انہوں نے ارادہ کیا تھا پھر آپ اس کے اوپر چڑھے اس حال میں آپ کو بڑا اشتیاق تھا کیا وہ رسول نظر آتا ہے انہوں نے اس آدمی کو نہ دیکھا یہاں تک کہ قریب تھا کہ میں موسیٰ ہوں فرمایا مجھے اس ذات نے بتایا جس نے تجھ کو بتایا کہ میں خضر ہوں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں (آیت) ” علی ان تعلمن مما علمت رشدا “ حضرت خضر (علیہ السلام) آگے بڑھے اور نصیحت فرمائی فرمایا (آیت) ” قال انک لن تستطیع معی صبرا “ (67) قال وکیف تصبر علی ما لم تحط بہ خبرا “۔ اور یہ اس وجہ سے تھا کہ جس نے ایک چیز دیکھی ہو اور دوسرے نے وہ چیز نہ دیکھی ہو تو وہ پوچھے بغیر کیسے صبر کرسکتا ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر انکار کیا کہ میں آپ کے ساتھ رہوں گا (آیت) ” قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شیء حتی احدث لک منہ ذکر ا “ اگر تو نے جلدی کی مجھ پر تین مرتبہ میں تو تیسرا مقام میری اور تیری جدائی کا ہوگا وہ کھڑے دیکھ رہے تھے اچانک ایک کشتی گذری جو ایلۃ نہر کی طرف جارہی تھی خضر (علیہ السلام) نے ان کو آواز دی اے کشتی والو ہماری طرف آؤ اور ہم کو اپنی کشتی میں سوار کرلو اور کشتی والوں کو ان کے ساتھیوں (یعنی سواریوں) نے کہا ہم کو تو یہ لوگ ڈرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ہوسکتا ہے کہ دونوں چور ہوں ان کو سوار نہ کرو کشتی کے مالک نے کہا میں نے دو آدمیوں کو دیکھا ہے کہ ان کے چہرے پر نور ہے میں ان کو ضرور سوار کروں گا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا ان لوگوں سے تو نے کتنا کرایہ لیا ہے ہم سے اس سے دگنا لے لے ملاح نے ان کو سوار کرلیا کشتی روانہ ہوگئی یہاں تک کہ جب وہ زمین کے قریب ہوئے بستی کے سردار نے حکم دے رکھا تھا اگر تم دیکھو اچھی کشتی کو جس میں کوئی عیب نہ ہو اس کو میرے پاس لے آو اور خضر (علیہ السلام) کو حکم تھا کہ اس میں کوئی عیب لگا دے تاکہ ظالم لوگ اس کو نہ چھین سکیں پھر آپ نے اس میں شگاف کردیا جس سے اس میں پانی ابل پڑا موسیٰ (علیہ السلام) غصہ سے بپھر گئے اور فرمایا (آیت) ” قال اخرقتھا لتغرق اھلھا، لقد جئت شیئا امرا “ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کے کپڑوں کو باندھ لیا اور ارادہ کیا کہ خضر (علیہ السلام) کو سمندر میں ڈال دے اور فرمایا آپ نے ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو مجھے معلوم ہے کہ پہلے تو ہی ہلاک ہوگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ جب زیادہ ہوتا تو سمندر ٹھہر جاتا اور جب غصہ ٹھہر جاتا تو سمندر زمانہ کی طرح چلتا یوشع بن نون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کیا آپ کو وہ وعدہ یاد نہیں جو آپ نے اپنی باری میں کیا تھا خضر (علیہ السلام) ان پر متوجہ ہو کر فرمایا (آیت) ” قال انک لن تستطیع معی صبرا “ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) پر حلم طاری ہوگیا اور فرمایا (آیت) ” قال لاتواخذنی بمانسیت ولا ترھقنی من امری عسرا “ جب اس بستی میں پہنچے خضر (علیہ السلام) نے فرمایا وہ لوگ تمہاری طرف متوجہ نہیں ہوئے یہاں تک کہ غرق ہونے کا خوف نہ ہوتا خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے مالک کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ میں نے جو ارادہ کیا تھا وہ تیرے لئے بہتر تھا ان لوگوں نے آپ کی رائے کی تعریف کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کشتی کو پہلے کی طرح درست کردیا جیسے تھی پھر یہ حضرات کشتی سے باہر نکلے یہاں تک کہ ایک نوجوان لڑکے کے پاس پہنچے خضر (علیہ السلام) نے اس کے قتل کا ارادہ کیا اور (پھر) اس کو قتل کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” اقتلت نفسا زکیۃ بغیر نفس “ (سے لے کر) ” قال لو شئت لتخذت علیہ اجرا “ تک حضرت خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا میں اپنا وعدہ پورا کردیا اب میری اور تیری جدائی کا وقت آگیا (آیت) ” ھذا فراق بینی وبینک “ (پھر فرمایا) (آیت) ” واما الغلم فکان ابوہ مومنین، اور کوئی غصہ نہیں ہوتا مگر (جب) بددعا کی جائے اس پر اور اس کے والدین پر اللہ تعالیٰ نے ان کے والدین کو پاک کرد یا کہ کوئی ان پر بددعا کرے اور ان دونوں کی مدد فرمائی اس لڑکے کی جگہ دوسرے لڑکے سے اس سے بہتر تھا اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا (آیت) ” واقرب رحما “ اور زیادہ مہربان تھا۔ (آیت) ” واما الجدار فکان لغلمین یتیمین فی المدینۃ وکان تحتہ کنزلھما “۔ ہم نے سنا کہ یہ خزانہ علم کا تھا اور وہ دونوں (یتیم لڑکے) اس علم کے وارث بنے۔ 112:۔ ابن جریر نے حسن بن عمارہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا ہم نے نہیں سنا یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے نوجوان سے باتیں کرتے ہوئے حالانکہ وہ ان کے ساتھ تھا ابن عباس ؓ نے فرمایا نوجوان کو بات جو انہوں نے ذکر کی ہے فرمایا کہ اس نوجوان نے پانی میں سے پیا تو وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگیا پھر ایک عالم نے اس کو پکڑا اس کو ایک کشتی کے ساتھ ملا دیا تھا پھر اس کو سمندر میں بھیج دیا اور یہ کشتی قیامت کے دن تک اس ساتھ چلتی رہے گی اور اس سزا کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے اس میں سے پینا جائز نہ تھا ابن کثیر نے فرمایا کہ حسن متروک ہے اور اس کا باپ غیر معروف ہے۔ 113:۔ ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے یوسف بن اسباط (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا جب انہوں نے ان سے جدا ہونے کا ارادہ کیا اے موسیٰ (علیہ السلام) علم حاصل کرو جس پر عمل کرنے کے لئے اور لوگوں سے بحث کرنے کے لئے علم حاصل نہ کرو اور مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) سے فرمایا میرے لئے دعا کیجئے تو خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر اپنی اطاعت آسان فرما دیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کی نصیحتیں : 114:۔ احمد نے زہد میں وھب (رح) سے روایت کیا کہ خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا جب وہ ان سے ملے اے موسیٰ لجاجت سے دور رہو اور بغیر ضرورت کے نہ چلو اور بغیر غجب کے نہ ہنسو اور اپنے گھر کو لازم پکڑو اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔ 115:۔ ابن ابی الدنیا، بیہقی نے شعب میں اور ابن عساکر نے ابو عبداللہ (رح) سے روایت کیا کہ اور میرا خیال ہے کہ یہ ابو عبداللہ الملطی ہیں فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) سے جدائی کا ارادہ کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا مجھے کوئی وصیت فرمائیے خضر (علیہ السلام) نے فرمایا نفع بخش بن جا تکلیف دینے والا نہ بن خوش رہو اور غصہ مت کرو لجاجت سے پھر جاؤ اور بغیر ضرورت کے مت چلو کسی شخص کو اس کی غلطی پر عار نہ دلاؤ اور اپنے گناہوں پر رویا کر اے عمران کے بیٹے۔ 116:۔ ابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) کہ لوگو عذاب دیئے جاتے ہیں دنیا میں اپنے ارادوں کے مطابق۔ 117:۔ عقیلی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ خضر (علیہ السلام) ایک قبر پر تشریف فرما ہیں بحراعلی اور بحر اسفل کے درمیان تمام بحری جانوروں کو حکم دیا گیا کہ اس کی بات کو سنیں اور اطاعت کریں اور ان پر ارواح پیش کی جاتی ہیں صبح اور شام کو۔ 