Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 152
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ صَدَقَكُمُ : البتہ سچا کردیا تم سے اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗٓ : اپنا وعدہ اِذْ : جب تَحُسُّوْنَھُمْ : تم قتل کرنے لگے انہیں بِاِذْنِھٖ : اس کے حکم سے حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَشِلْتُمْ : تم نے بزدلی کی وَ تَنَازَعْتُمْ : اور جھگڑا کیا فِي الْاَمْرِ : کام میں وَعَصَيْتُمْ : اور تم نے نافرمانی کی مِّنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَرٰىكُمْ : جب تمہیں دکھایا مَّا : جو تُحِبُّوْنَ : تم چاہتے تھے مِنْكُمْ : تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الدُّنْيَا : دنیا وَمِنْكُمْ : اور تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الْاٰخِرَةَ : آخرت ثُمَّ : پھر صَرَفَكُمْ : تمہیں پھیر دیا عَنْھُمْ : ان سے لِيَبْتَلِيَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے وَلَقَدْ : اور تحقیق عَفَا : معاف کیا عَنْكُمْ : تم سے (تمہیں) وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جو اس نے تم سے کیا تھا جس وقت تم دشمنوں کو بحکم خداوندی قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم بزدل ہوگئے اور حکم کے بارے میں تم نے آپس میں اختلاف کیا اور تم نے اس کے بعد نافرمانی کی جبکہ تمہیں اللہ نے وہ چیز دکھا دی جسے تم محبوب رکھتے تھے، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض آخرت کے طلب گار تھے، پھر اللہ نے تم کو دشمنوں کی طرف سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے، اور البتہ تحقیق اللہ نے تم کو معاف فرما دیا اور اللہ مومنین پر بڑے فضل والا ہے۔
(1) البیہقی نے دلائل میں عروہ رحمۃ اللہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ فرمایا تھا اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائیں گے پانچ ہزار فرشتوں سے نشان لگائے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا بھی مگر جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی اور انہوں نے اپنی صف بندی کو چھوڑ دیا اور تیر اندازوں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے عہد کو چھوڑ دیا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور انہوں نے دنیا کا ارادہ کرلیا تو ان سے فرشتوں کی مدد اٹھالی گئی اور اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونہم باذنہ “ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا اپنا وعدہ اور ان کو فتح دکھا دی جب انہوں نے نافرمانی کی تو ان کو مصیبت کے ذریعہ سزا دی۔ (2) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ “ سے مراد ہے کہ ابو سفیان شوال کی تین راتیں گزرچکی تھیں آیا یہاں تک کہ احد کے میدان میں اترا رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور لوگوں میں منادی کی تو (سب لوگ) اکٹھے ہوگئے زبیر بن عوام کو گھڑ سوار دستے کا امیر مقرر کیا اور رسول اللہ ﷺ نے قریش میں سے ایک آدمی مصعب بن عمیر ؓ کو جھنڈا عطا فرمایا اور حمزہ بن عبد المطلب ؓ بھی لشکر کے ساتھ نکلے حضور ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کو آگے بھیجا اور خالد بن ولید مشرکین کے گھڑ سوار دستے کے ساتھ آگے بڑھے اور ان کے ساتھ عکرمہ بن ابی جہل تھے رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو بھیجا اور فرمایا خالد بن ولید کی طرف جاؤ اور اس کے سامنے رہو یہاں تک کہ تجھ کو اجازت دی جائے اور فرمایا تم سامنے نہ آنا جب تک کہ میں تم کو اجازت نہ دوں اور ابو سفیان