Dure-Mansoor - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
کیا وہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے، سو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی اور ہم نے ان کو بڑا ملک عطا کیا
(1) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ام یحسدون الناس “ سے مراد یہودی ہیں۔ (2) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل کتاب نے کہا محمد ﷺ کا گمان ہے کہ ان کو ان کی تواضع کا حکم دیا گیا حالانکہ ان کو تو عورتیں ہیں اور ان کا مقصد ہی نکاح کرنا ہے کون ان سے بڑا بادشاہ ہوگا تو اس پر اللہ تعالیٰ یہ آیت اتاری لفظ آیت ” ام یحسدون الناس “ سے لے کر ” ملکا عظیما “ تک اور اس سے مراد سلیمان (علیہ السلام) کا ملک ہے۔ (3) ابن المنذر نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا تم گمان کرتے ہو کہ محمد ﷺ تواضع کا حکم دیا گیا حالانکہ ان کے پاس نو عورتیں ہیں کون بڑا بادشاہ ہے ان سے تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” ام یحسدون الناس “۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (4) ابن المنذر والطبرانی نے عطا کے طریق سے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ام یحسدون الناس “ کے بارے میں روایت کیا کہ آیت میں ” الناس “ سے مراد ہم لوگ ہیں دوسرے لوگوں کے علاوہ۔ (5) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے ” ام یحسدون الناس “ کے بارے میں روایت کیا اس جگہ میں لوگوں سے مردا خاص کر نبی ﷺ ہیں۔ (6) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” ام یحسدون الناس “ کے بارے میں روایت کیا کہ محمد ﷺ مراد ہیں۔ (7) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کو کچھ اوپر ستر جوانوں کے برابر طاقت دی گئی اور اس پر یہود نے حسد کیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ام یحسدون الناس علی ما اتہم اللہ من فضلہ “۔ (8) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ وہ لوگ محمد ﷺ پر حسد کرتے ہیں جب وہ ان میں سے نہ ہوئے (اس لئے) ان لوگوں نے ان کا انکار کردیا۔ (9) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ام یحسدون الناس “ سے یہی یہودی مراد ہیں انہوں نے عرب کے اس قبیلہ پر حسد کیا ” علی ما اتہم من فضلہ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر سے نبی بھیج دیا اس لئے وہ لوگ اس پر حسد کرنے لگے۔ (10) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” علی ما اتہم من فضلہ “ سے نبوت مراد ہے۔ (11) ابوداؤد اور بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ ایمان اور حسد ایک شخص میں جمع نہیں ہو سکتے (12) بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی بندے کے پیٹ میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے۔ (13) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فقد اتینا ال ابراہیم “ سے سلیمان اور داؤد (علیہ السلام) مراد ہیں اور ” الکتب والحکمۃ “ سے نبوت مراد ہے (اور) ” واتینہم ملکا عظیما “ سے مراد ہے عورتوں میں بادشاہت ہے اور داؤد (علیہ السلام) کے لئے یہ حلال ہوا کہ وہ ننانوے عورتوں سے شادی کریں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے یہ حلال تھا کہ وہ سو عورتوں سے شادی کریں۔ لیکن محمد ﷺ کے لئے یہ حلال نہ ہوا کہ وہ ایسے نکاح کریں جیسے انہوں نے نکاح کیا۔ (14) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی پشت میں سو مردوں کی قوت تھی اور ان کی تین سو بیویاں اور تین سو باندیاں تھیں۔ (15) الحاکم نے مستدرک میں محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کی تین سو عورتیں اور سات سو باندیاں تھیں۔ (16) عبدبن حمید وابن جریر وابن المنذر نے ہمام بن حارث (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتینہم ملکا عظیما “ کہ ان انبیاء کی مدد کی گئی فرشتوں اور لشکروں سے۔ (17) عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتینہم ملکا عظیما “ سے نبوت مراد ہے۔ (18) عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حسن بصری (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے کہ مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” فمنہم من امن بہ “ سے مراد ہے کہ یہودیوں میں سے کچھ لوگ قرآن مجید پر ایمان لائے۔ (19) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمنہم من امن بہ “ سے مراد ہے کہ یہودیوں میں سے کچھ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور لفظ آیت ” ومنہم من صد عنہ “ یعنی کچھ نے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ دیا اور ان کی پیروی نہ کی۔ (20) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم خلیل الرحمن نے کھیتی بوئی اور لوگوں نے بھی کھیتی بوئی اس سال میں لوگوں کی کھیتی ہلاک ہوئی ابراہیم (علیہ السلام) کی کھیتی خوب پھلی پھولی لوگ اس وقت آپ کی طرف محتاج ہوگئے لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان سے سوال کرتے تو وہ ان کو فرماتے جو ایمان لائے گا اس کو دوں گا اور جو انکار کرے گا اس کو نہیں دوں گا سو جو ان میں سے ایمان لاتا اس کو غلہ عطا فرماتے اور ان میں سے جو انکار کرتا تو اس کھیتی میں سے کچھ نہ لے سکا اسی لئے اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” فمنہم من امن بہ ومنہم من صد عنہ وکفی بجہنم سعیرا “۔ (21) عبد بن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فقد اتینا ال ابراہیم الکتب والحکمۃ “ سے مراد ہے کہ محمد ﷺ آل ابراہیم میں سے تھے۔ (22) الزبیر بکار نے موفقیات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت معاویہ نے فرمایا اے بنو ہاشم تم اس بات کا ارادہ کرتے ہو کہ تم خلافت کے مستحق بن جاؤ جیسا کہ تم نبوت کے مستحق ہو اور یہ دونوں چیزیں کسی ایک کے لئے جمع نہیں ہوتیں اور تم گمان کرتے ہو کہ تمہارے لئے بادشاہی ہوگی ابن عباس ؓ نے ان سے فرمایا تمہارا یہ کہنا کہ ہم خلافت کے مستحق ہیں نبوت کی وجہ سے اگر ہم نبوت کی وجہ سے اس کے مستحق نہ بنیں تو کس وجہ سے مستحق بنیں۔ اور تمہارا یہ کہنا کہ نبوت اور خلافت کسی ایک کے لئے جمع نہیں ہوسکتی تو اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہاں گیا۔ لفظ آیت ” فقد اتینا ال ابراہیم الکتب والحکمۃ واتینہم ملکا عظیما “ اس میں کتاب سے مراد نبوت ہے حکمت سے مراد سنت ہے اور ملک سے مراد خلافت ہے ہم سب ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ہی حکم فرمایا ہے اور سنت ہمارے لئے اور ان کے لئے جاری ہے۔ اور تمہارا یہ کہنا کہ ہم نے گمان کیا ہے کہ ہمارے لئے بادشاہی ہوگی تو کتاب اللہ میں گمان شک کرنا ہے اور ہر ایک گواہی دیتا ہے کہ ہمارے لئے حکومت ہے تم ایک دن کو بھی مالک نہیں بنتے مگر ہم دو دن مالک بن جاتے ہیں اور تم ایک مہینہ کو بھی مالک نہیں بنتے اور ہم دو ماہ مالک بن جاتے ہیں اور تم ایک سال مالک نہیں بنتے اور ہم دو سال مالک بن جاتے ہیں (واللہ اعلم) ۔
Top