118۔ ابن شاہیں نے خصیف (رح) سے روایت کیا کہ انبیاء میں سے چار زندہ ہیں دو آسمان میں ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) اور دو زمین میں ہیں خضر (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) سمندر میں ہیں اور ادریس (علیہ السلام) خشکی میں ہیں۔ 119:۔ خطیب اور ابن عساکر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ میں طواف کررہا تھا اچانک ایک آدمی کعبے کے پردے سے لپٹ کر یہ کہہ رہا تھا اے وہ ذات جس کو کوئی آواز دوسری آواز سے مشغول نہیں کرتی اے وہ ذات کہ جس کو مسائل غلط نہیں کردیتے اے وہ ذات کہ جس کو اصرار کرنے والوں کا اصرار زچ نہیں کرتا مجھے چکھا دے اپنے عفو کی ٹھنڈک اور اپنی رحمت کی مٹھاس میں نے کہا اے عبداللہ کلام دوبارہ کہہ اس نے کہا کیا تو نے سن لیا میں نے کہا ہاں اس نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے اور وہ خضر (علیہ السلام) تھے کوئی بندہ فرض نماز کے بعد ان کلمات کو کہے گا تو اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اگرچہ گناہ عالج میدان کی ریت کی طرح ہوں اور بارش کے قطروں کی تعداد اور درخت کے پتوں کی تعداد کے برابر ہوں۔ 120:۔ ابوالشیخ نے عظمہ میں اور ابونعیم نے حلیہ میں کعب احبار (رح) سے روایت کیا کہ خضر بن عامیل اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ سوار ہوئے یہاں تک کہ ہندوستان پہنچے اور یہ چین کا سمندر ہے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اے میرے ساتھیوں مجھے لٹکا دو انہوں نے اس کو سمندر میں لٹکا دیا کچھ دنوں اور کچھ راتوں اوپر آئے تو اصحاب نے ان سے پوچھا اے خضر آپ نے کیا دیکھا ؟ اور اللہ تعالیٰ نے تیرا اکرام کیا اور تیری جان کی حفاظت فرمائی اس گہرے سمندر میں فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتے نے میرا استقبال کیا اور مجھ سے کہا اے خطاکار آدمی تو کہاں جارہا ہے ؟ اور کہاں سے آرہا ہے ؟ میں نے کہا میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں اس سمندر کی گہرائی کو دیکھ لوں اس نے مجھ سے کہا کس طرح (آپ دیکھیں گے) اور ایک آدمی داود (علیہ السلام) کے زمانہ میں (سمندر میں) گرا تھا تو وہ ابھی تک اس کی تہہ کی ایک تہائی کو نہیں پہنچا اور اس وقت تین سو سال گزر چکے ہیں۔ 121:۔ ابن ابی حاتم نے بقیہ (رح) سے روایت کیا کہ ابو سعید (رح) نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے سنا کہ آخری کلمہ جس کے ذریعہ خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وصیت فرمائی جب وہ ان سے جدا ہونے لگے کہ کسی گہنگار کو عار دلانے سے بچ اس کے گناہوں کے ساتھ (ورنہ) تو خود (ان گناہوں میں) مبتلا ہوجائے گا۔ خضر (علیہ السلام) کی فیاضی کا واقعہ : 122:۔ طبرانی اور ابن عساکر نے ابو اسامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا میں تم کو خضر (علیہ السلام) کے بارے میں نہ بتاوں عرض کیا ضرور بتائیے یارسول اللہ ﷺ فرمایا ایک دن وہ بنی اسرائیل کے بازار میں چل رہے ایک مسکین مکاتب آدمی نے ان کو دیکھ لیا اور کہا مجھ پر صدقہ کیجئے اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت دے خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میں اللہ پر ایمان لایا جو امر اللہ چاہتا ہے ہوجاتا ہے میرے پاس کوئی چیز نہیں کہ میں تجھ کو دے دوں مسکین نے کہا میں تجھ سے اللہ کے واسطہ کے ساتھ سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھ پر صدقہ کریں کیونکہ فیاضی