Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 36
فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ١۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
فَاَزَلَّهُمَا : پھر ان دونوں کو پھسلایا الشَّيْطَانُ : شیطان عَنْهَا : اس سے فَاَخْرَجَهُمَا : پھر انہیں نکلوا دیا مِمَّا ۔ کَانَا : سے جو۔ وہ تھے فِیْهِ : اس میں وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے عَدُوْ : دشمن وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُسْتَقَرٌّ : ٹھکانہ وَمَتَاعٌ : اور سامان اِلٰى۔ حِیْنٍ : تک۔ وقت
تو شیطان نے دونوں کو اس سے پھسلا دیا، پس انھیں اس سے نکال دیا جس میں وہ دونوں تھے اور ہم نے کہا اتر جاؤ، تمہارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔
شیطان کے اس پھسلانے کی تفصیل سورة اعراف (20) میں ہے۔ (بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ) یعنی آدم ؑ اور ابلیس اور ان کی اولاد ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ [ الکہف : 50، یٰسٓ : 60 ] یہ مطلب بھی درست ہے کہ اولاد آدم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں، جیسا کہ آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ ہے۔ [ المائدۃ : 27 ] فرشتوں نے بھی (وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ) میں اسی عداوت کا ذکر کیا تھا۔ (وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ) یہ الفاظ دلیل ہیں کہ آدم ؑ جس جنت میں رکھے گئے تھے وہ آسمان پر تھی، زمین پر جنت سے نکلنے کے بعد آئے۔ (اھْبِطُوْا) سے بھی یہی بات نکلتی ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم ؑ پیدا کیے گئے اسی میں جنت میں داخل کیے گئے اور اسی میں اس سے نکالے گئے۔“ [ مسلم، الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ : 854، عن أبی ہریرۃ ؓ ] اِلٰى حِيْنٍ یعنی موت تک کے لیے، کیونکہ انسان کے لیے مرنے کے بعد زمین سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں۔ ”ایک وقت تک“ سے معلوم ہوا کہ زمین پر رہائش عارضی ہے، دائمی نہیں۔
Top