Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Az-Zumar : 68
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ
: اور پھونک ماری جائے گی صور میں
فَصَعِقَ
: تو بیہوش ہوجائے گا
مَنْ
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَنْ
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
اِلَّا
: سوائے
مَنْ
: جسے
شَآءَ اللّٰهُ ۭ
: چاہے اللہ
ثُمَّ
: پھر
نُفِخَ فِيْهِ
: پھونک ماری جائے گی اس میں
اُخْرٰى
: دوبارہ
فَاِذَا
: تو فورا
هُمْ
: وہ
قِيَامٌ
: کھڑے
يَّنْظُرُوْنَ
: دیکھنے لگیں گے
اور صور میں پھونکا جائے گا جو بھی آسمانوں میں اور زمین میں ہوں گئے سب بےکار ہوجائیں گے مگر جنہیں اللہ چاہے پھر اس میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو وہ اچانک وہ سب کھڑے ہوئے دیکھتے ہوں گے
1:۔ احمد وعبد بن حمید و بخاری (رح) ومسلم و ترمذی (رح) وابن ماجہ (رح) وابن جریر (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ مدینہ منورہ کے بازار میں یہودیوں میں سے ایک آدمی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو انسانوں میں سے چن لیا (یہ سن کر) انصار میں سے ایک آدمی نے اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھایا اور اس کو تھپڑ مار دیا اور کہا کیا تو اس بات کو کہتا ہے اس حال میں کہ ہمارے درمیان اللہ کے رسول (موجود) ہیں۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو ذکر کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون “ (68) ۔ (اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو فورا تمام آسمان والوں اور زمین والوں کے ہوش اڑ جائیں گے مگر جس کو خدا چاہے گا۔ (وہ بیہوشی سے محفوظ رہے گا پھر اس صور میں دوبارہ پھونک ماری جائے گی تو اچانک سب کے سب کھڑے ہوجائیں گے اور دیکھنے لگیں گے) اور میں پہلا آدمی ہوں گا جو اپنے سر کو اٹھائے گا اچانک میں موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہوں گا جو عرش کے پائیوں میں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہوں گے میں نہیں جانتا کہ انہوں نے اپنے سر کو مجھ سے پہلے اٹھایا وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کو اللہ عزوجل نے مستثنی قرار دیا۔ شہداء پر بیہوشی کا طاری نہ ہونا : 2:۔ ابویعلی والدارقطنی الافراد وابن المنذر وحاکم (رح) (وصححہ) وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) بعث میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے جبرئیل (علیہ السلام) سے اس (آیت ) ” فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ “ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ارادہ نہیں کیا کہ ان کو بےہوش کرے فرمایا شہداء ہوں گے اپنی تلواروں کو لٹکائے ہوئے ان کے عرش کے اردگرد ہوں گے ان سے فرشتے ملاقات کریں گے قیامت کے دن اور محشر کی طرف لے جائیں گے یا موت کے عمدہ گھوڑے ہوں گے جن کو نگاہیں موتیوں کی ہوں گی جن کے باریک باریک اور موٹے ریشم کے کجاوؤں کے ساتھ ان کی اونی چادریں ریشم سے زیادہ نرم ہوں گی ان کے قدم حد نگاہ تک پڑیں گے وہ جنت میں سیر کریں گے اور کہیں گے لمبا وقت گزر جانے کے بعد ہم کو اپنے رب کی طرف لے چلو، ہم دیکھیں گے کہ کس طرح اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ فرماتے ہیں میرا رب ان کی طرف دیکھ کر ہنسیں گے۔ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی بندے کو دیکھ کرہنسیں گے تو اس پر کوئی حساب نہ ہوگا۔ 3:۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے (آیت ) ” فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے شہداء مراد ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مستثنی کردیا۔ 4:۔ سعید بن منصور وہناد و عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” الا من شآء اللہ “ سے مراد شہداء ہیں یہ اللہ کی جانب سے مستثنی ہیں تلواروں کو لٹکائے ہوئے عرش کے اردگرد ہوں گے۔ 5:۔ فریابی (رح) وعبد بن حمید (رح) وابونصر السخبری (فی الابانہ) وابن مردویہ (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت ) ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ “۔ تو صحابہ ؓ “ نے پوچھا کہ یارسول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنی قرار دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) میکائل (علیہ السلام) ملک الموت اسرافیل اور عرش کے اٹھانے والے (بےہوش ہونے سے مستثنی ہیں) جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی روحیں قبض فرمائیں گے تو (پھر) ملک الموت سے پوچھیں گے کون باقی ہے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں وہ عرض کریں گے : اے میرے رب ! آپ کی ذات پاک ہے اے میرے بلند شان والے رب بزرگی اور عزت والے جبرئیل (علیہ السلام) میکائیل (علیہ السلام) اسرافیل (علیہ السلام) اور ملک الموت باقی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : میکائیل (علیہ السلام) کی جان کو لے لے تو وہ بڑے پہاڑ کی طرح گرپڑیں گے۔ پھر فرمائیں گے : اے ملک الموت کون باقی ہے ؟ وہ عرض کریں گے : اے میرے رب ! آپ کی ذات پاک ہے۔ بڑی بزرگی اور عزت والے جبرئیل (علیہ السلام) اور ملک الموت باقی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے ملک الموت تو مرجا تو وہ مرجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : اے جبرئیل (علیہ السلام) کون باقی ہے ؟ وہ عرض کریں گے : آپ کی ذات پاک ہے۔ اے بڑی بزرگی اور عزت والے جبرئیل باقی ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے اس مرتبہ پر ہیں جس پر وہ ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے جبرائیل (علیہ السلام) ! تیری موت بھی ضروری ہے وہ سجدے میں گرپڑیں گے اور اپنے پروں کے ساتھ پھڑ پھڑائیں گے اور کہیں گے : اے میرے رب ! آپ کی ذات پاک ہے بہت برکتوں والی بلند شان والی بزرگی اور عزت والی آپ ہی باقی ہیں اور جبرائیل (علیہ السلام) مرنے والا اور فنا ہونے والا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی روح کو قبض کرلیں گے اس پھڑپھڑانے میں جس میں وہ پھڑپھڑائیں گے وہ اس فضیلت کی حالت میں گرے گا جیسے اسے میکائیل (علیہ السلام) پر فضیلت پر پیدا کیا جیسے تو دے پر بڑے تودے کو فضیلت ہوتی ہے۔ 6:۔ ابن مردویہ (رح) و بیہقی (رح) نے (بعث میں) انس ؓ سے مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ (آیت ) ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ “ سے مراد ہے کہ ان مخلوق میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنی قرار دیا وہ جبرائیل (علیہ السلام) میکائیل (علیہ السلام) اور ملک الموت ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اور وہ خوب جانتے ہیں اے ملک الموت کون باقی ہے۔ تو وہ عرض کریں گے آپ کی کریم ذات باقی ہے۔ اور آپ کے بندے جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) اور ملک الموت باقی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میکائیل کی جان کو قبض کرلے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے حالانکہ وہ جانتے ہیں اے ملک الموت ! کون باقی ہے ؟ وہ کہیں گے آپ کی ذات کریم باقی ہے اور آپ کے بندے جبرئیل (علیہ السلام) اور ملک الموت باقی ہیں ؟ وہ کہیں گے آپ کی ذات کریم اور آپ کا بندہ ملک الموت باقی ہے۔ اور وہ مرنے والا ہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو بھی مرجا پھر اللہ تعالیٰ آواز دیں گے میں نے مخلوق کو پیدا کیا اور میں ہی اسے دوبارہ لوٹاؤں گا کہاں جبار اور متکبر کوئی جواب نہیں دے گا پھر آواز دیں گے آج کسی کے لئے بادشاہی ہے کوئی جواب نہیں دے گا پھر خود ہی فرمائیں گے آج اس اللہ کی بادشاہی ہے جو اکیلا اور بڑی قوت والا ہے (آیت ) ” ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون “۔ (پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو وہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے) 7:۔ ابن المنذر (رح) نے جابر ؓ نے (آیت ) ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ “۔ کے بارے میں روایت کیا کہ ” الا ماشاء اللہ سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہیں کیونکہ ان پر پہلے ہی بےہوشی طاری ہوگئی۔ 8:۔ عبد بن حمید وابن المنذر (رح) عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” الا ما شآء اللہ “ سے مراد ہیں عرش کے اٹھانے والے فرشتے۔ 9:۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ موت سے کوئی باقی نہیں رہے گا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ اس نے کس کو مستثنی کیا۔ 10:۔ احمد ومسلم نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال میری امت میں نکلے گا ان میں وہ چالیس دن یا چالیس سال مہینے یا چالیس راتیں رہے گا پھر اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجیں گے گویا وہ عروہ بن مسعود ثقفی ؓ ہیں وہ اسی دن کو تلاش کریں گے اور اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کردیں گے پھر اس کے بعد لوگ کئی سال رہیں گے (اس طرح پر) دو کے درمیان دشمنی نہیں ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ٹھنڈی ہوا بھیجیں گے اور کوئی باقی نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا۔ مگر اس کو قبض کرلیا جائے گا یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی پہاڑ کے اندرونی حصے میں ہوگا تو ہوا اس پر داخل ہوجائے گی بڑے لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں پرندوں جیسا ہلکا پن اور درندوں جیسی عقلیں ہوں گی نہ کسی نیکی کو پہچانیں گے اور نہ کسی برائی کو مانیں گے ان کے سامنے شیطان انسانی شکل میں آئے گا اور وہ کہے گا کیا تم میری دعوت قبول نہیں کرو گے۔ پھر وہ ان کو بتوں کی عبادت کا حکم کرے گا تو وہ لوگ ان کی عبادت کریں گے اور وہ اس حالت میں بھی وہ خوشحالی اور اچھی زندگی گزا رہے ہوں گے پھر صور میں پھونکا جائے گا تو جو کوئی اس کی آواز سنے گا اس کی طرف کان لگائے گا اور سب سے پہلے جو آدمی اس کو سنے گا وہ آدمی ہوگا جو اپنے حوض کو لیپ رہا ہوں گا (یہ آواز سن کر) بیہوش ہوجائے گا پھر کوئی نہیں بچے گا مگر وہ بیہوش ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ بارش بھیجیں گے شبنم کی طرح اس سے لوگوں کے جسم اگ آئیں گے (آیت ) ” ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون “۔ پھر کہا جائے گا اے لوگوں ! اپنے رب کی طرف چلو (آیت ) ” وفقوھم مسؤلون “ ان کو ٹھہرایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا پھر کہا جائے گا دوزخ کے لئے نکالو تو پوچھا جائے گا کتنے کہا جائے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ اس کے بارے میں فرمایا (آیت ) ” یوم یجعل الولدان شیبا “ (المزمل آیت 10) جس میں بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور وہ اس دن ہوگا (آیت) یوم یکشف عن ساق “ (القلم آیت 42) جب پنڈلی کھولی جائے گی) دو نفخون کی درمیانی مدت چالیس سال ہے : 11:۔ بخاری (رح) ومسلم وابن جریر وابن مردویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو نفخوں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہے۔ لوگوں نے کہا اے ابوہریرہ ؓ چالیس دنوں کا فاصلہ ہے ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ میں اس کا انکار کرتا ہوں پھر لوگوں نے کہا کیا چالیس مہینوں کا فاصلہ ہے فرمایا میں اس کا بھی انکار کرتا ہوں پھر لوگوں نے کہا کیا چالیس سالوں کا فاصلہ ہے ؟ فرمایا میں اس کا بھی انکار کرتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمائیں گے تو (لوگ) اگ آئیں گے جیسے سبزی اگتی ہے۔ انسان کی ہر چیز جائے گی مگر ایک ہڈی اور وہ عجب الذنب اور اسی سے مخلوق (دوبارہ) پیدا ہوگی قیامت کے دن۔ 12:۔ ابوداؤد فی البعث وابن مردویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا صور میں پھونکا جائے گا اور صحت سینگ کی طرح اور شکل ہوگی (اس سے) آسمان اور زمین میں جو (جاندار) ہوگا وہ بےہوش ہوجائے گا اور دو نفخوں کے درمیان چالیس سال کا عرصہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان چالیس سالوں میں بارش برسائے گے (تو لوگوں کے جسم) اگ آئیں گے جیسے سبزی اگتی ہے۔ اور انسان کی ایک ہڈی ہے جس کو زمین نہیں کھاتی وہ عجب الذنب ہے اور قیامت کے دن اسی سے جسم پیدا ہوگا۔ 13:۔ ابن ابی عاصم نے السنہ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر بنی آدم کو زمین کھاجاتی ہے مگر عجب الذنب کو نہیں کھاتی کہ جس سے جسم اگے گا اور اللہ تعالیٰ زندگی کا پانی بھجیں گے تو اس سے انسان کا حیران کردہ سر سبز شاداب نباتات یہاں تک کہ جب جسم نکلیں گے تو اللہ تعالیٰ روحوں کو بھیج دیں گے تو ہر روح تیزی کے ساتھ پلک جھپکتے ہی اپنے ساتھی کی طرف آجائے گی پھر صور میں پھونکا جائے گا (آیت ) ” فاذا ھم قیام ینظرون “۔ (تو اچانک وہ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے ) 14:۔ ابن المبارک نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ دو نفخوں کے درمیان چالیس سال کا عرصہ ہوگا پہلے نفخہ سے اللہ تعالیٰ ہر جاندار کو موت دے دیں گے۔ اور دوسرے نفخہ سے اللہ تعالیٰ ہر مردہ کو زندہ کردیں گے۔ 15:۔ ابن المبارک فی الزھد وعبد بن حمید وابو داؤد و ترمذی (رح) (وحسنہ) و نسائی (رح) وابن المنذر (رح) وابن حبان (رح) وحاکم (رح) (صححہ) وابن مردویہ (رح) اور بیہقی (رح) نے البعث میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے صور کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا یہ ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ 16:۔ مسدود وعبد بن حمید وابن المنذر (رح) نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ 17:۔ سعید بن منصور واحمد بن حمید (رح) و ترمذی (رح) (وحسنہ) وابو یعلی وابن حبان (رح) وابن خزیمہ وابن المنذر وحاکم (رح) وابن مردویہ (رح) و بیہقی (رح) نے البعث میں ابوسعید ؓ سے رویت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں کیسے خوش ہوں یقینی بات ہے کہ صور والے نے صور کو اپنے منہ میں رکھ لیا ہے اور اپنی پیشانی کو جھکا دیا ہے اور اپنے کانوں کو لگائے ہوئے ہے اس انتظار میں کہ اس کو حکم دیا جائے تو وہ صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ہم کس طرح سے کہیں ؟ فرمایا یوں کہو (آیت ) ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا “ (ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور بہترین کارساز ہے اور ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا) 18:۔ ابوالشیخ (وصححہ) وابن مردویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صور والے (فرشتے) نے آنکھ نہیں چھپکائی جب سے اس کو مقرر کیا گیا وہ (ہر وقت) تیار ہے اور عرش کو دیکھ رہا ہے، یہ خوف کرتے ہوئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنکھ جھپکنے سے پہلے صور پھونکنے کا حکم نہ دے دیا جائے۔ گویا اس کی دونوں آنکھیں چمکتے ہوئے ستارے ہیں۔ 19:۔ سعید بن منصور وابن مردویہ (رح) اور بیہقی نے البعث میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) اس کی داہنی طرف ہے اور میکائیل (علیہ السلام) اس کی بائیں طرف ہے۔ اور وہ صور والا ہے یعنی اسرافیل (علیہ السلام) ۔ 20:۔ ابن ماجہ والبزار وابن مردویہ (رح) نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صور والے اپنے ہاتھوں میں سینگ لئے ہوئے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ جب ان کو حکم ہوتا ہے۔ 21:۔ بزار وحاکم (رح) نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی صبح ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں دو فرشتے جو صور (کو پھونکنے) پر مقرر ہیں وہ انتظار کررہے ہیں کب ان کو حکم ہوتا ہے کہ وہ صور پھونکیں۔ 22:۔ احمد وحاکم (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا صور پھونکنے والے دوسرے آسمان میں ہیں انمیں سے ایک کا سر مشرق میں ہے اور ان کی ٹانگیں مغرب میں ہیں وہ انتظار کررہے ہیں کب انکا حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صور میں پھونکیں۔ 23:۔ عبد بن حمید و طبرانی (رح) نے (الاوسط میں حسن سند کے ساتھ) عبداللہ بن حارث (رح) سے روایت کیا کہ میں عائشہ ؓ کے پاس تھا اور ان کے پاس کعب ؓ بھی موجود تھے اسرافیل (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا تو عائشہ ؓ نے فرمایا مجھے اسرافیل کے بارے میں بتائیے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ان کے چار پر ہیں ہوا میں ہیں اور ایک پر کے ساتھ انہوں نے پاجامہ بنایا ہوا ہے اور ایک پر ان کے کندھے پر ہے اور قلم ان کے کان پر ہے۔ جب وحی نازل ہوتی ہے تو قلم لکھتا ہے اور فرشتے اسے پڑھتے ہیں اور صور والا فرشتہ اس سے نیچے ہے اس نے ایک گھٹنے ٹیک لگائی ہوئی ہے۔ اور دوسرے کو کھڑا کیا ہوا ہے صور کو اپنے منہ میں ڈالے ہوئے ہے اپنی پیٹھ پر موڑے ہوئے ہے اور اس کی نگاہ اسرافیل کی طرف ہے۔ اس نے اپنے پر سمیٹے ہوئے ہیں تاکہ وہ ؔ صور میں پھونکے۔ 24:۔ ابوالشیخ نے العظمہ میں ابوبکر ھذلی (رح) سے روایت کیا کہ صور کا فرشتہ جس کو مقرر کیا گیا ہے اس کا ایک قدم ساتویں زمین میں ہے اور وہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ہے اور اپنی آنکھ کی ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے اسرافیل (علیہ السلام) کی طرف اس نے اپنی نظر نہیں جھکائی جب سے اس کو اللہ تعالیٰ اس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا برابر دیکھ رہے ہیں کہ جب اسے اشارہ ہوتا ہے اور وہ صور میں پھونکتے ہیں۔ 25:۔ ابوالشیخ نے وھب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے صور کو سفید موتی سے پیدا فرمایا جو شیشے کی طرح شفاف ہے پھر عرش سے فرمایا صور کو پکڑ لے تو صور اس سے لٹک گیا پھر فرمایا ہوجا تو اسرافیل (پیدا) ہوگئے ان کو حکم فرمایا کہ صور کو لے لو انہوں نے اس کو لے لیا اور اس میں ہر پیدا کی ہوئی روح کے عدد کے برابر سوراخ ہیں اور جو جان پیدا ہوتی ہے اس کے عدد کے برابر) کوئی روح ایک سوراخ سے نہیں نکلے گی اور صور کے درمیان ایک خلا جو آسمان اور زمین میں گھیرے جتنا ہے اور اسرافیل (علیہ السلام) اپنے منہ کو اس سوراخ پر رکھے ہوئے ہیں پھر ان سے رب عزوجل فرماتے ہیں میں نے تم کو صور پر مقرر کیا ہے پس تو صور پھونکتے اور صیحہ کے لئے ہے۔ اسرافیل (علیہ السلام) عرش کے اگلے حصے میں داخل ہوگئے انہوں نے اپنے داہنے پاؤں کو عرش کے نیچے رکھا اور بائیں پاؤں کو آگے بڑھالیا اور اپنی نگاہ کو نہیں چھپکایا جب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا فرمایا تاکہ وہ دیکھیں کہ کب ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ 26:۔ احمد وابو داؤد و نسائی (رح) وابن خزیمہ (رح) وابن حبان (رح) اور حاکم نے اوس بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں سے افضل دن جمعہ کا ہے۔ جس میں آدم (علیہ السلام) پیدا کئے گئے اور اس میں فوت کئے گئے اور اسی دن میں صور کو پھونکا جائے گا۔ اور اس میں بےہوشی ہوگی۔ 27:۔ ابن جریر نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا گویا کہ میں جھاڑ رہا ہوں اپنے سر کو سب سے پہلے زمین سے نکلتے کے وقت، پھر میں متوجہ ہوتا ہوں تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا مگر موسیٰ (علیہ السلام) کو جو عرش کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں میں نہیں جانتا کیا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نفخہ کے نیچے سے مستثنی کیا ہے اور قرآن کو مجھ سے پہلے اٹھایا گیا۔ 28:۔ ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ فصعق سے مراد ہے وہ مرگئے (آیت ) ” الامن شآء اللہ “ (مگر جن کو اللہ چاہیں وہ نہیں مرے گا) سے مراد جبرائیل اسرافیل اور ملک الموت ہیں، پھر دوسری مرتبہ صور میں پھونکا جائے گا۔ 29:۔ عبد بن حمید نے ابو عمران جونی (رح) سے روایت کیا کہ رسول ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے صور والے کو پیدا فرمایا تو انہوں نے صور کو پکڑ لیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ کی طرف جھکا لیا ایک پاؤں کو آگے اور ایک پاؤں کو پیچھے کرلیا۔ یہاں کہ اسے حکم دیا جائے گا تو وہ صور پھونکے گا اور تم نفخہ سے بچو۔ 30:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے (آیت ) ” فاذا ھم قیام ینظرون “۔ کے بارے میں یہی روایت کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بیہوشی طاری نہ ہوگی : 31:۔ عبد بن حمید وابن جریر قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا اے محمد بادشاہ اور نبی بننے کو اختیار کرلیں یا بندہ اور نبی بننے کا اختیار کرلیں۔ فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) نے مجھے تواضع اختیار کرنے کا اشارہ کیا۔ میں نے کہا کہ میں بندہ اور نبی کو اختیار کرتا ہوں مجھ کو دو باتیں دی گئیں میں سب پہلا ہوں جس کے لئے زمین پھٹے گی اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوگا۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی عرش کو پکڑے ہوں گے اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پہلے صعقہ سے محفوظ رکھا یا مجھ سے پہلے ان کو افاقہ ہوا۔ (آیت ) ” ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون “۔ 32:۔ عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں عکرمہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان لوگوں کا ذکر ہوا جو سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں عکرمہ نے فرمایا کہ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہے جو لوگ سمندروں میں غرق ہوجاتے ہیں ان میں سے سوائے ہڈیوں کے اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی تو موجیں (ان ہڈیوں کو) خشکی کی طرف ڈال دیتی ہیں وہ ہڈیاں کچھ عرصہ تک بڑھی رہتی ہیں یہاں تک کہ بوسیدہ ہوجاتی ہیں وہاں سے اونٹ گزرتے ہیں تو اس کو کھا جاتے ہیں پھر وہ اونٹ چلتے نہیں مینگنیاں کرتے ہیں پھر ان کے بعد ایک قوم آتی ہے (ان مینگنیوں کے پاس) پھر کچھ لوگ آتے ہیں وہ وہاں ٹھہرتے ہیں اور ان مینگنیوں کو لے کر آگ میں چلا دیتے ہیں۔ پھر ہوا چلتی ہے تو چلتی ہے تو اس راکھ کو زمین میں ڈال دیتی ہے۔ (یعنی بکھیر دیتی ہے) جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” فاذا ھم قیام ینظرون “۔ (تو اچانک وہ زندہ ہوکر) کھڑے ہو کر دیکھنے لگتے ہیں یعنی یہ اور قبروں والے برابر نکلتے ہیں۔ 33:۔ عبد بن حمید نے عبد اللہ بن عاص (رح) سے روایت کیا کہ باب ایلیا الشرقی سے پہلا صور پھونکا جائے گا یا فرمایا غربی دروازہ سے اور دوسرا صور دوسرے دروازے سے (پھونکا جائے گا) 34:۔ عبدبن حمید (رح) نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو نفخوں کے درمیان چالیس کا عرصہ ہے حسن فرماتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ چالیس سال یا چالیس مہینے یا چالیس راتیں مراد ہیں۔ 35 عبد بن حمید وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو نفخون کے چالیس کا عرصہ ہے آپ کے صحابہ نے فرمایا کہ ہم نے اس بارے میں آپ سے سوال نہیں کیا یا جو اس سے زائد ہے مگر انہوں نے اپنے طور پر یہ رائے قائم کی تھی کہ وہ چالیس سال مراد ہیں۔ راوی نے کہا اور ہم کو بھی یہ ذکر کیا گیا کہ ان چالیس سال میں ایک بارش بھیجی جائے گی جس کو زندگی کی بارش کہا جاتا ہے یہاں تک کہ زمین پاک ہوجائے گی اور حرکت کرے گی اور لوگوں کے جسم سبزی کے اگنے کی طرح اگ آئیں گے پھر دوسراصور پھونکا جائے گا (آیت ) ” فاذا ھم قیام ینظرون “۔ (تو اچانک وہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے۔ ) 36:۔ ابوالشیخ نے عکرمہ ؓ سے (آیت ) ” ونفخ فی الصور “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ صور اسرافیل (علیہ السلام) کے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں ہر چیز کی روح ہوگی (آیت ) ” ونفخ فی الصور “ (پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا تو یہ دوبارہ اٹھائے جانے والا نفخہ ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری عزت کی قسم ؟ ہر روح کو ضرور لوٹایا جائے گا اس کے جسم کی طرف راوی نے کہا اور اس میں ایک خلا ساتویں آسمانوں اور زمینوں سے بڑا ہوگا اسرافیل پر صور کا حق ہوگا اور وہ اپنی آنکھ کی ٹکٹکی باندھے ہوئے عرش کی طرف دیکھ رہے ہوں گے یہاں تک کہ پھونکنے کا حکم دیا جائے گا تو وہ صور میں پھونکیں گے۔ 37:۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ونفخ فی الصور “ سے مراد ہے کہ پہلا صور دنیا سے ہوگا (یہ سب جاندار مرجائیں گے) اور دوسرا صور آخرت سے ہوگا ( کہ سب زندہ ہوجائیں گے ) 38:۔ عبد بن حمید وعلی بن سعید فی کتاب الطاعۃ والعصیان وابو یعلی وابو الحسن والعفان فی المطولات وابن جریر وابن المنذر ابن ابی حاتم (رح) و طبرانی (رح) وابوموسی کلاھی فی المطولات وابو الشیخ فی العظمہ اور بیہقی (رح) نے البعث والنشور میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور آپ کے اصحاب میں سے ایک جماعت موجود تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جب آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے فارغ ہوئے تو ؟ صور کو پیدا فرمایا بہت بڑا ہے اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے وہ اتنا بڑا سوراخ ہے جو آسمان اور زمین میں ہے سب ہلاک ہوجائے گی پھر اس میں دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا ( آیت ) ” فاذا ھم قیام ینظرون “ (اچانک وہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے) رب العالمین کے لئے اللہ تعالیٰ اسرافیل (علیہ السلام) کو حکم فرمائے گے پہلی دفعہ پھونکنے کا اس کو کھینچنے کا اور لمبا کرے اور سستی نہ کرے اور اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتے ہیں۔ (آیت ) ” وما ینظر ھؤلآء الا صیحۃ واحدۃ مالھا من فواق “ (اور یہ لوگ بس ایک چیخ کے منتظر ہیں جس میں دم لینے کی بھی گنجائش نہ ہوگی) اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو چلائیں گے تو وہ ریت ہوجائیں گے اور زمین اپنے رہنے والوں کے ساتھ کانپ جائے گی اور وہ کشتی کی مانند ہوجائے گی جسے سمندر میں چھوڑا گیا ہو جسے ہوائیں ٹکر مارتی ہیں اور وہ اپنے مسافروں کے ساتھ یوں جھکتی ہے جیسے چھت کے ساتھ لٹکے ہوئے قندیل ہوں ہوائیں ان کو جھکادیتی ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” یوم ترجف الراجفۃ (6) تتبعھا الرادفۃ (7) قلوب یومئذواجفۃ (8) “ (النازعات آیت 8) (جس روز میں و آسمان میں زلزلہ آئے گا اس کے پیچھے دوسرا زلزلہ آئے گا، بہت سے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے) لوگ اس کی پشت پر کاٹیں گے اور عورت اپنے دودھ پینے والے بچے کو بھول جائیں گی۔ اور حمل والی عورتیں حمل کو ڈال دیں گی اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور شیاطین گھبرا کر بھاگتے ہوئے اتر جائیں گے یہاں تک کہ کناروں تک آئیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ لیں گے ان کے چہروں کو ماریں گے اور واپس لوٹا دیں گے اور لوگ بھاگ کھڑے ہوں گے پیٹھ پھیرتے ہوئے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو بلائیں گے اس درمیان کہ وہ اس حال میں ہوں گے اچانک زمین ایک قطر سے دوسرے قطرتک پھٹ جائے گی اور لوگ ایک بڑے حادثے کو دیکھیں گے کہ اس جیسا حادثہ پہلے نہیں دیکھا تھا اور ان کو بےچینی اور خوف پکڑ لے گا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں پھر وہ آسمان کی طرف دیکھیں گے تو وہ تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا پھر لپٹ جائے گا اور اس کے ستارے بکھر جائیں گے اور اس کا سورج اور چاند بےنور ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور مردے اس میں سے کسی چیز کو نہ جانیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ ان کو مستثنی فرمائیں گے جب فرماتے ہیں (آیت ) ” ففزع من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ “ (تو گھبراجائے گا جو آسمان میں اور زمین میں ہوگا مگر جس کو اللہ تعالیٰ چاہیں گے وہ نہ گھبرائے گا) فرمایا وہ شہید ہوں گے کیونکہ گھبراہٹ زندوں کو پہنچے گی، اور وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں رزق دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دن کی گھبراہٹ سے بچائیں گے اور ان کو اس سے امن دیں گے اور اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت ) ” یایھا الناس اتقوا ربکم ان زلزلۃ الساعۃ شیء عظیم “ (1) “ (اے لوگو ! اپنے رب سے دڑوکیون کہ قیامت کے زلزلہ بڑی (خوفناک) چیز ہوگی سے لے کر (آیت ) ” ولکن عذاب اللہ شدید “ (الحج آیت 2) (لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے) صور میں پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین والے مرجائیں گے (آیت) ” الا من شآء اللہ “ (مگر جس کو اللہ چاہے) اچانک وہ بےہوش ہو کر مرجائیں گے۔ پھر ملک الموت آئے گا جبار کی طرف اور کہے گا اے میرے رب ! آسمانوں اور زمین والے سب مرچکے ہیں مگر جن کو آپ نے زندہ رکھنا چاہا اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کون باقی ہے ؟ اور وہ خوب جانتے ہیں کہ کون باقی ہے۔ ملک الموت کہیں گے اے میرے رب تو باقی ہے جو ہمیشہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا جس کو موت نہیں آئے گی اور آپ کے عرش کے اٹھانے والے باقی ہیں اور جبرائیل (علیہ السلام) میکائیل (علیہ السلام) اور اسرافیل (علیہ السلام) اور میں باقی ہوں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے وہ عرش عرض کرے گا۔ اے میرے رب تو نے جبرائیل (علیہ السلام) میکائیل (علیہ السلام) اور اسرافیل (علیہ السلام) کو موت دیدی اور اللہ اس کو فرمائیں گے خاموش ہوجا بلاشبہ میں نے لکھ دیا ہے۔ موت کو ان پر جو میرے عرش کے نیچے ہیں تو وہ سب مرجائیں گے پھر ملک الموت آئے گا جبار کی طرف اور کہے گا اے میرے رب جبرائیل (علیہ السلام) میکائیل (علیہ السلام) اور اسرافیل (علیہ السلام) مرگئے ہیں تو ملک الموت عرض کرے گا : میں باقی ہوں اور آپ کی ذات زندہ ہے جو نہیں مرے گی اور آپ کے عرش کے اٹھانے والے باقی ہیں اور میں باقی ہوں اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ میرے عرش کے اٹھانے والے مرجائیں تو وہ مرجائیں گے اور اللہ تعالیٰ عرش کو حکم فرمائیں گے تو وہ صور کو پکڑے گا پھر ملک الموت آئے گا اور عرض کرے گا : اے میرے رب ! آپ کے عرش کے اٹھانے والے مرگئے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اور وہ خوب جانتے ہیں کون باقی ہے تو وہ عرض کرے گا اے میرے رب اور آپ باقی ہیں جو حی لایموت ہیں اور میں باقی ہوں تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے تو میری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے تو میں نے تجھ کو اس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے جس کو تو نے دیکھ لیا پس وہ بھی مرجائیں گے اور اکیلے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا۔ وہ ” واحدالقھار “ ہے اور (آیت ) ” لم یلد ولم یولد “ ہے وہ جس طرح اول سے ہے اسی طرح آخر ہے اس نے آسمان اور زمین کو یوں لپیٹ دیا ہے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹا جاتا ہے پھر اس کے بارے میں فرمایا اور ان کو لپیٹ دیا۔ پھر فرمایا میں جبار ہوں میں جبارہوں میں جبار ہوں تین مرتبہ فرمایا پھر یہ اعلان فرمایا آج کس کی بادشاہی ہے آج کس کی بادشاہی ہے آج کس کی بادشاہی ہے ؟ کوئی جواب نہیں دے گا پھر خود ہی فرمائیں گے اس اللہ کی بادشاہی ہے جو واحد وقہار ہے فرمایا (آیت ) ” یوم تبدل الارض غیر الارض والسموت “ (ابراہیم آیت 48) (جس دن زمین کو اس زمین اور آسمان کے علاوہ (دوسری زمین میں) بدل دیا جائے گا یعنی اس کو پھیلا اور ہموار کیا اور عکاظی چمڑے کی طرح پھیلا دیا پھر فرمایا (آیت ) ” لا تری فیھا عوجا ولا امتا “ (طہ آیت 107) (تو اس میں نہیں دیکھے گا کوئی ٹیڑھا پن اور نشیب و فراز کو پھر اللہ تعالیٰ مخلوق کو ڈانٹیں گے ایک ڈانٹا اچانک تو وہ اس پر بدلی ہوئی زمین میں ہوں گے جو اس کے اندر تھا اس کے اندر ہی ہوگا اور جو اس کے اوپر تھا وہ اس کے اوپر ہی ہوگا۔ ؛ پھر اللہ تعالیٰ تم پر عرش کے نیچے سے پانی کو نازل فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ آسمان کو حکم دیں گے بارش برسا دے۔ تو چالیس دنوں تک وہ بارش برسائے گا یہاں تک کہ تمہارے اوپر پانی بارہ ہاتھ ہوجائے گا پھر اللہ تعالیٰ جسموں کو حکم دیں گے کہ وہ اگ آئیں گے تو وہ سبزیوں کے اگنے کی طرح اگیں گے یہاں تک کہ جب ان کے جسم پورے ہوجائیں گے اور ایسے ہوجائیں گے جیسے پہلے تھے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے عرش کے اٹھانے والے زندہ ہوجاؤ تو وہ زندہ ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ اسرافیل کو حکم فرمائیں گے تو وہ صور کو اٹھالیں گے اور اپنے منہ پر رکھ لیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جبرائیل میکائیل زندہ ہوجاؤ تو وہ زندہ ہوجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ روحوں کو بلائیں گے تو مؤمنین کی ارواح کو اس حال میں لایا جائے گا کہ وہ نور سے چمک رہی ہوں گی اور دوسری (یعنی کافروں کی روحیں) تاریکی میں ہوں گی پھر اللہ تعالیٰ سب کو قبضہ میں کرلیں گے پھر ان کو صور میں ڈال دیں گے پھر اسرافیل سے حکم فرمائیں گے کہ وہ مردوں کو اٹھانے کے لئے صور پھونکیں تو روحیں نکلیں گی گویا کہ وہ شہد کی مکھیاں ہیں اور وہ آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھر دیں گے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! ہر روح اپنے جسم کی طرف ضرور لوٹے گی روحیں زمین میں اپنے جسموں میں داخل ہوں گی اور ناک کے پانسے میں داخل ہوں گی پھر وہ جسموں میں چلی جائیں گی جیسے زہر ڈسے ہوئے میں چلتا ہے پھر تم سے زمین پھٹ جائے گی اور میں پہلا ہوں گا جس سے زمین پھٹے گی پھر جلدی سے اپنے رب کی طرف نکلوگے “ (آیت ) ” مھطعین الی الداع یقول الکفرون ھذا یوم عسر “ (سرجھکائے تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے اور کافر کہیں گے یہ سخت دن ہے) ننگے پاؤں ننگے بدن بغیر ختنہ کے ہوں گے۔ اس درمیان کے ہم ٹھہرے ہوئے ہوں گے اچانک ہم نے آسمان سے سخت آواز سنی تو دنیا کے آسمان کے رہنے والے نازل ہوں گے جن کی تعداد جن وانس کی تعداد سے دوگنی ہوگی یہاں تک کہ جب وہ زمین کے قریب ہوں گے تو زمین ان کی روشنی سے چمک اٹھے گی پھر دوسرے آسمان والے نازل ہوں گے جو پہلے فرشتوں سے دو گناہوں گے اور انسان اور جنات سے بھی دو گنا ہوں گے یہاں تک کہ جب زمین سے قریب ہوں گے تو زمین ان کے نور سے چمک اٹھے گی اور وہ اپنی صفوں میں جگہ لے لیں گے پھر تیسرے آسمان والے نازل ہوں گے ان فرشتوں کی دوگنی تعداد میں (جو پہلے نازل ہوئے) اس جنات اور انسان کی دوگنی تعداد میں یہاں تک کہ جب وہ زمین سے قریب ہوں گے تو زمین ان کے نور سے چمک اٹھے گی وہ بھی اپنی صفیں بنالیں گے پھر ساتویں آسمان تک اسی طرح دوگنی تعداد میں (فرشتے) نازل ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نزول فرمائیں گے (آیت ) ” فی ظلل من الغمام “ (البقرہ آیت 210) (بادلوں کے سائے میں) اور آٹھ فرشتے اس دن عرش کو اٹھائے ہوں گے اور چار وہ ہوں گے کہ ان کے قدم نچلی زمین کی حد پر ہوں گے، زمینیں اور آسمان ان کی ڈھالوں پر اور عرش ان کے کندھوں پر ہوگا انکی تسبیح کی آواز آرہی ہوگی اور وہ کہہ رہے ہوں گے : سبحان ذی الغفور الجبروت سبحان ذی الملک والملکوت سبحان الحمد الذی لا یموت سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح سبحان ربنا الاعلی الذی یمیت الخلائق ولا یموت : ترجمہ : پاک ہے وہ ذات عزت اور دبدبے والی، پاک ہے وہ ذات زمین کی بادشاہی اور آسمان کی بادشاہی والا، پاک ہے وہ ذات جو زندہ ہے اور نہیں مرے گی، پاک ہے وہ ذات جو مخلوق کو موت دیتا۔ اور خود نہیں مرتا، بہت ہی پاک ذات بہت ہی مقدس، فرشتوں اور جبرائیل (علیہ السلام) کا رب ہے، پاک ہے وہ ذات جو ہمارا بڑا رب ہے جو مخلوق کو موت دیتا ہے خود نہیں مرتا۔ اس کا عرش رکھ دیا جائے گا زمین پر جہاں وہ چاہے گا پھر بلند آواز سے اعلان فرمائیں گے اور جنات اور انسان کی جماعت میں تمہارے لئے خاموش رہا اس دن سے جب سے میں نے تم کو پیدا فرمایا میں تمہاری بات سنتا اور تمہارے اعمال دیکھتا تو میری طرف خاموش ہوجاؤ یہ تمہارے اعمال ہیں اور تمہارے اعمال نامے ہیں جو تم پر پڑھے جائیں گے جو خیر کو پائے اس کو چاہیے کہ اللہ کی حمد بیان کرے اور جو اس کے علاوہ کو پائے تو اپنے آپ کو ملامت کرے پھر اللہ جہنم کو حکم دیں گے تو اس میں سے ایک لمبی گردن نکلے گی تاریک پھیلی ہوئی پھر فرمائیں (آیت) الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن، انہ لکم عدومبین (60) وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم “ (سورۂ یسین) (کیا میں نے تم سے عہد نہیں کیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کرو کہ یہ سیدھا راستہ ہے) سے لے کر (آیت ) ” وامتازوا الیوم ایھا المجرمون “ (اور آج کے دن علیحدہ ہوجاؤ اے مجرم لوگو) تو لوگوں کے درمیان جدائی میں ڈال دی جائے گی اور امتیں پاؤں کی انگلیوں کے بل کھڑی ہوں گی۔ پھر فرمایا (آیت ) ” وتری کل امۃ جاثیۃ کل امۃ تدعی الی کتبھا “ (الجاثیہ آیت 28) (ہر امت زانو پر گری ہوگی اس کو اپنے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا) وہ سر کے بال ایک ہی جگہ ٹھہرے رہیں گے ان کے درمیان نہیں ہوگا تو وہ رہیں گے یہاں تک کہ آنسوں ختم ہوجائیں گے اور خون کے آنسوؤں سے روئیں گے اور پسینہ بہائیں گے یہاں تک کہ ان کو آنسوؤں کی لگام دی جائے گی جو ان کی تھوڑیوں تک پہنچے گا۔ وہ چیخیں گے اور کہیں گے : کون ہمارے لئے اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کرے پس وہ ہمارے درمیان فیصلہ کردیں گے اور وہ کہیں گے کون زیادہ مستحق ہے تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) سے تو وہ ان کی طرف اس بات کا مطالبہ کریں گے تو وہ انکار کردیں گے اور کہیں گے میں اس کام کا اختیار نہیں رکھتا پھر وہ دوسرے انبیاء کے پاس جائیں گے جب بھی وہ نبی کے پاس آئیں گے وہ ان کی شفارش سے انکار کردے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہاں تک کہ وہ میرے پاس آئیں گے میں چل پڑوں گا یہاں تک کہ آؤں گا اور سجدہ میں گر پڑوں گا۔ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ بعض اوقات آپ نے یہ فرمایا عرش کے سامنے (میں سجدہ کروں گا) یہاں تک کہ میری طرف ایک فرشتہ بھیجا جائے گا وہ آکر میرا بازو پکڑے گا اور مجھ کو اٹھائے گا اور مجھ سے کہے گا اے محمد میں عرض کروں گا ہاں اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھے کیا کام ہے وہ جانتے ہوں گے میں عرض کروں گا اے میرے رب ! آپ نے مجھ سے شفاعت کا وعدہ کیا تھا سو میری شفاعت اپنی مخلوق کے بارے میں قبول کیجئے۔ اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیجئے۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں لوٹ آؤں گا اور لوگوں کے ساتھ ٹھہروں گا تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے۔ سب سے پہلے قتل کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اور ہر وہ شخص جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا تھا اپنے سر کو اٹھائے ہوئے گا (اس حال میں) کہ اس کی گردن کی رگیں خون بہاتی ہوں گی۔ اور وہ کہتے ہوں گے اے ہمارے رب ! ہم کو فلاں اور فلاں نے قتل کیا اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اور وہ خوب جانتے ہوں گے کیا تم قتل کئے گئے۔ وہ لوگ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم کو قتل کیا گیا تاکہ آپ کیلئے عزت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم نے سچ کہا اور ان کے چہروں میں سورج کی روشنی کی طرح روشنی کردیں گے پھر فرشتے ان کو جنت کی طرف لے جائیں گے اور وہ آئے گا جو اس کے علاوہ (کسی دوسری وجہ سے) قتل کیا گیا اپنے سر کو اٹھائے حاضر ہو ( اس حال میں) کہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہتا ہوگا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم کو فلاں اور فلاں نے قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیوں قتل کیا ؟ حالانکہ وہ جانتے ہوں گے ہو کہیں گے تاکہ عزت آپ کے لئے ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم ہلاک ہوگئے پھر کوئی انسان باقی نہیں بچے گا جس نے قتل کیا تھا مگر اس کی وجہ سے اس کو قتل کیا جائے گا اور نہ ہوگا کوئی ظلم کرنے والا کہ اس نے ظلم کیا تھا مگر وہ اس کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور یہ اللہ کی مرضی پر ہوگا۔ اگر چاہیں گے اس کو عذاب دیں گے اگر چاہیں گے تو اس پر رحم کریں گے پھر اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائیں گے جو اس کی مخلوق میں سے باقی ہوگا یہاں تک کہ کسی کا کسی پر ظلم نہ ہوگا مگر اللہ تعالیٰ مظلوم کے لئے ظالم سے بدلہ لیں گے یہاں تک کہ اس دن فروخت کرنے کے لئے دودھ میں پانی ملانے والے کو تکلیف پر ڈالا جائے گا کہ وہ دودھ سے پانی کو الگ کرلے جو اس نے دودھ میں پانی ملایا تھا پھر اس کو بیچ دیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ اس سے فارغ ہوں گے۔ تو ایک آواز دینے والا آواز دے گا جو ساری مخلوق اس کو سنے گی خبردار ! چاہئے کہ ہر قوم اپنے معبودوں کے ساتھ مل جائے جن کو وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے تو کوئی بھی نہیں رہے گا جس نے اللہ کو چھوڑ کر کسی کی عبادت کی ہوگی مگر اس کے سامنے اس کی معبودوں کی تصویریں آجائے گی اس دن فرشتوں میں سے ایک فرشتے کی صورت عزیر (علیہ السلام) کی بنادی جائے گی اور ایک فرشتے کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں بنا دیا جائے گا۔ تو اس فرشتے کے پیچھے یہودی چلیں گے۔ اور اس فرشتے کے پیچھے نصاری چلیں گے۔ پھر ان کے معبود ان کو آگ کی طرف لے جائیں گے یہی وہ بت ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” لوکان ھؤلآء الھۃ ما وردوھا، وکل فیھا خلدون “ (الانبیاء آیت 99) (اگر یہ تمہارے معبود حقیقت میں معبود ہوتے تو جہنم میں نہ اترتے اور سب جہنم میں ہمیشہ رہیں گے) جب مؤمنوں کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا۔ اور ان میں منافق بھی ہوں گے تو ان سے کہا جائے گا اے لوگو ! لوگ چلے گئے تو بھی اپنے معبودوں کے ساتھ مل جاؤ اور جس کی تم عبادت کرتے تھے تو وہ کہیں گے اللہ کی قسم ! سوائے اللہ کے ہمارا کوئی معبود نہیں اور ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے تو ان سے دوسری مرتبہ کہا جائے گا اور تیسری مرتبہ تو وہ اسی طرح کہیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں کیا تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان کوئی نشانی ہے جس سے تم پہچانتے ہو تو وہ کہیں گے ہاں ! تو اللہ تعالیٰ پنڈلی کو کھول دیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو جو چاہیں گے نشانی دکھائیں گے وہ پہچان لیں گے کہ وہ ان کے رب ہیں تو مؤمن اپنے چہروں کے بل اس کیلئے سجدہ میں گرجائیں گے اور ہر منافق اپنی گدی کے بل گرپڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی ریڑھ کی ہڈی کو گائے کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح بنادے گا پھر اللہ تعالیٰ ان کو اجازت دیں گے تو وہ اپنے سروں کو اٹھائیں گے اور جہنم کے اوپر ایک راستہ بنادیا جائے بال جیسا باریک اور تلوار جیسا تیز ہوگا اس پر کنڈی دار سلاخیں لوہے کی ہل اور سعدان بوٹی کی طرح کانٹے ہوں گے اس سے پہلے ایک پھسلاہٹ والی پل ہوگی اور لوگ اس پر آنکھ کے جھپکنے اور بجلی کے چمکنے اور ہوا کے گزرنے، گھوڑے کے دوڑنے اور عمدہ اونٹوں کے دوڑنے اور آدمی کے دوڑنے کی طرح گزریں گے مسلمان نجات پانے والے ہیں اور جس کے چہرے پر خراشیں اور زخم لگیں گے وہ بھی نجات پانے والا ہے۔ اہل جنت اپنے گھر اور بیویوں سے واقف ہوں گے : جب جنت والے جنت کی طرف پہنچ جائیں گے تو اس میں داخل ہوجائیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ تم دنیا میں اپنی بیویوں کو اور اپنے گھروں کو اتنا نہیں جانتے جتنا جنت والے اپنی بیویوں اور اپنے گھروں کو جانتے ہوں گے جب وہ جنت میں داخل ہوں گے ان میں سے ہر آدمی داخل ہوگا بہتر بیویوں پر ان عورتوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں پیدا کیا وہ بیویوں انسانوں میں سے ہوں گی جو آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوں گی۔ ان دونوں کو ان پر فضیلت ہوگی جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا وہ داخل ہوگا پہلی بیوی پر اسے بالا خانے میں جو یاقوت کا بنا ہوا ہوگا سونے کی چارپائی ہوگی جس کے سر پر موتیوں کا تاج ہوگا اس پر ستر جوڑے ہوں باریک اور موٹے ریشم سے پھر وہ رکھے گا اپنے ہاتھ ان کے کندھوں کے درمیان تو وہ اس کے سینے سے ہاتھ تک کہ حصہ کو دیکھے گا اور اس کے کپڑوں کے اوپر سے اس کا گوشت اور اس کی جلد دیکھ لے گا اور وہ دیکھے گا پنڈلیوں کے گودے پر رگ جیسے تم میں سے کوئی ایک یاقوت میں سے اس کے دھاگے کو دیکھتا ہے اس کی جگہ اس کے لئے آئینہ ہوگا۔ اسی اثنا میں کہ وہ نہ اس بیوی کو اکتائے گا اور نہ وہ بیوی اس سے اکتائے گی اور وہ جب بھی اس کے پاس آئے گا اس کو کنوارا ہی پائے گا نہ وہ جدا ہوں گے اور نہ دکھ دیں گے اس درمیان کہ وہ اسی حال پر ہوں گے، اچانک آواز دی جائے گی تو اس سے کہا جائے بلاشبہ ہم نے جان لیا کہ نہ تو اکتاتا ہے اور نہ تجھے اکتایا جاتا ہے تیرے لئے اس کے علاوہ بیویاں ہیں وہ وہاں سے نکلے گا اور ان میں سے ایک کے پاس آئے گا جب بھی وہ ان میں سے کسی کے پاس آئے گا تو وہ بیوی اس سے کہے گی اللہ کی قسم میں نے نہیں دیکھا جنت میں کسی چیز کو تجھ سے زیادہ حسین اور جنت میں تجھ سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب بھی نہیں۔ راوی نے کہا جب دوزخ میں واقع ہوجائیں گے تو اس میں اللہ کی ایک مخلوق ڈالی جائے گی جو ان کے اعمال کو ہلاک کردے گی ان میں سے بعض وہ ہوں گے جن کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑلے گی اور بعض ان میں سے وہ ہوں گے جن کو آگ ان کے سارے جسم کو پکڑے گی سوائے اس کے چہرے کے اللہ تعالیٰ نے ان کی صورتوں کو آگ پر حرام کردیا ہے ان کو آگ میں آواز دی جائے گی وہ کہیں گے کون ہماری سفارش کرے گا ہمارے رب کی طرف یہاں تک کہ وہ ہم کو آگ سے نکال دے گا پھر وہ (آپ میں کہیں گے) اس بات کا کون زیادہ حقدار ہوسکتا ہے تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) سے تو آیمان والے لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور آپ کے اندر اپنی روح کو پھونکا اور آپ سے کلام بھی فرمایا تو آدم (علیہ السلام) اپنے گناہوں کو یاد کریں گے اور کہیں گے اس لائق نہیں لیکن نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کیونکہ وہ پہلے اللہ کے رسول ہیں وہ لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان کو یہ بات کہیں گے وہ اپنے گناہ کو یاد کرتے ہوئے کہیں گے میں اس لائق نہیں لیکن تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خلیل بنایا ہے وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے ان سے اس کام کا مطالبہ کریں گے تو وہ اپنی خطا کو یاد کرتے ہوئے کہیں گے میں اس قابل نہیں لیکن تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے قریب کیا ان کی سرگوشی فرمائی اور ان سے سرکلام فرمایا اور ان پر تورات کو اتارا وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور ان سے اس کام کا مطالبہ کریں گے وہ اپنی ایک خطا کو یاد کرتے ہوئے کہیں گے میں اس قابل نہیں، لیکن تم روح اللہ اور اس کے کلمہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ وہ لوگ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے اس کام کا مطالبہ کریں گے تو وہ لوگ کہیں گے میں اس کام کے لائق نہیں لیکن تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میرے لئے اپنے رب کے پاس کئی سفارشوں کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے میں جاؤں گا یہاں تک کہ جنت کے دروازہ پر آؤں گا میں دروازہ کے حلقہ کو پکڑوں گا اور اس کے کھولنے کا مطالبہ کروں گا تو میرے لئے (دروازہ) کھول دیا جائے، میں سجدہ میں گرپڑوں گا میرے لئے ایسی حمد وثنا کی اجازت دی جائے جو مخلوق میں سے کسی کو اجازت نہیں دی گئی پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے محمد ! اپنے سرمبارک کو اٹھائیے تو سفارش کر تیری سفارش قبول کی جائے گی اور تو سوال کر تجھ کو عطا کیا جائے گا جب میں اپنا سراٹھاؤں گا تو مجھ سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں آپ کا کیا کام ہے ؟ تو میں عرض کروں گا اے میرے رب آپ نے مجھے شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے تو میری سفارش قبول کیجئے۔ میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت میں سے کون جہنم میں پڑا ہوا ہے۔ (ان کے بارے میں کیا فرمایا) تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ان کو نکال لو جس کو صورت میں پہچانتے ہو تو ان لوگوں کو نکال لیا جائے گا یہاں تک کہ ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیں گے۔ کوئی نبی اور کوئی شہید باقی نہیں بچے گا مگر وہ شفارش کرے گا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کو نکال لو جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی خیر کو پاؤ وہ سب نکل جائیں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔ اور دوزخ میں کوئی بھی ایسا نہیں رہے گا جس نے کبھی خیر کا کام کیا اور جسے بھی شفاعت کا حق ہوگا وہ شفاعت کرے گا۔ یہاں تک کہ ابلیس بھی جہنم میں امید لگائے گا۔ جب دیکھے گا اللہ کی رحمت کو کہ ممکن ہے اس کی سفارش کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں باقی ہوں اور میں (آیت ) ” ارحم الراحمین “ ہوں پھر اللہ تعالیٰ ایک مٹھی بھر کر اس میں سے نکالیں گے ان کے علاوہ کوئی اس کو شمار نہیں کرسکتا پھر اللہ تعالیٰ ان کو ایک نہر پر اگائے گا جس کو حیوان کہا جاتا ہے۔ وہ اس میں اگیں جیسے دانہ اگتا ہے جہاں سیلاب کا گزر ہو جو سورج کی طرف ہوتا ہے۔ وہ سرسبز ہوتا اور جو سایہ کی طرف ہوتا ہے۔ وہ زرد ہوتا ہے اور وہ اگیں گے قوتوں کی طرح ان کے گردنوں میں لکھا ہوا ہوگا ” الجھنمیون عتقاء الرحمن “ (جہنمی رحمن کے آزاد کردہ ہیں) جنہوں نے اللہ کے لئے کبھی خیر کا عمل نہیں کیا تھا مگر وہ توحید کا اقرار کرتے تھے وہ اس طرح ٹھہریں گے جنت میں جب تک اللہ چاہیں گے اور یہ لکھا ہوا ہوگا ان کی گردنوں میں پھر وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم سے مٹادیجئے اس لکھے ہوئے کو تو ان سے مٹا دیا جائے گا۔
Top