Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 20
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ
فَوَسْوَسَ : پس وسوسہ ڈالا لَهُمَا : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِيُبْدِيَ : تاکہ ظاہر کردے لَهُمَا : ان کے لیے مَا وٗرِيَ : جو پوشیدہ تھیں عَنْهُمَا : ان سے مِنْ : سے سَوْاٰتِهِمَا : ان کی ستر کی چیزیں وَقَالَ : اور وہ بولا مَا : نہیں نَهٰىكُمَا : تمہیں منع کیا رَبُّكُمَا : تمہارا رب عَنْ : سے هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةِ : درخت اِلَّآ : مگر اَنْ : اس لیے کہ تَكُوْنَا : تم ہوجاؤ مَلَكَيْنِ : فرشتے اَوْ تَكُوْنَا : یا ہوجاؤ مِنَ : سے الْخٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے
پھر بیہکایا ان کو شیطان نے تاکہ ان دونوں کے جسم کا وہ حصہ ظاہر کر دے جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا یعنی وہ حصہ جو ڈھانک کر رکھنے کا تھا۔ اور کہنے لگا کہ اس درخت سے تمہارے رب نے تمہیں اسی لیے روکا ہے کہ تم دونوں اسے کھا کر فرشتے بن جاؤ گے یا ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہوجاؤ گے
(1) امام ابن ابی جریر نے محمد بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو جنت میں ایک درخت کے کھانے سے منع فرمایا شیطان آیا اور سانپ کے پیٹ میں داخل ہوگیا۔ پھر اس نے حوا سے بات کی اور آدم کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا تمہارے رب نے تم کو اس درخت سے منع نہیں کیا مگر یہ کہ تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے یا ہمیشہ رہنے والے ہوجاؤ گے۔ اور اس نے قسمیں کھائیں کہ میں دونوں کو نصیحت کرنے والوں میں سے ہوں (یعنی تمہارا خیرخواہ ہو) حوا نے درخت کو کاٹ ڈالا تو درخت سے خون نکل آیا۔ اور ان دونوں سے ان کا فاخرانہ لباس اتر گیا جو ان پر تھا (اور فرمایا) لفظ آیت ” وطفقا یخصفن علیہما من ورق الجنۃ، ونادھما ربھما الم انھکما عن تلکما الشجرۃ واقل لکما ان الشیطن لکما عدو مبین “ تم نے کیوں کھایا کیا میں نے تجھ کو اس سے نہیں روکا تھا۔ آدم نے عرض کیا اے میرے رب مجھ کو حوا نے کھلایا حوا سے فرمایا تم نے آدم کو کیوں کھلایا اس نے کہا مجھ کو سانپ نے حکم دیا تھا سانپ سے فرمایا تو نے اس کو حکم کیوں دیا ؟ اس نے کہا مجھے ابلیس نے حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ لعنت کیا ہوا اور دھتکارا ہوا ہے۔ اے حوا جیسے تو نے اس درخت سے خون نکالا تجھے بھی ہر چاند میں اس طرح خون آئے گا۔ اے سانپ اپنے پاؤں کاٹ دے۔ تو اپنے چہرے کے بل گھیسٹ کر چلے گا اور عنقریب تیرے سر کو پتھر کے ساتھ کچلے گا جو شخص بھی تجھے ملے گا تم سب نیچے اتر جاؤ۔ تمہارا بعض بعض کے لئے دشمن ہوگا۔ گانے بجانا گمراہی کا ذریعہ ہے (2) امام ابن منذر نے ابو غنیم سعید بن حدین الحضرمی (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو جنت میں ٹھہرایا تو آدم جنت میں گھومنے کے لئے نکلے۔ ابلیس نے ان کے غائب ہونے کو غنیمت جانا اور اس مکان میں پہنچ گیا جس میں حوا تھی اس نے ایک بانس کے ساتھ سیٹی بجائی جس کو حوا نے سن لیا حالانکہ حوا اور ابلیس کے درمیان ستر خیمے تھے اور بعض بعض کے اندر تھے حوا اس پر جھانکیں ابلیس مسلسل سیٹی بجاتا رہا کہ سننے والوں نے اس طرح کی لذت شہوت اور سماع کبھی نہیں سنا تھا۔ یہاں تک کہ حوا کا عضو دوسرے کے ساتھ باقی نہیں رہا مگر اس میں خلجان اور اضطراب پیدا ہوگیا۔ کہنے لگیں۔ میں اللہ کی تجھ کو قسم دیتی ہوں جو عظیم ذات ہے۔ اگر تو نے مجھ سے دور نہ کیا تو مجھے ہلاک کر دے گا۔ اس نے بانس (یعنی بانسری کو) اپنے منہ سے نکال لیا۔ پھر اس کو الت دیا پھر دوسری آواز میں سیٹی بجنے لگی تو اس سے رونا نوحہ کرنا اور غم برپا ہوگیا۔ سننے والوں نے ایسی آواز نہ سنی تھی یہاں تک کہ اس کا دل کٹنے لگا غم سے اور رونے سے کہنے لگیں میں اس اللہ کی تجھ کو قسم دیتی ہوں جو عظیم ذات ہے تو مجھ سے باز آجا تو وہ رک گیا حوا نے اس سے کہا یہ کیا چیز ہے جو تو لایا ہے۔ (پہلے) تو میں خوش ہوگئی اور (پھر) میں غمگین ہوگئی۔ اس نے کہا میں نے جنت میں تمہارے گھر اور تمہاری عزت جو خاص طور پر تم کو ملی اس کا ذکر کیا۔ اور میں تمہارے اس مقام و مرتبہ سے خوش ہوا۔ اور میں نے یہ بھی ذکر کیا کہ تم دونوں کو اس سے نکال دیا جائے۔ تو میں تمہارے لئے رو دیا۔ اور تمہارے اوپر غم کرنے لگا۔ تمہارے رب نے اس درخت کے کھانے سے تم کو اس لئے منع کیا کہ تم مرجاؤ گے یا تم نکالے جاؤ گے۔ اے حوا میری طرف دیکھ میں اس کو کھاتا ہوں اگر میں مرجاؤں یا میری خلقت میں کوئی تبدیلی آجائے تو پھر تم اس سے نہ کھانا۔ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ میں تمہارے لئے خیر خواہی کرنے والوں میں سے ہوں۔ ابلیس چلا یہاں تک کہ اس نے اس درخت میں سے لے کر کھالیا اور وہ کہہ رہا تھا اے حوا مجھے دیکھ کیا میری خلقت میں کوئی تبدیلی ہوئی یا کیا میں مرگیا میں نے تجھ کو بتادیا جو کچھ میں نے تجھ کو بتایا تھا۔ آدم (علیہ السلام) جنت کا چکر لگانے کے بعد اپنی جگہ پر واپس آئے تو حوا کو غمزدہ حالت میں اوندھے منہ لیٹے ہوئے دیکھا۔ آدم نے اس اس سے کہا تیرا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا میرے پاس ایک نصیحت کرنے والا مہربان آیا تھا آدم نے فرمایا افسوس ہے تجھ پر شاید کہ وہ ابلیس تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو ڈرایا ہے حوا نے کہا اے آدم اللہ کی قسم وہ اس درخت کی طرف گیا تھا اور اس میں سے کھایا تھا اور میں نے دیکھا کہ نہ وہ مرا اور نہ اس کے جسم میں کوئی تبدیلی ہوئی۔ حوا برابر آپ کو اس کے دھوکے اور مکر میں ڈالتی رہی۔ یہاں تک کہ آدم و حوا دونوں اس درخت کی طرف چلے۔ آدم نے اپنے ہاتھ کو پھل کی طرف بڑھایا کہ اس کو لے لیں تو جنت کے سب درختوں نے آواز دیاے آدم اس کو نہ کھاؤ اگر تو نے اس میں سے کھالیا تو یہاں سے نکالا جائے گا آدم نے معصیت کا پختہ ارادہ کیا ہوا تھا۔ تو درخت کو لینے کے لئے اس کو پکڑا تو درخت نے لمبا ہونا شروع کیا۔ اور انہوں نے اس کو پکڑنے کے لئے اپنے ہاتھ کو بڑھایا جب اپنا ہاتھ پھل پر رکھا تو وہ سخت ہوگیا جب اللہ تعالیٰ نے معصیت پر ان کے پختہ ارادہ کو دیکھا تب انہوں نے اس پھل کو لیا اور اس میں سے کھالیا۔ اور حوا کو بھی دیا تو انہوں نے بھی کھالیا۔ (کھانے میں) ان کے دن سے جنت کا حسین و جمیل لباس اتر گیا۔ اور ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوگئیں تو وہ جنت کے پتوں سے (اپنے بدن کو) ڈھانپنے لگے۔ اور جنت کے پتے چپکانے لگے۔ اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو دکھائی دے رہا تھا۔ رب تعالیٰ نے جنت میں ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے آدم تو یہاں سے باہر نکل جا آدم نے عرض کیا اے میرے رب مجھے تیر طرف نکلتے ہوئے حیا آتی ہے۔ فرمایا شاید کہ تو نے اس درخت میں سے کھالیا کہ جس سے میں نے تجھ کو منع کیا تھا۔ عرض کیا اے میرے رب جس کو تو نے میرے ساتھ کردیا ہے یعنی حوا کو اس نے مجھ کو بہکا دیا فرمایا اے آدم تو کب تک چھپائے گا۔ کہا تو نہیں جانتا اے آدم کہ ہر چیز میری ہے۔ اور مجھ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے نہ اندھیرے میں اور نہ روشنی میں ؟ پھر (اللہ تعالیٰ نے) ان کی طرف فرشتے کو بھیجا انہوں نے ان کی گردنوں میں کچھ ڈالا یہاں تک کہ ان کو جنت سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے انہیں ننگا کھڑا کیا گیا اور ابلیس بھی ان کے ساتھ تھا پس اس وقت ابلیس کو ان دونوں کے ساتھ نیچے اتار دیا گیا۔ پھر آدم نے اپنے رب سے (چند) کلمات سیکھ لئے۔ (جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے) ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اور ان سب کو نیچے اتار دیا گیا۔ (3) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں، ابن جریر، ابن ابی حاتم ابو الشیخ اور ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” لیبدی لہما ما وری عنھما من سواتھما “ کے بارے میں فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک پر نور غالب تھا جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی شرم گاہ کو نہ دیکھتا تھا۔ جب دونوں سے لغزش ہوگئی تو ان دونوں سے فورا اتر گیا۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ وہ ان کے لباس کو پھاڑ ڈالے۔ وہ جانتا تھا کہ ان دونوں کی شرم گاہیں ہیں کیونکہ وہ فرشتوں کی کتابوں میں پڑھا کرتا تھا آدم اس بات کو نہیں جانتے تھے اور ان دونوں کا لباس ظفر یعنی ناخن کی طرح تھا۔ (5) امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابلیس ان کے پاس آیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس وجہ سے کہ تم فرشتے یا اس ذات یعنی اللہ عزوجل کی طرح نہ ہوجاؤ۔ لیکن انہوں نے اس کی بات کو سچ نہیں مانا یہاں تک کہ ابلیس سانپ کے پیٹ میں داخل ہوگیا اور ان دونوں سے بات کی۔ (6) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” الا ان تکونا ملکین “ لام کے کسرہ کے ساتھ۔ (7) امام ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس کو یوں پڑھتے تھے۔ لفظ آیت ” الا ان تکونا ملکین “ لام کے نصب کے ساتھ یعنی فرشتوں میں سے۔ (8) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” الا ان تکونا ملکین “ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں فرشتوں کی فضیلت کا ذکر کیا گیا کہ ان کو فضیلت دی گئی شکل صورت کی وجہ سے اور فضیلت دی پروں کی وجہ سے اور فضیلت دی عزت و کرامت کی وجہ سے۔ (9) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جنت میں ایک درخت ہے اس کی دو ٹہنیاں ہیں ان میں سے ایک ٹہنی کے ساتھ فرشتے طواف کرتے ہیں اور دوسری کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ” ما نھکما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین “ تاکہ تم ان فرشتوں میں سے نہ ہوجاؤ جو اس ٹہنی کے ساتھ طواف کرتے ہیں۔ (10) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کو یوں پڑھتے تھے۔ لفظ آیت ” ما نھکما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین “ یعنی اس نے تم دونوں کو خطا میں ڈالا تاکہ تم فرشتے نہ بن جاؤ اس لئے نہیں ڈالا کہ تم ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ۔ اور تم اس میں کبھی نہیں مرو گے (اور فرمایا) ” وقاسمھما “ یعنی (ابلیس نے) ان دونوں سے قسم کھائی کہ لفظ آیت ” ان لکما لمن النصحین “ (کہ میں تمہارے لئے خیر خواہوں میں سے ہوں) (11) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اوتکونا من الخلدین “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تم کبھی نہیں مرو گے۔ (اور) ” وقاسمھما “ یعنی ان کے لئے اللہ کی قسم کھائی۔ شیطان کی اتباع کی دعوت (12) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقاسمھما انی لکما لمن النصحین “ کے بارے میں فرمایا کہ ان دونوں کے لئے اللہ کی قسم کھائی یہاں تک کہ ان دونوں کو دھوکہ دیا اور مومن اللہ (کے نام) کے ساتھ دھوکہ کھاتا رہا۔ اور ان دونوں سے پہلے پیدا کیا گیا اور میں تم سے زیادہ جانتا ہوں میری اتباع کرو کہ میں تمہاری رہنمائی کروں قتادہ (رح) نے فرمایا بعض اہل علم کہا کرتے تھے کہ جس شخص نے ہمیں اللہ کے نام کے ساتھ دھوکہ دیا تو ہم اس کے دھوکہ میں آگئے۔ (3) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ بعض قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” وقاسمھما انی لکما لمن النصحین “ (4) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فدلہما بغرور “ کے بارے میں فرمایا کہ شیطان نے دونوں کو دھوکے کے ساتھ کمزور کردیا (یعنی دھوکہ میں ڈال دیا) (15) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذرنے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلما ذاقا الشجرۃ بدت لہما سواتھما “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے پہلے انہوں نے شرم گاہوں کو نہ دیکھا تھا۔ (16) امام ابن شیبہ اور ابن منذر نے عکرمہ سے روایت کیا کہ ہر جانور کا لباس اس کا اپنا ہے اور انسان کا لباس ظفر ہے۔ پس آدم کو ان کے ناخن کے پاس توبہ نے پالیا۔ (17) امام فریابی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن مردویہ، بیہقی نے سنن میں اور ابن عساکر نے تاریخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم اور حوا کا لباس ناخن کی طرح تھا۔ جب دونوں نے درخت میں سے کھایا تو ان پر (لباس) باقی نہیں رہا مگر ناخن کی مانند (اور فرمایا) لفظ آیت ” وطفقا یخصفن علیہما من ورق الجنۃ “ انہوں نے انجیر کے پتے اتارے اور ان کو اپنی شرم گاہوں پر لگانے لگے۔ (18) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب آدم کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں ٹھہرایا تو ان کو ناخن میں سے کرتا پہنایا جب ان سے لغزش ہوگئی تو کرتا چھین لیا گیا اور صرف انگلیوں کے کناروں پر باقی رہا۔ (19) امام عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتمن اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم کا لباس ناخن کا تھا اور یہ پرندے کے پیروں کی طرح تھا۔ جب ان سے لغزش ہوئی تو ان کا لباس ان سے اتر گیا اور زینت اور کئی دوسرے منافع کے لئے ناخنوں کو باقی چھوڑ دیا گیا۔ (20) امام ابن ابی حاتم نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ آدم کا لباس جنت میں یاقوت کا تھا۔ جب ان سے لغزش ہوئی تو وہ سمٹ گیا اور ناخن بن گیا۔ (21) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آدم کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس جلد کا لباس پہنایا اور اس کی مدد کی ناخن کے ساتھ وہ اس کے ساتھ کھجلا سکتے ہیں۔ (22) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وطفقا یخصفن “ کہ وہ پیوند لگاتے تھے کپڑے کی طرح۔ (23) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وطفقا یخصفن علیہما “ کہ انہوں نے (اپنی شرم گاہوں کو جنت کے پتوں سے) ڈھانکنا شروع کیا۔ (24) عبد بن حمید، اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وطفقا یخصفن علیہما من ورق الجنۃ “ یعنی وہ ان پر جنت کے پتے چپکانے لگے۔ (25) ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وطفقا یخصفن علیہما من ورق الجنۃ “ کہ وہ ایسی چیزیں پکڑنے لگے کہ جس کے ذریعے ان کی شرمگاہیں چھپ جائیں۔ (26) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ونادھما ربھما الم ابھکما عن تلکما الشجرۃ “ یعنی آدم نے عرض کیا اے میرے رب کہ اس نے میرے سامنے تیری قسم کھائی ہے اور میں بھی خیال کرتا تھا کہ تیری مخلوق میں سے کوئی سچ کے سوا بھی قسم کھا سکتا ہے۔ (27) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ” قالا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے آدم و حوا مراد ہیں لفظ آیت ” ربنا ظلمنا انفسنا “ ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا یعنی ہم نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کو بخش دیا۔ (28) عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ربنا ظلمنا انفسنا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ کلمات ہیں جو آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سیکھ لئے۔ (29) احمد نے اور ابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے کہ مومن اپنے رب سے گناہ کی وجہ سے شرم کرتا ہے۔ جب وہ اس میں واقع ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اللہ کی حمد کے ساتھ جانتا ہے کہ (اس گناہ سے) نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ اور بلاشبہ نکلنے کا راستہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار اور توبہ میں ہے۔ پھر کوئی آدمی توبہ سے ہرگز شرم محسوس نہیں کرتا کیونکہ اگر تو بہ بہ ہو تو کوئی بھی اللہ کے بندوں میں سے (گناہ سے) پاک نہ ہو۔ اسی توبہ کے ذریعے تمہارے جد اعلیٰ (یعنی آدم) کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرمائی جب ان سے لغزش ہوئی۔ (30) امام ابو الشیخ نے کریب (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو ابن عباس ؓ نے بلایا اور فرمایا تو لکھ بسم اللہ الرحمن الرحیم عبد اللہ کی طرف سے تمہارے فلاں عالم کی طرف کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے یعنی لفظ آیت ” ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین “ کے بارے میں بیان کیا کہ اس کا ٹھکانہ زمین کے اوپر ہے اور کا ٹھکانہ رحم میں ہے اور اس کا ٹھکانہ زمین کے نیچے ہے اور اس کا ٹھکانہ وہاں ہے جہاں وہ پہنچے گا جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف۔
Top