Dure-Mansoor - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا، اور ہم نے تمہارے اوپر من اور سلوی نازل کیا، جو کچھ ہم نے تم کو دیا اس سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا، لیکن اپنی جانوں کا نقصان کیا کرتے تھے
(1) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وظللنا علیم الغمام “ سے مراد ہے جس بادل سے بنی اسرائیل پر سایہ کیا گیا اس سے ٹھنڈا اور پاکیزہ بادل وہ ہوگا جس میں قیامت کے دن اللہ کا حکم آئے گا قیامت کے دن آئے گا اور یہ وہی بادل ہے جس میں بدر کے دن فرشتے اترے تھے اور یہ بادل ان کے ساتھ میدان تیسہ میں رہا تھا۔ (2) حضرت وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وظللنا علیکم الغمام “ سے مراد یہ وہ بادل نہیں ہوتا جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تشریف لائیں گے اور یہ صرف ان (بنی اسرائیل) کے لیے تھا۔ (3) حضرت ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وظللنا علیکم الغمام “ سے مراد وہ سفید بادل ہے جس میں پانی نہیں ہے۔ (4) امام عبد بن حمید نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وظللنا علیکم الغمام “ سے مراد وہ بال ہے جس نے ان پر میدان تیسہ میں سایہ کیا تھا۔ (5) امام عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وظللنا علیکم الغمام “ (الآیہ) سے وہ بادل مراد ہے جو جنگل میں تھا اس بادل نے ان پر دھوپ سے سایہ کیا تھا اور ان کو (اللہ تعالیٰ نے) من اور سلوی کھلایا۔ جب وہ جنگل کی طرف نکلے (اور) من ان پر برف کے گرنے کی طرح ان کی جگہوں پر گرتا تھا جو برف سے زیادہ سفید تھا طلوع فجر سے گرنا شروع ہوتا اور طلوع شمس تک باقی تھا۔ اور ہر آدمی اتنی مقدار میں لے لیتا تھا جو اس کو ایک دن کے لیے کافی ہوتا تھا اگر وہ زیادہ لے لیتا تو وہ خراب ہوجاتا اور اس کے پاس باقی نہ رہتا تھا۔ یہاں تک کہ جب چھٹا دن (یعنی) جمہ کا دن ہوتا تھا تو جمعہ اور ساتویں دن کی خوراک لیتے تھے اور یہ ان کے پاس باقی رہتی تھا تاکہ جب عید کا دن ہو تو روزی کی طلب کا معاملہ ان کی زندگی کو بےقرار نہ کر دے اور یہ سب حالات جنگل میں تھے۔ (6) عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ” المن “ ایک ایسی چیز تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے ان پر شبنم کی مانند گاڑے شیرہ کی طرح اتاری تھی اور ” السلوی “ چڑیا سے بڑا پرندہ تھا۔ (7) امام وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” المن “ ایک گوند تھی اور ” السلوی “ ایک پرندہ تھا۔ (8) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (جب) انہوں نے کہا اے موسیٰ یہاں ہمارے لئے پانی کا کیا ہوگا اور کھانا کہاں سے آئے گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر من کو نازل فرمایا اور وہ ترنجبین کے درخت پر گرتا تھا۔ (9) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ من کیا چیز ہے ؟ انہوں نے فرمایا جوار، چھنے ہوئے آٹے کی طرح نرم روٹی۔ (10) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ ” المن “ ایک پینے کی چیز تھی جو ان پر شہد کی مانند نازل ہوتی تھی وہ اس کو پانی میں ملا لیتے تھے پھر اس کو پیتے تھے۔ (11) امام ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ من ان پر رات کو درختوں پر نازل ہوتی تھی۔ وہ صبح کو اس کی طرف جاتے تھے اور اس میں سے جتنا چاہتے تھے کھالیتے تھے اور سلوی کی مانند ایک پرندہ تھا اس میں جتنا چاہتے کھالیتے تھے (12) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” المن “ وہ چیز تھی جو آسمان سے درختوں پر نازل ہوتی تھی لوگ اس میں سے کھاتے تھے اور سلوی ایک بٹیر تھی۔ (13) امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور ابن ابی حاتم نے سعید بن زید ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ” الکمأۃ من “ میں سے ہے اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے۔ احمد اور ترمذی نے ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے اسی طرح روایت کیا نسائی نے جابر بن عبد اللہ ابو سعید خدری اور ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ (14) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود اور دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ سلویٰ بٹیر کے مشابہ ایک پرندہ تھا۔ (15) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ بٹیر وہی سلوی ہے۔ (16) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ سلویٰ چڑیا کی طرح ایک پرندہ تھا جس کو جنوب والی ہوا اکھٹا کرکے اس پر لاتی تھی اور آدمی اس میں سے ذبح کرلیتا تھا جتنا اس کو دن کے لیے کافی ہوتا تھا اگر وہ اس سے زائد ذبح کرتا تو وہ (گوشت) خراب ہوجاتا تھا اور اس کے پاس باقی نہ رہتا تھا یہاں تک کہ جب چھٹا دن (یعنی) جمعہ کا دن ہوتا تو وہ چھٹے اور ساتویں دن کا کھانا جمع کرلیتے تھے جو ان کو کافی ہوجاتا۔ (17) حضرت سفیان بن عینیہ اور ابن ابی حاتم نے وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ بنو اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے گوشت سے کم چیز کھلاؤں گا جو زمین میں جانا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ نے) ان پر ایسی ہوا چلائی جس نے سلویٰ یعنی بٹیر کو ان کے گھروں کے پاس پھیلا دیا ایک میل لمبائی میں اور ایک میل چوڑائی میں اور بلندی میں نیزہ کی مقدار پر تھا اگر وہ کل کے لیے جمع کرتے تو گوشت بدبودار ہوجاتا۔ (18) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ان سے سلویٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ کبوتر کے برابر موٹا پرندہ تھا جو ان کے پاس آجاتا تھا اور وہ اس سے ایک ہفتہ سے دوسرے ہفتہ تک (کی ضرورت) کے لیے لے لیتے تھے۔ (19) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وما ظلمونا “ سے مراد ہے کہ ہم ظلم کرنے سے بہت بلند ہیں۔ (20) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولکن کانوا انفسھم یظلمون “ سے مراد ہے ” یضربون “ یعنی وہ (اپنے آپ کو) مار تے تھے میں یظلمون کا مطلب ینصرون ہے یعنی اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے تھے۔
Top