اور سخاوت کو میں تیرے چہرے پر دیکھ رہا ہوں اور میں نے تیرے پاس برکت کو پایا ہے خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میں اللہ پر ایمان لایا میرے پاس کوئی چیز نہیں جو میں تجھ کو دوں مگر یہ کہ مجھے لے جا کر بیچ دے مسکین نے کہا کیا اس کی قیمت لگائی جائے گی فرمایا ہاں میں سچ کہتا ہوں اور تو نے مجھ سے ایک بڑے کام کا سوال کیا ہے میں تجھ کو اپنے رب تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے ناامید نہیں کروں گا وہ ان کو بازار کی طرف لے گیا اور چار سو درھم میں بیچ دیا اور خریدار کے پاس رہے ایک زمانے تک اور وہ ان سے کوئی کام نہ لیتا تھا خضر (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تو نے مجھے خیر کو تلاش کرتے ہوئے خریدا ہے مجھے کسی کام کا حکم کر اس نے کہا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ میں تجھ پر مشقت ڈالوں تو بڑی عمر کا ضعیف آدمی ہے خضر (علیہ السلام) نے فرمایا مجھ پر کوئی مشقت نہیں اس نے کہا کھڑے ہوجائیے اور یہ پتھر منتقل کیجئے وہ پتھر اتنے زیادہ تھے کہ اس کو ایک دن میں چھ آدمی بھی منتقل نہیں کرسکتے تھے وہ آدمی اپنی کسی ضرورت سے باہر نکلا پھر وہ لوٹ آیا تو وہ تمام پتھر منتقل ہوچکے تھے اس نے کہا تو نے بہت اچھا کام کیا تو بہت طاقتور ہے میں تجھے ایسا طاقتور نہ سمجھتا تھا پھر اس آدمی کو ایک سفرپیش آگیا تو اس نے کہا میں تجھ کو امانتدار خیال کرتا ہوں میرے اہل و عیال میں تو میرا خلیفہ ہے ان کے ساتھ اچھائی کرنا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے کسی کام کا حکم کر اس نے کہا میں تجھ کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا مجھ پر کوئی مشقت نہیں اس نے کہا میری عمارت کے لئے آینٹیں بناتا رہ یہاں تک کہ میں تیرے پاس (واپس) آجاوں آدمی اپنے سفر کے لئے روانہ ہوگیا پھر لوٹ آیا تو آپ تعمیر مکمل کرچکے تھے اس شخص نے کہا میں تجھ سے اللہ کے واسطے سے سوال کرتا ہوں تیرا راستہ کیا ہے تیرا معاملہ کیا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا تو نے مجھ سے اللہ کا واسطے دے کر سوال کیا ہے اور اسی خدا کے واسطے نے مجھے غلامی میں ڈالا تھا میں خضر ہوں جس کے متعلق تو نے سنا ہے مجھ سے ایک مسکین نے سوال کیا تھا صدقہ کا اور میرے پاس کوئی چیز نہ تھی جو میں اس کو دیتا اس نے مجھے خدا کا واسطہ دیا میں نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیا تو اسی نے مجھ کو بیچ دیا میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ جس سے خدا کے واسطہ سے مانگا گیا اور اس نے سائل کو رد کردیا حالانکہ وہ دینے پر قادر تھا تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑا ہوگا کہ اس کی نہ کھال اور نہ گوشت اور نہ ہڈی ہوگی تاکہ وہ وہاں ٹھہرا رہے اس آدمی نے کہا میں اللہ پر ایمان لایا اے اللہ کے نبی میں نے آپ پر مشقت ڈالی اور میں نہیں جانتا تھا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کچھ حرج نہیں تو نے بہت اچھا سلوک کیا اور تو نے فرمانبرداری کی آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں تو حکم کر میرے اہل و عیال اور میرے مال کے بارے میں میں اس کے سبب جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دکھایا ہے میں تجھ کو اختیار دیتا ہوں پس تمہارا راستہ کھلا چھوڑ دیتا ہوں خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا راستہ چھوڑدے کہ میں اپنے رب کی عبادت کروں اس نے ان کا راستہ چھوڑ دیا (یعنی آزاد کردیا) خضر (علیہ السلام) نے فرمایا سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کہ جس نے مجھے غلامی میں ڈالا پھر اس سے نجات عطا فرمائی۔ 