اپنے لات اور عزی کو اٹھائے ہوئے تھا اور دوسرے گھڑ سواروں کو حکم فرمایا کہ وہ دوسری جانب میں ہوجائیں نبی ﷺ نے زبیر ؓ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ حملہ کردیں انہوں نے خالد بن ولید پر حملہ کیا اور اس کو شکست دی اور اس کو بھی جو اس کے ساتھ تھا اسی پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونہم باذنہ “ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان کی مدد کریں گے اور بیشک وہ ان کے ساتھ ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے لوگوں میں سے بعض کو بھیجا کہ یہ صحابہ کے پیچھے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم یہاں رہو جو ہم سے بھاگے اس کو واپس لوٹاؤ اور ہماری پشت کی جانب سے ہماری حفاظت کرنا جب آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ جو آپ ﷺ کے ساتھ تھے جب انہوں نے قوم کو شکست دی تو ان کے بعض لوگوں نے بعض لوگوں سے کہا جب انہوں نے عورتوں کو پہاڑ پر چڑھتے ہوئے دیکھا اور غنیمتوں کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف چلو اور غنیمت کے مال کو پاؤ پہلے اس سے کہ تم سے چلی جائے دوسری جماعت نے کہا بلکہ ہم رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کریں گے اور اپنی جگہ پر ثابت قدم رہیں گے اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” منکم من یرید الدنیا “ تم میں سے کچھ وہ ہیں جو دنیا کے طالب ہیں آپ لوگوں کے لیے جنہوں نے غنیمت کا ارادہ کیا (اور فرمایا) لفظ آیت ” ومنکم من یرید الاخرۃ “ تم میں سے کچھ وہ ہیں جو آخرت کا ارادہ کرتے ہیں جنہوں نے یہ کہا تھا ہم رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کریں گے اور اپنی جگہ پر جمے رہیں گے تو وہ لوگ محمد ﷺ کے پاس آگئے اور وہ بزدل ہوگئے جب انہوں نے آپس میں تنازعہ کیا اسی کو فرمایا لفظ آیت ” وعصیتم من بعد ما ارکم ما تحبون “ (یعنی تم نے نافرمانی کی بعد اس کے جب تم نے اس چیز کو دیکھا جس کو تم پسند کرتے ہو) یعنی جب تم نے فتح کو اور غنیمت (کے مال) کو دیکھا۔ (3) احمد وابن ابی حاتم نے طبرانی اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی ﷺ کی مدد نہیں فرمائی کسی جگہ میں جیسے کہ احد کے دن مدد فرمائی مگر لوگوں نے اس تعبیر کا انکار کیا ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میرے اور اس آدمی کے درمیان جو انکار کرتا ہے فیصلہ کرنے والی اللہ کی کتاب ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ احد کے دن کے بارے میں فرماتے ہیں لفظ آیت ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونہم بانہ حتی اذا فشلتم “ سے لے کر ” ولقد عفا عنکم واللہ ذو فضل علی المؤمنین “ تک آیت میں ان تیر اندازوں کا ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے ان کو ایک جگہ پر ٹھہرایا پھر فرمایا ہمارے پیچھے سے ہماری حفاظت کرنا اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم قتل کیے جا رہے ہیں تو ہماری مددنہ کرنا اور اگر تم دیکھو کہ ہم غنیمت لوٹ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا جب نبی ﷺ کو غنیمت (کا مال) مل گیا اور صحابہ نے مشرکین کے لشکر کو صباح جاتا دیکھا تو سب تیر انداز (اپنی جگہ سے) ہٹ گئے اور لشکر میں داخل ہو کر مال غنیمت لوٹنے لگے مسلمانوں کے صفیں یوں ایک دوسرے میں مل گئیں اور وہ اس طرح ہوگئے تھے آپ نے انگلیوں کا جال بنایا جب تیر اندازوں نے اس درہ کو خالی کردیا جس میں وہ تھے تو اسی جگہ سے صحابہ کرام ؓ پر گھوڑ سوار دستہ داخل ہوگیا اور ان کے بعض نے بعض کو مارنا شروع کردیا اور معاملہ مشتبہ ہوگیا مسلمانوں کے بہت سے لوگ قتل کر دئیے گئے اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے دن کے شروع میں مشرکین کے جھنڈے والے سات یا نو آدمیوں کو قتل کردیا اور مسلمان پہاڑ کی طرف گھوم گئے ابھی وہ پہاڑ پر نہ پہنچے تھے جہاں لوگ کہہ رہے تھے الغاب (بدبودار گوشت) اور وہ مہر اس کو لینے والے پتھر کے نیچے تھے شیطان نے چیختے ہوئے کہا محمد ﷺ قتل کر دئیے گئے اور کسی کو شک نہیں تھا اس کے حق ہونے میں۔ ہم اسی حال پر تھے کہ ہم نے آپ کے قتل ہوجانے پر شک نہیں کیا یہاں تک کہ آپ دو پہاڑوں کے درمیان سے نمودار ہوئے جب آپ چلتے تو ہم آپ کی چال سے آپ کو پہچان لیتے ہم بہت خوش ہوئے یہاں تک کہ گویا ہم کو یہ تکلیف نہیں پہنچی پس آپ ہماری طرف چڑھے اور آپ یہ دعا فرما رہے تھے اللہ کا عذاب سخت ہوگیا ایسی قوم پر جنہوں نے اپنے نبی کے چہرے کو خون آلود کیا اور دوسری مرتبہ آپ نے فرمایا اے اللہ ان کو یہ طاقت نہ دے کہ وہ ہم پر چڑھ آئیں آپ ﷺ کچھ دیر ٹھہرے رہے اچانک ابو سفیان پہاڑ کے نیچے سے چیخا اعل ھبل، اعل ھبل (یعنی ہمارا بت اونچا ہوگیا) ابن ابی کشبہ کہاں ہے ابن ابی قحافہ کہاں ہے ؟ ابن الخطاب کہاں ہے ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میں اس کا جواب دوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں (جواب دو ) جب اس نے کہا اعل ھبل تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ اعل واجل پھر اس نے دوسری بار کہا ابن ابی کبشہ کہاں ہے ابن ابی قحافہ کہاں ہے ؟ حضرت عمر رجی اللہ عنہ نے فرمایا یہ رسول اللہ ہیں یہ ابوبکر ہیں اور میں عمر ؓ ہوں اس نے کہا آج کا دن بدر کے بدلہ میں ہے دن گھومتے رہتے ہیں اور لڑائی میں کبھی ایک کو غلبہ ہوتا ہے اور کبھی دوسرے کو حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہم برابر نہیں ہیں ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول دوزخ میں ہیں اس نے کہا تم اسی طرح گمان کرتے ہو پھر تو ہم نامراد ہوئے اور ہم نے نقصان اٹھایا پھر اس کو جاہلیت کی غیرت نے پکڑ لیا اور کہنے لگا اگر ایسا ہی ہے (جیسے تم کہتے ہو) اور ہم اس کو ناپسند نہیں کرتے۔ (4) ابن ابی شیبہ نے واحمد ابن المنذر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ عورتیں احد کے دن مسلمانوں کے پیچھے تھیں جو مشرکین کے زخمیوں کا کام کرتی تھیں اگر میں اس بات پر قسم کھاؤں تو میں امید کرتا ہوں کہ میں (اپنی قسم سے) بری ہوجاؤں گا کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی دنیا کا ارادہ کرنے والا نہیں تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الاخرۃ “ (یعنی جو شخص تم میں سے دنیا کا ارادہ کرتا ہے اور جو شخص تم میں سے آخرت کا ارادہ کرتا ہے جب نبی ﷺ کے صحابہ ؓ نے خلاف کیا اور نافرمانی کی اس کام کی جس کا وہ حکم دئیے گئے تھے) تو رسول اللہ ﷺ تو صحابہ کے ساتھ ایک طرف ہوگئے سات انصار میں سے اور دو قریش میں سے جبکہ آپ دسویں تھے جب وہ لوگ (یعنی دشمن) آپ کے قریب ہوئے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ایسے آدمی پر جو ان (کافروں) کو ہم سے ہٹا دے تو ایک آدمی انصار میں سے اٹھا اور کچھ دیر کافروں سے لڑا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا پھر جب انہوں نے آپ کو گھیر لیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو ان کو ہم سے ہٹادے آپ برابر (یہ بات) فرماتے رہے یہاں تک کہ ساتوں قتل کر دئیے گئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو ساتھیوں سے فرمایا ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا ابو سفیان آیا اور کہنے لگا اعل ھبل (ایک بت کا نام ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم کہو اللہ بہت بلند اور بڑے مرتبے والا ہے (پھر) ابو سفیان نے کہا ہمارے لیے عزی (ایک بت کا نام) ہے اور تمہارے لیے کوئی عزی نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم (جواب میں) کہو اللہ تعالیٰ ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کے لیے کوئی مولیٰ نہیں پھر ابوسفیان نے کہا ہمارا اگلا مقابلہ بدر کے میدان میں ہوگا ایک دن تمہارے حق میں ہے اور ایک دن ہمارے حق میں ہے ایک دن نساء کا اور ایک نشر کا (ہمارے بت) کا ہے حنظلہ بدلے حنظلہ کے ہے اور فلاں بدلہ فلاں کے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (دونوں فریقین) برابر نہیں ہیں کیونکہ ہمارے مقتول زندہ ہیں اور رزق دئیے جاتے ہیں اور تمہارا مقتول آگ میں ہیں عذاب دئیے جاتے ہیں ابو سفیان نے کہا بعض مقتولوں کے اعضاء کاٹ دئیے گئے اگرچہ وہ ہماری وضاحت (یعنی ہمارے حکم) کے بغیر ہوا نہ میں نے حکم دیا نہ میں نے منع کیا نہ میں اس کو پسند کرتا ہوں اور نہ میں اس کو برا جانتا ہوں نہ یہ کام مجھے برا لگا اور نہ میں خوش ہوا راوی نے کہا پھر جب انہوں نے دیکھا تو حضرت حمزہ ؓ کا پیٹ چاک کردیا گیا تھا اور ہندہ عورت نے اس کے کلیجے کا نکال کر چبایا مگر اس کو نہ کھا سکی رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا کوئی چیز اس نے کھائی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے لائق یہ نہیں ہے کہ وہ حمزہ ؓ (کے عضو میں سے) کسی چیز کو آگ میں داخل کرے رسول اللہ ﷺ کے سامنے حمزہ ؓ رکھے گئے آپ نے ان پر نماز پڑھی اور ایک اور آدمی انصار سے لائے گئے اور ان کے پہلو میں رکھے گئے آپ نے ان پر بھی نماز پڑھائی انصاری کو اٹھا لیا گیا اور حمزہ ؓ کو چھوڑ دیا گیا پھر ایک اور آدمی کو لایا گیا اور اس کو بھی حمزہ ؓ کے پہلو کی طرف رکھا گیا آپ نے اس پر نماز پڑھائی پھر اس کو اٹھا لیا گیا اور حمزہ کو چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ ان پر ستر بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔ جبل رماۃ پر پچاس تیر اندازوں کا تعین (5) احمد و بخاری مسلم و نسائی وابن جریر ابن المنذر والبیہقی نے دلائل میں براء بن عازب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن پچاس تیر اندازون کو ایک جگہ مقرر فرمایا جن میں عبد اللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا اور ان سے فرمایا اگر تم لوگ ہم کو دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے تو بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہاری طرف پیغام بھیجوں صحابہ ؓ نے کافروں کو شکست دے دی عبد اللہ بن جبیر نے فرمایا اللہ کی قسم عورتوں کو دیکھا کہ وہ پہاڑوں پر بھاگ رہی ہیں اور ان کی پنڈلیان اور ان کے پازیب ظاہر ہوچکی ہیں اور انہوں نے اپنے کپڑوں کو اوپر اٹھایا ہوا ہے عبد اللہ کے ساتھیوں نے کہا غنیمت کا مال سمیٹو تمہارے ساتھ غالب آچکے ہیں کیا تم نہیں دیکھ رہے ؟ عبد اللہ بن جبیر ؓ نے فرمایا کیا تم بھول گئے تم کو رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا تھا ان لوگوں نے جواب دیا اللہ کی قسم ہم ضرور ساتھیوں کے پاس جائیں گے اور ہم ضرور اپنا حصہ غنیمت میں سے لیں گے جب یہ لوگ (اپنی جگہ اتر کر) ان کے پاس آئے تو ان کے چہرے پھیر دئیے گئے اور وہ شکست خوردہ ہو کر آئے یہ وہ موقعہ تھا (کہ صحابہ شکست کھا کر بھاگ رہے تھے) اور رسول اللہ ﷺ ان کو پیچھے سے پکار رہے تھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوائے بارہ آدمیوں کے کوئی باقی نہ رہا ہمارے ستر ساتھی شہید ہوئے اور بدر کے دن رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے مشرکین میں سے ایک سو چالیس آدمیوں کو قابو کرلیا تھا جن میں سے ستر کو قیدی بنایا تھا اور ستر کو قتل کیا تھا۔ ابو سفیان (قریش کے سردار) نے کہا کیا (مسلمانوں کی) قوم میں محمد ﷺ موجود ہیں ؟ تین مرتبہ کہا رسول اللہ ﷺ نے اس کو جواب دینے سے منع فرمایا پھر اس نے کہا کیا تم میں ابن ابی قحافہ موجود ہیں ؟ دو مرتبہ کہا کیا تم میں ابن الخطاب موجود ہیں ؟ دو مرتبہ کہا پھر اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے یہ لوگ قتل کر دئیے گئے ہیں تحقیق تم ان سے بدلہ لے چکے ہو حضرت عمر ؓ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور (فورا) کہا تو نے جھوٹ کہا اللہ کی قسم ! اے اللہ کے دشمن جن لوگوں کا تو نے نام لیا وہ سب زندہ ہیں جو چیز تجھے دکھ میں ڈالنے والی ہے وہ زندہ ہے ابو سفیان نے کہا اگلی جنگ بدر کے میدان میں ہوگی اور لڑائی میں کبھی ایک کو غلبہ ہوتا ہے اور کبھی دوسرے کو اور تم (اپنی) قوم میں مثلہ کو پاؤ گے یعنی ایسے مقتول کو جس کے اعضاء کاٹ دئیے گئے ہیں میں نے اس کا حکم نہیں دیا اور اس بارے میں تم مجھے برا نہ کہو پھر رجز پڑھنے لگا اعل ھبل رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس کا جواب نہیں دیتے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا تم کہو لفظ آیت ” اللہ اعلی واجل “ یعنی اللہ بہت بلند اور بڑے مرتبہ والا ہے پھر اس نے کہا ہمارے لیے عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس کو جواب نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا تم کہو اللہ تعالیٰ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارے لیے کوئی مولیٰ نہیں۔ میدان احد میں افراتفری (6) بیہقی نے دلائل میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ احد کے دن لوگ رسول اللہ ﷺ سے بھاگ گئے اور آپ کے ساتھ انصار میں سے صرف گیارہ صحابہ باقی رہے اور طلحہ بن عبیداللہ بھی تھے اور آپ پہاڑ پر اوپر چڑھ رہے تھے مشرکوں نے ان سب کو گھیر لیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا ان (مشرکین سے مقابلہ کرنے کے لیے) کوئی ہے ؟ طلحہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں آپ نے فرمایا اے طلحہ جو کرسکتے ہو کرو تو انصار میں سے ایک آدمی نے کہا میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! تو اس نے آپ کی طرف سے (مشرکین سے) قتال کیا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ پہاڑی کے اوپر چڑھتے گئے پھر وہ انصاری شہید کر دئیے گئے اور وہ مشرک ساتھ آملے آپ ﷺ نے (پھر) فرمایا کیا کوئی آدمی ہے ان (مشرکوں کے مقابلہ) کے لیے طلحہ ؓ نے پہلے کی طرح پھر کہا (میں حاضر ہوں) اور رسول اللہ ﷺ نے پھر اسی طرح فرمایا (کہ کون ہے مقابلہ کے لیے) تو انصار میں سے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں اور آپ کے صحابہ پہاڑی پر چڑھ رہے تھے پھر وہ انصاری بھی شہید کر دئیے گئے اور مشرک آپ تک پہنچ گئے پھر آپ ﷺ پہلے کی طرح فرما رہے تھے اور طلحہ ؓ کہتے رہے میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! اور رسول اللہ ﷺ ان کو روکتے رہے (اس کے بعد) ایک آدمی نے انصار میں سے کافروں سے لڑنے کی اجازت تو آپ نے اس کو اجازت دے دی یہ آدمی بھی اپنے سے پہلے لوگوں کی طرح کافروں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے یہاں کہ آپ کے ساتھ طلحہ ؓ کے سوا کوئی باقی نہ رہا کافروں نے ان دونوں حضرات کو گھیر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان (کافروں سے مقابلہ) کے لیے کون ہے ؟ طلحہ ؓ نے عرض کیا میں حاضر ہوں تو انہوں نے بھی پہلے لوگوں کی طرح قتال کیا یہاں تک کہ ان کی انگلیاں کٹ گئیں تو انہوں نے کہا ” حس “ یعنی اف (یہ وہ کلمہ ہے جو عرب کے لوگ دفعتہ کوئی تکلیف پہنچنے پر کہتے ہیں) آپ نے فرمایا اگر تو بسم اللہ کہتا یا اللہ تعالیٰ کے نام کو یاد کرتا تو تجھ کو فرشتے اٹھا لیتے اور لوگ تیری طرف دیکھتے آسمان کی فضا میں پھر رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کی طرف پہاڑی پر چڑھ گئے اور وہ وہاں اکٹھے ہوچکے تھے۔ (7) ابن جریر وابن المنذر نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” اذ تحسونہم باذنہ “ ” الحس “ سے قتل مراد ہے۔ (8) عبد بن حمید (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” اذ تحسونہم “ سے مراد ہے کہ تم ان کو قتل کر رہے تھے۔ (9) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” تحسونہم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے لفظ آیت ” تقتلوہم “ یعنی تم ان کو قتل کرتے ہو نافع نے عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کا قول نہیں سنا : ومنا الذی لاقی بسیف محمد فحسن بہ الاعداء عرض العساکر ترجمہ : اور ہم میں سے ایسا جوان بھی ہے جو بھی محمد ﷺ کی تلوار کے ساتھ دشمن سے ملاقات کرتا ہے تو اس کے ساتھ دشمنوں کے لشکر کے ایک حصہ کو قتل کردیتا ہے۔ (10) طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سے نافع بن ازرق نے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” اذ تحسونہم باذنہ “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے لفظ آیت ” تقتلونہم “ یعنی تم ان کو قتل کرتے ہو عرض کیا گیا عرب کے لوگ محمد ﷺ پر کتاب نازل ہونے سے پہلے اس معنی سے واقف تھے فرمایا ہاں کیا تو نے عتبہ اللیثی کا یہ قول نہیں سنا ؟: تحسہم بالبیض حتی کا ننا نفلق منہم بالجماجم حنظلا ترجمہ : ہم ان کو قتل کرتے ہیں سفید تلواروں سے گویا کہ ہم ان کی کھوپڑیوں کو حنظل کے ساتھ ہی ٹکڑے ٹکڑے کر رہے تھے۔ (11) ابن جریر وابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” حتی اذا فشلتم وتنازعتم “ سے بزدلی مراد ہے۔ اختلاف کی وجہ سے رحمت زحمت میں بدل گئی (12) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” حتی اذا فشلتم “ سے مراد ہے کہ تم نے بزدلی دکھائی اپنے دشمن کے مقابلہ سے اور لفظ آیت ” وتنازعتم فی الامر “ سے مراد ہے کہ تم نے اختلاف کیا اور تم نے نافرمانی کی لفظ آیت ” من بعد ما ارکم ما تحبون “ اور یہ احد کے دن تھا ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ بلاشبہ تم عنقریب غالب ہوں گے لیکن ہرگز طلب نہ کرنا غنیمت کے مال کو کچھ بھی یہاں تک کہ تم جنگ سے فارغ ہوجاؤ (پھر) انہوں نے نبی ﷺ کے حکم کو چھوڑ دیا اور ان کی نافرمانی کی اور غنیمت کے مال کو جمع کرنے لگے۔ اور اس عہد کو بھول گئے وہ جو آپ نے ان سے عہد لیا تھا۔ اور مخالفت کی انہوں نے اس کام کی جس کا ان کو حکم کیا گیا تھا پس (اللہ تعالیٰ نے) ان کے خلاف ان کے دشمنوں کی مدد کی، بعد اس کے کہ اللہ نے ان کو وہ چیز دکھائی تھی جس کو وہ پسند کرتے تھے۔ (یعنی مال غنیمت) ۔ (13) عبد بن حمید وابن المنذر نے سعید بن عبد الرحمن بن ابزی (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” حتی اذا فشلتم “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اپنے اصحاب میں پچاس آدمیوں کو مقرر فرمایا اور ان پر عبیداللہ بن اخوات کو امیر بنایا پھر ان کو خالد بن ولید کے سامنے ٹھہرایا جو مشرکین کے گھوڑے سوار دستے کا امیر تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کافروں کو شکست دے دی تو ان پچاس میں سے آدھے لوگوں نے کہا چلو یہاں تک کہ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ مل جائیں۔ اور ہم غنیمت کے مال کو اکٹھا کرنے میں شریک ہوجائیں اور ان میں سے دوسرے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں گے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو حکم فرمائیں۔ (اکثر لوگوں نے جگہ چھوڑ دی) تو جب خالد بن ولید نے دیکھا ان پر (یعنی مسلمانوں پر) چڑھ دوڑے اور (زبردست) حملہ کردیا۔ ان افراد نے خالد بن ولید سے جنگ کی۔ یہاں تک کہ (مسلمانوں کی) ایک جماعت شہید ہوگئی۔ تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ “ سے لے کر ” وعصیتم “ تک۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جگہ چھوڑنے والوں کو نافرمان قرار دیا۔ (14) ابن المنذر نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” من بعد ما ارکم ما تحبون “ میں ” ما تحبون “ سے مراد ہے غنیمت اور مشرک قوم کا شکست کھانا۔ (15) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” من بعد ما ارکم ما تحبون “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی مدد فرمائی مشرکین کی عورتیں سخت اور نرم سب جگہوں پر بھاگ رہی تھیں۔ پھر ان پر مشرکین کو غلبہ دے دیا گیا نبی ﷺ کی نافرمانی کی وجہ سے۔ (16) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے احد کے دن مسلمانوں میں سے ایک جماعت کو حکم فرمایا تم لوگوں کے لیے پہرہ دار بن جاؤ۔ یعنی ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ پر رہیں۔ اور ان کو حکم فرمایا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں یہاں تک کہ تم کو اجازت دی جائے جب نبی ﷺ احد کے دن ابو سفیان سے اور جو لوگ ان کے ساتھ مشرکین میں سے جنگ کی تو ان کو نبی ﷺ نے شکست دی۔ جب ان پہرے داروں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دے دی ہے تو بعض لوگ غنیمت غنیمت کی آواز لگاتے ہوئے چل دئیے کہ تم مال غنیمت اکھٹا کرو تم سے نہ رہ جائے لیکن بعض اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے اور انہوں نے کہا ہم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ ہم کو نبی ﷺ اجازت نہ فرمائیں اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الاخرۃ “ ابن مسعود ؓ فرمایا کرتے تھے میرا خیال نہیں تھا کہ میں نے نبی ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی ایک بھی دنیا اور اس کے سامان کا ارادہ رکھتا ہے یہاں تک کہ غزوہ احد کا موقعہ آیا۔ (17) ابن جریر نے ابن جریج کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ احد کے دن جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی تو تیر اندازوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور لوگوں کے پاس چلو کہ وہ لوگ ہم سے مال غنیمت اکھٹا کرنے میں سبقت نہ کر جائیں اور سارا مال ان کا نہ ہوجائے لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ ہم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ ہم کو نبی ﷺ اجازت عطا نہ فرمائیں تو (اس بارے میں یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الاخرۃ “ ابن جریج نے کہا کہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سے ہم سے ایک کو بھی نہیں جانا کہ وہ دنیا اور اس کے سامان کا ارادہ کرتا تھا یہاں تک کہ غزوہ احد کا دن آیا۔ (18) احمد ابن ابی شیبہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے طبرانی اوسط میں بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہمارا خیال نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی دنیا کا ارادہ کرتا ہو یہاں تک کہ احد کے دن ہمارے بارے میں (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الاخرۃ “۔ (19) ابن جریر نے حسن (رح) سے اس کے بارے میں روایت کیا ہے کہ پھر تم کو ان سے پھیر دیا تو مسلمانوں میں سے اتنی تعداد میں لوگ شہید ہوگئے جتنے بدر کے دن (مشرک) قید ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے چچا شہید ہوئے اور آپ کے آگے کے دانت مبارک شہید ہوئے اور آپ کے چہرہ مبارک میں زخم آیا صحابہ ؓ نے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے ہم سے مدد کا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ “ سے لے کر ” ولقد عفا عنکم “۔ (20) ابن جریر نے حسن (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولقد عفا عنکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تحقیق میں نے تم کو معاف کردیا اگرچہ تم نے میری نافرمانی کی کہ میں نے تم کو جڑ سے نہیں اکھیڑا (یعنی تم کو دنیا سے ملیا میٹ نہیں کیا) پھر حسن ؓ نے فرمایا یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں تھے اللہ کے لیے (دشمن سے) سخت غصہ کرنے والے تھے اور اللہ کے دشمنوں سے قتال کرنے والے تھے جس چیز سے منع کیا گیا تھا انہوں نے اس کو ضائع کردیا اللہ کی قسم ! ان لوگوں نے (رسول اللہ ﷺ کے حکم کو) چھوڑا یہاں تک کہ اس غم میں مبتلا کیا گیا ان میں سے ستر شہید کر دئیے گئے اور رسول اللہ ﷺ کے چچا شہید ہوئے اور آپ کے اگلے دانت مبارک بھی شہید ہوگئے اور آپ کے چہرے مبارک بھی زخمی ہوا آج سب سے بڑا فاسق کبیرہ گناہ پر جرات کرتا ہے ہر ہر بدکاری کرتا ہے گھٹیا ہے اس پر اپنے کپڑوں کو اور گمان کرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں پس عنقریب وہ اپنا انجام دیکھ لے گا۔ (21) ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولقد عفا عنکم “ سے مراد ہے کیونکہ اس نے تم کو (رسول اللہ کی نافرمانی پر) مکمل طور پر ہلاک نہیں کیا (بلکہ معاف کردیا گیا) ۔ (22) بخاری نے عثمان بن موھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی ابن عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا میں آپ سے ایک چیز کے بارے میں سوال کرتا ہوں مجھ کو بتائیے کہ میں تم کو اس گھر کی عزت کی قسم دیتا ہوں کیا آپ جانتے ہیں کہ عثمان بن عفان ؓ احد کے دن بھاگ گئے تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر اس نے کہا آپ جانتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر سے بھی غائب تھے اور اس میں حاضر نہ ہوئے انہوں نے فرمایا ہاں ! پھر اس نے کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیت رضوان سے بھی پیچھے رہ گئے تھے اس میں حاضر نہ ہوئے انہوں نے فرمایا ہاں بات اسی طرح سے ہے پھر اس نے تکبیر کہی ابن عمر ؓ نے فرمایا میں تجھے بتاتا ہوں اور میں تجھ کو بیان کرتا ہوں ان سب باتوں کے بارے میں جس کے بارے میں تو نے مجھ سے سوال کیا ان کا احد کے دن فرار ہونا میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا تھا اور بدر کے دن سے غائب ہونا اس وجہ سے تھا کہ ان کے نکاح میں نبی ﷺ کی بیٹی تھی اور وہ بیمار تھی رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے فرمایا کہ تیرے لیے آیک آدمی کا ثواب بھی ہے اور اس کا (مال غنیمت کا حصہ) بھی ہے اور ان کا بیعت رضوان سے غائب ہونا (اس وجہ سے تھا) کہ اگر وادی مکہ میں حضرت عثمان ؓ کے علاوہ کوئی زیادہ عزت والا ہوتا تو ان کی جگہ اس کو بھیجتے چناچہ حضرت عثمان ؓ کو بھیجا گیا اور بیعت رضوان ان کے مکہ کی طرف چلے جانے کے بعد ہوئی نبی ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ مبارک کے بارے میں فرمایا اور اس کو بائیں ہاتھ پر مارا تھا کہ یہ حضرت عثمان کا ہاتھ ہے (پھر ابن عمر ؓ نے اس آدمی سے فرمایا) اب تو اپنے ساتھ ان باتوں کو بھی لے کر چلا جا۔
Top