Tafseer-e-Haqqani - Az-Zumar : 68
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونک ماری جائے گی صور میں فَصَعِقَ : تو بیہوش ہوجائے گا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوائے مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ ۭ : چاہے اللہ ثُمَّ : پھر نُفِخَ فِيْهِ : پھونک ماری جائے گی اس میں اُخْرٰى : دوبارہ فَاِذَا : تو فورا هُمْ : وہ قِيَامٌ : کھڑے يَّنْظُرُوْنَ : دیکھنے لگیں گے
اور صور پھونکا جاوے گا، پھر آسمانوں اور زمین کے رہنے والے بےہوش ہوجائیں گے، مگر جس کو اللہ چاہے گا پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا، پھر تو سب کھڑے ہوئے دیکھتے راہ تکیں گے
تفسیر : آسمانوں کے لپیٹنے یعنی فنا کرنے کا ذکر آگیا تھا، اس طرح پر کہ اللہ کی قدرت کی اور اللہ ایسا جلیل و جبار ہے کہ آسمانوں و زمین دنیا کو فنا کردے گا۔ قیامت کے روز اس مناسبت سے اور حشر کی مجملہ کیفیت بیان فرماتا ہے۔ فقال و نفح فی الصور کہ صور پھونکا جائے گا۔ صور تر ہی یا بگل کی قطع کی ایک چیز ہوگی کہ جس کو زور سے اسرافیل بجاویں گے، اس میں پھونک مار کر بعض کہتے ہیں، ان کے ساتھ جبرئیل بھی ہوں گے، جیسا کہ حدیث ابن ماجہ اور ابو دائود سے پایا جاتا ہے۔ صور کئی بار پھونکے گا یہ اول بار پھونکنے کا ذکر ہے فصعق من فی السمٰوٰت والارض الامن شاء اللہ اس کے پھونکنے سے آواز کی کڑک اور تیزی ہوگی جس سے آسمانوں کے فرشتے اور زمین کے جاندار بےہوش ہوجاویں گے، مگر وہ نہ ہوں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ حسن کہتے ہیں جبرئیل و میکائیل اور رضوان اور حوران جنت اور حاملان عرش بےہوش نہ ہوں گے، بعض کہتے ہیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بھی بےہوش نہ ہوں گے۔ جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث سے پایا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے سب سے اول میں قیامت کو اٹھوں گا، پھر دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کا پایہ پکڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ مجھے علم نہ ہوگا کہ وہ مجھ سے پہلے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بعض کہتے ہیں شہداء بھی بےہوش نہ ہوں گے، جیسا کہ بیہقی اور سعید بن منصور و ابو یعلی و دار قطنی و حاکم نے روایت کیا ہے۔ بعض نے اس پر اشکال وارد کیا ہے کہ یہ استثناء نفخہ صعق کے بعد ہوگا اور یہ پہلا نفخہ ہے کہ جس میں سب مرجاویں گے، اس کے جواب میں بعض مفسرین نے بڑی قیل وقال کی ہے مگر مطلب صاف ہے کس لیے کہ صعقہ اول میں خدا تعالیٰ بعضوں کا بےہوشی سے محفوظ رہنا بیان فرماتا ہے۔ پس ملائکہ اور روحانیات پر خصوصاً ارواح طیبات پر جو دوسرے عالم میں ہوں گی فنائِ دنیا کے صور سے کوئی بےہوشی نہ ہوگی۔ ان میں حضرت موسیٰ اور ابراہیم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی شریک ہیں۔ یہ بےہوشی اہل دنیا پر طاری ہوگی اور آسمانوں کے ملائکہ پر بھی کس لیے کہ آسمان بھی تو فنا ہوں گے، مگر وہاں کے بعض ملائکہ جو تجرد اور نورانیت میں عالم قدس میں ملحق ہیں، محفوظ رہیں گے۔ ثم نفخ فیہ اخرٰی فاذاھم قیام ینظرون پھر دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو تمام لوگ قبروں سے نکل کر کھڑے اور انتظار کرتے ہوں گے کہ فیصلہ کب ہوگا ؟ یہ دوسرا نفخہ ہے۔ قرآن شریف سے دو ہی بار صور پھونکنا ثابت ہے اور ان دونوں میں چالیس روز یا مہینوں یا برسوں کا فاصلہ ہوگا، جیسا کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث سے پایا جاتا ہے۔ جو ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ تین بار صور پھونکا جائے گا۔ اول گھبراہٹ اور بےہوشی کا کماقال و نفخ فی الصور ففزع دوسرا موت کا تیسرا بار دیگر زندہ ہونے کا۔ و اشرقت الارض بنور ربہا اور زمین نور رب سے منور ہوجائے گی۔ اور نئی زمین اور نیا آسمان ہوگا۔ کما قال تعالیٰ یوم تبدل الارض غیر الارض الخ تخت رب العالمین رکھا جائے گا، چونکہ وہ نور ہے اس کا وہاں جلوہ اور تجلی ہوگی نہ یہ کہ خدا انسانوں کی طرح مجسم ہو کر تخت پر بیٹھے گا۔ ووضع الکتاب اور نامہ اعمال رکھے جائیں گے اور انبیاء اور گواہ لائے جاویں گے اور کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اللہ کو لوگوں کے اعمال خوب معلوم ہیں، یعنی کامل انصاف ہوگا۔
Top