123:۔ بیہقی نے شعب میں حجاج بن فرافصہ (رح) سے روایت کیا کہ دو آدمی عبداللہ بن عمر ؓ کے گھر آپس میں خریدو فروخت کرتے تھے ان میں ایک کثرت سے قسمیں کھارہا تھا وہ اسی سودے میں مصروف تھے اچانک ان پر ایک آدمی گذرا اور ان پر کھڑا ہوگیا اور اس آدمی سے کہا جو کثرت سے قسمیں کھاتا تھا اے اللہ کے بندے ٹھہر جا اللہ سے ڈر اور کثرت سے قسمیں مت کھا اس لئے کہ وہ نہیں زیادتی کرے گا تیرے رزق میں اور نہ کمی کرے گا تیرے رزق میں اگر تو قسمیں کھائے گا تو تیرا رزق کم نہ ہوگا وہ کام کر جو تیرا مددگار ہوگا اس نے کہا کون سا کام میرا مددگار ہوگا اس کو تین مرتبہ پوچھا اور اپنی بات کو دھرایا جب وہ واپس جانے لگا تو فرمایا تو جان لے کہ ایمان کی نشانی میں ہے کہ تو سچائی کو اس وقت ترجیح دے جھوٹ پر جبکہ سچائی تیرے لئے نقصان کا باعث ہو اور جھوٹ تیرے لئے نفع مند ہو اور تیرے قول کو تیری ذات پر فضیلت نہ ہو وہ شخص جانے لگا تو عبداللہ عمر ؓ نے فرمایا اس سے ملو اور یہ کلمات لکھو الواس نے کہا اے اللہ کے بندے مجھ پر یہ کلمات لکھوا دے اللہ تجھ پر رحم کرے گا اس آدمی نے کہا اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ فرماتے ہیں تو وہ ہو کر رہتا ہے اس نے وہ کلمات دہرائے اس پر یہاں تک کہ اس نے ان کو یاد کرلیا پھر اس شخص نے دیکھا کہ اس نے اپنے ایک پاوں کو مسجد میں رکھا میں نہیں جانتا کہ زمین نے اس کو نگل لیا یا آسمان نے اٹھالیا فرمایا وہ ان کو خضر یا الیاس (علیہما السلام) سمجھتے تھے۔ 124:۔ حارث بن ابی اسامہ نے مسند میں سند واہی کے ساتھ انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خضر (علیہ السلام) سمندر میں ہیں اور یسع (علیہ السلام) خشکی میں ہیں وہ دونوں اکٹھے ہوتے ہیں ہر رات اس دیوار کے پاس جس کو ذوالقرنین نے بنایا تھا لوگوں اور یاجوج ماجوج کے درمیان اور وہ دونوں حج کرتے ہیں اور عمرہ کرتے ہیں ہر سال اور وہ زمزم سے لیتے ہیں جو ان دونوں کو اگلے سال تک کافی ہوجاتا ہے۔ 125:۔ ابن عساکر نے ابن ابی درداء ؓ سے روایت کیا الیاس اور خضر (علیہما السلام) بیت المقدس میں روزے رکھتے ہیں اور ہر سال حج کرتے ہیں اور زمزم میں سے اتنا پانی پی لیتے ہیں تو ایک سال کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ 126:۔ عقیلی، دار قطنی نے افراد میں اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خضر اور الیاس (علیہما السلام) ہر سال موسم (حج میں) ملتے ہیں ہر ایک ان میں سے ایک دوسرے کا حلق کرتا ہے اور یہ کلمات کہہ کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں کلمات یہ ہیں۔ بسم اللہ ما شاء اللہ لا یسوق الخیر الا اللہ ماشاء اللہ لا یصرف السوء الا اللہ ما شاء اللہ ماکان من نعمۃ فمن اللہ ما شاء اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ ترجمہ : اللہ کے نام کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ چائیں اس کے بغیر کوئی بھلائی نہیں لاسکتا جو اللہ تعالیٰ چائیں تکلیف کو اس کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا جو اللہ تعالیٰ چائیں جو بھی نعمت ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو اللہ تعالیٰ چائیں اللہ کی توفیق کے بغیر نہ کوئی برائی سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کے کرنے کی طاقت۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا جو شخص اس کو تین مرتبہ صبح اور شام کہے گا اللہ تعالیٰ اس کو امن دیں گے غرق سے اور جلنے سے اور چوری سے اور شیاطین سے اور بادشاہ سے اور سانپ اور بچھو سے۔
Top