Dure-Mansoor - Al-Baqara : 80
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّا : سوائے اَيَّامًا : دن مَعْدُوْدَةً : چند قُلْ اَتَّخَذْتُمْ : کہ دو کیا تم نے لیا عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس عَهْدًا : کوئی وعدہ فَلَنْ يُخْلِفَ اللّٰہُ : کہ ہرگز نہ خلاف کرے گا اللہ عَهْدَهُ : اپنا وعدہ اَمْ : کیا تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو عَلَى اللہِ : اللہ پر مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : جو تم نہیں جانتے
اور انہوں نے کہا کہ ہم کو ہرگز آگ نہ چھوئے گی مگر چند دن گنتی کے، آپ فرمائیے کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد لے لیا ہے، سو اللہ تعالیٰ اپنے عہد کے خلاف نہ کرے گا یا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ہے
(1) امام ابن اسحاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور الواحدی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہود کہا کرتے تھے کہ اس دنیا کی مدت سات ہزار سال ہے۔ اور ہم ہر ہزار سال بدلہ میں ایک دن آگ میں عذاب دئیے جائیں گے اس طرح یہ سات دن بنتے ہیں۔ پھر عذاب ختم ہوجائے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وقالوا لن تمسنا النار “ سے لے کر ” ہم فیہا خلدون “ تک۔ جہنم کا عذاب دائمی ہے (2) امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے اور الواحدی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں جہنم کے دونوں کناروں کے درمیان چالیس کا فاصلہ پایا تو کہنے لگے کہ دوزخ والے ہرگز عذاب نہیں دئیے جائیں مگر چالیس دنوں کی مقدار جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کو آگ کو لگام دی جائے گی اور وہ ان میں چلیں گے یہاں تک کہ سقر تک پہنچ جائیں گے جس میں زقوم کا درخت ہے اور وہ اس مقام پر معین دنوں میں سے دن کے آخر میں پہنچیں گے۔ ان سے جہنم کے چوکیدار کہیں گے اے اللہ کے دشمنو ! تم نے گمان کیا تھا کہ تم ہرگز جہنم میں عذاب نہیں دئیے جاؤ گے مگر معین دنوں میں اب وہ گنتی کے دن گزر چکے اور ہمیشہ ہمیشہ کا سلسلہ باقی ہے پھر اس کی بلندی پر چڑھیں گے اور اپنے چہروں کے بل گریں گے۔ (3) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ یہود نے کہا ہم کو آگ لگے گی مگر وہی چالیس دن کی مدت کے لیے جس میں بچھڑے کی عبادت کی تھی۔ (4) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن یہود اکٹھے ہو کر نبی اکرم ﷺ سے جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم کو ہرگز آگ نہیں لگے مگر چند دن گنتی کے اور انہوں نے چالیس دنوں کا نام لیا۔ پھر ہم سے پیچھے آنے والے لوگ اس میں جلیں گے۔ اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے سروں پر اپنے ہاتھ مبارک کو لوٹاتے ہوئے فرمایا تم جھوٹ کہتے ہو تم ہی لوگ ہمیشہ کے لیے آگ میں رہو گے۔ ہم تمہاری جگہ پر انشاء اللہ تعالیٰ کبھی بھی نہیں آئیں گے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” وقالوا لن تمسسنا النار الا ایاما معدودۃ “ جس سے وہ چالیس رات مراد لیتے تھے۔ (5) ابن جریر نے زید بن اسلم سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود سے فرمایا میں تم سے پوچھتا ہوں اللہ کی قسم کے ساتھ اور اس تورات کی قسم کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر طور سینا کے دن اتاری وہ دوزخ والے کون ہیں ؟ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تورات میں اتارا۔ تو انہوں نے کہا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان پر سخت غصہ ہوا پس ہم آگ میں چالیس دن رہیں گے پھر ہم نکل جائیں گے اور اس میں تم ہی پیچھے رہو گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم جھوٹ کہتے ہو اللہ کی قسم ہم تمہاری جگہ پر ہرگز نہیں آئیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی بات کی تصدیق اور ان کی بات کی تکذیب کے لیے یہ آیات اتاری لفظ آیت ” وقالوا لم تمسنا النار “ سے لے کر ” ہم فیہا خلدون “ تک۔ (6) امام احمد، بخاری، دارمی نسائی اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب خیبر فتح ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری ہدیہ دی گئی جس میں زہر تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو جمع کرو آپ نے ان سے فرمایا تمہارا باپ کون ہے ؟ انہوں نے کہا فلاں آدمی ہے۔ انہوں نے کہا آپ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا بلکہ تمہارا باپ فلاں آدمی ہے۔ انہوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا اور اچھی بات کی۔ پھر ان سے آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کچھ پوچھوں تو تم مجھے سچ مچ بتاؤ گے ؟ انہوں نے کہا اے ابو القاسم ہاں ضرور اور اگر آپ سے جھوٹ بولیں گے تو آپ ہمارے جھوٹ کو پہچان لیں گے۔ جیسا کہ آپ نے ہمارے باپ کے بارے میں پہچان لیا۔ آپ نے ان سے پوچھادوزخ والے کون ہیں ؟ کہنے لگے ہم اس میں تھوڑے دنوں کے لیے ہوں گے۔ پھر تم لوگ ہماری جگہ پر آؤ گے۔ آپ نے ان سے فرمایا دفعہ ہوجاؤ اللہ کی قسم ہم کبھی بھی تمہاری جگہ پر آگ میں نہیں آئیں گے۔ (7) عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” قل اتخذتم عند اللہ عھدا “ میں عہد سے پکا وعدہ ہے یعنی کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے پکا وعدہ لے لیا تھا اس بات کا جیسا کہ تم کہتے ہو۔ (8) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ جب یہود نے یہ کہا جو کچھ انہوں نے کہا کہ از خود انہوں نے دوزخ میں چند دن رہنے کا عقیدہ بنا لیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ سے فرمایا لفظ آیت ” قل اتخذتم عند اللہ عھدا “ آپ ان سے فرمائیے کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے اس کے متعلق کوئی وعدہ لیا ہے۔ یا فرمایا عہد سے مراد لا الہ الا اللہ ہے یعنی کیا تم نے لا الہ الا اللہ کہا اور تم نے شرک کیا اور تم نے اللہ تعالیٰ کا انکار نہیں کیا اگر تم اس کلمہ کو کہہ چکے ہو تو پھر میں اب کی امید کرسکتا ہوں اور اگر تم نے اس کو یعنی الا الہ الا اللہ کو نہیں کہا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ (9) عبد بن حمید نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں کہ لفظ آیت ” قل اتخذتم عنداللہ “ سے مراد ہے کہ تمہارے گمان کے مطابق تم کو آگ نہیں لگے گی مگر چند دن گنتی کے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ ” ام تقولون علی اللہ مالا تعلمون “ کیا تم خود اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ بات کہتے ہو جو تم نہیں جانتے ہو فرمایا ” قال القوم “ قوم نے جھوٹ اور باطل بات کہی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی بات کہی جس کو وہ نہیں جانتے۔
Top