Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 140
اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ١ۚ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَۙ
اِنْ : اگر يَّمْسَسْكُمْ : تمہیں پہنچا قَرْحٌ : زخم فَقَدْ : تو البتہ مَسَّ : پہنچا الْقَوْمَ : قوم قَرْحٌ : زخم مِّثْلُهٗ : اس جیسا وَتِلْكَ : اور یہ الْاَيَّامُ : ایام نُدَاوِلُھَا : ہم باری باری بدلتے ہیں انکو بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ معلوم کرلے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَيَتَّخِذَ : اور بنائے مِنْكُمْ : تم سے شُهَدَآءَ : شہید (جمع وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اگر تم کو زخم پہنچ گیا تو تمہاری مقابل قوم کو اس جیسا زخم پہنچ چکا ہے اور یہ دن ہیں جنہیں ہم باری باری بدلتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان اور تاکہ اللہ جان لے ان لوگوں کو جو ایمان لائے، اور بنا لے تم میں سے شہادت پانے والے، اور اللہ پسند نہیں فرمایا ظالموں کو۔
(1) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان یمسسکم “ سے مراد ہے اگر تم کو (تکلیف) پہنچ جائے۔ (2) عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ “ یعنی ان دونوں میں ” ق “ کو رفع کے ساتھ پڑھا۔ (3) عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان یمسسکم قرح “ سے مراد ہے زخمی ہونا اور قتل ہونا۔ (4) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ “ سے مراد ہے اگر تم میں سے احد کے دن قتل کئے گئے تو تحقیق تم ان میں سے بدر کے دن قتل کرچکے ہو۔ (5) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے مسلمان سو گئے اور وہ زخمی تھے یعنی احد کے دن عکرمہ ؓ نے فرمایا ان کے بارے میں یہ آیت ” ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ وتلک الایام نداولھا بین الناس “ نازل ہوئی اور ان کے بارے میں (یہ آیت) بھی نازل ہوئی لفظ آیت ” ان تکون تالمون فانہم یالمون کما تالمون “ (النساء آیت 104) احد کے روز اہل ایمان کا شہید ہونا (6) ابن جریر ابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتلک الایام نداولھا بین الناس “ سے مراد ہے کہ احد کا دن بدر کے دن کے بدلہ میں ایمان والے لوگ احد کے دن قتل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو شہید بنا دیا اور رسول اللہ ﷺ بدر کے دن مشرکین پر غالب ہوئے تو اس طرح رسول اللہ ﷺ کا کفار کے خلاف غلبہ رہا (7) ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت وتلک الایام نداولھا بین الناس “ سے مراد ہے مشرکین کا فتح یاب ہونا نبی ﷺ پر احد کے دن اور مجھ کو یہ بات پہنچی کہ مشرکین نے احد میں ستر سے کچھ اوپر مسلمانوں کو شہید کیا یہ تعداد ان قیدیوں کی تعداد کے برابر تھی جو بدر کے دن مشرکین میں سے قید ہوئے اور ان قیدیوں کی تعداد تہتر تھی۔ (8) ابن جریر ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وتلک الایام نداولھا بین الناس “ سے مراد ہے کہ اللہ نے ان ایام کو پلٹ دیا کبھی ان کے لیے اور کبھی ان کے لیے اور غزوۂ احد میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ پر بھی کفار کو غلبہ دے دیا۔ (9) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ کی قسم ! اگر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنوں کا) پلٹنا نہ ہوتا تو ایمان والے ہلاک نہ ہوتے لیکن کافر فتح یاب ہوگیا ایمان والوں سے اور ایمان والے کو امتحان میں مبتلا کردیا گیا۔ کافر کی وجہ سے تاکہ اللہ تعالیٰ جان لیں۔ کون اس کی اطاعت کرتا ہے اس کی نافرمانی کرنے والوں میں سے۔ اور تاکہ وہ جان لیں کون سچ بولنے والے اور کون جھوٹ بولنے سے۔ (10) سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتلک الایام نداولھا بین الناس “ سے مراد ہے کہ ایک دن (تمہاری کامیابی) کے لیے ہے اور ایک دن تمہارے اوپر ہے (یعنی تمہارے خلاف ہے) ۔ (11) ابن جریر وابن المنذر نے ابن ابی حاتم سے اور انہوں نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتلک الایام نداولھا بین الناس “ سے مراد ہے اصرار یعنی حکمرانوں کے درمیان (یہ دن اللہ تعالیٰ گھماتے رہتے ہیں کہ کبھی تخت کبھی تختہ۔ (12) ابن المنذر نے ابو جعفر (رح) سے روایت کیا کہ حق کے لیے غلبہ ہے اور باطل کے لیے بھی غلبہ ہے حق کے غلبے میں سے ابلیس کو حکم دیا گیا سجدوں کا آدم (علیہ السلام) کو تو غلبہ دیا گیا آدم کو ابلیس پر اور آدم (علیہ السلام) امتحان میں مبتلا ہوئے درخت کی وجہ سے اس میں سے انہوں نے کھالیا تو ابلیس کو آدم پر غلبہ دے دیا گیا۔ (13) ابن جریر وابن المنذر وابن جریج کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولیعلم اللہ الذین امنوا ویتخذ منکم شھداء “ سے مراد ہے کہ مسلمان اپنے رب سے سوال کرتے تھے اے اللہ ہم کو بدر کے دن کی طرح ایک دن اور دکھا دے کہ ہم اس میں مشرکین سے لڑیں اور ہم اس میں تیری طرف سے خیر کو پائیں اور ہم اس میں شہادت کو تلاش کریں تو یہ لوگ احد کے دن مشرکین سے لڑیں اور ان میں سے (کئی لوگوں) کو شہادت کا درجہ دیا۔ مسلمانوں کی دعا قبول ہوئی (14) ابن جریر ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ مسلمان اپنے رب سے سوال کرتے تھے کہ وہ ان کو بدر کے دن کی طرح ایک دن دکھائے جس میں وہ خیر کو پائیں اور شہادت کو حاصل کریں اور جنت اور ( آخرت کی ہمیشہ والی) زندگی کو اور (عمدہ) رزق عطا کیا جائے انہوں نے احد کا دن پایا اللہ تعالیٰ نے ان میں سے شہید بنا دئیے۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات “ (البقرہ آیت 154) ۔ (15) عبد بن حمید ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” ولیعلم اللہ الذین امنوا ویتخذ منکم شھداء “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو عزت دی شہادت کے ساتھ ان دشمنوں کی مدد کرنے سے۔ پھر ان کاموں کا حاصل اور انجام بنا دیتا ہے اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لیے۔ (16) ابن ابی حاتم نے عبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولیعلم اللہ الذین امنوا ویتخذ منکم شھداء “ اگر تم (کافروں سے) جہاد نہ کرو گے تو تم شہاد کا درجہ کبھی نہ پاؤ گے۔ (17) ابن ابی حاتم نے ابو الضحی (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ” ویتخذ منکم شھداء “ نازل ہوئی تو اس دن ستر صحابہ شہید ہوئے۔ ان میں سے چار مہاجرین میں سے تھے ان میں حمزہ بن عبد المطلب، مصعب بن عمیر بنو عبدالدار کے بھائی۔ شماس بن عثمان مخزومی عبد اللہ بن حجش اسری اور باقی ماندہ انصار میں سے تھے۔ (18) ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ نے روایت کیا کہ جب عورتوں پر (جنگ احد کی) خبر آنے میں دیر لگی تو وہ خبر معلوم کرنے کے لیے (گھروں سے) نکل کھڑی ہوئی۔ اچانک (راستے میں) دو شہیدوں کی میتیں ایک اونٹ پر یا ایک جانور پر لاد دی گئیں تھی۔ انصار میں سے ایک عورت نے کہا یہ (مقتولین) کون ہیں ؟ انہوں نے کہا فلاں اور فلاں ہے ایک اس کا بھائی اور دوسرا اس کا خاوند تھا یا ایک اس کا خاوند اور دوسرا اس کا بیٹا تھا پھر اس عورت نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے ؟ لوگوں نے کہا وہ زندہ ہیں۔ کہنے لگی مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے شہید بنا دئیے۔ قرآن نازل ہوگیا اس بات پر جو اس عورت نے کہی تھی لفظ آیت ” ویتخذ منکم شھداء “۔ (19) ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے ابن جریج کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولیمحص اللہ الذین امنوا “ کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو امتحان میں مبتلا فرمائیں گے اور ” ویمحق الکفرین “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو کم کردیں گے (یعنی ان کو ہلاک کردیں گے) ۔ (20) ابن سعد نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ جب بھی وہ یہ آیت پڑھتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے۔ اے اللہ ! ہم کو آزمالے اور ہم کو کافروں میں سے نہ بنا دینا۔ (21) ابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ “ یعنی تم نے یہ گمان کرلیا کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤگے اور تم سب پہنچو گے میرے ثواب میں سے کرامت کو لفظ آیت ” ولما یعلم اللہ الذین جھدوا منکم “ یعنی میں تم کو نہیں آزماتا سختی کے ساتھ اور نہیں مبتلا کرتا ناگوار حالات کے ساتھ مگر یہ کہ میں جان لوں سچ بولنے والے کو تم میں سے (کون) میرے ساتھ ایمان لایا اور (کس نے) صبر کیا ان تکلیفوں پر جو میرے بارے میں پہنچیں۔
Top