Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 20
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ
فَوَسْوَسَ : پس وسوسہ ڈالا لَهُمَا : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِيُبْدِيَ : تاکہ ظاہر کردے لَهُمَا : ان کے لیے مَا وٗرِيَ : جو پوشیدہ تھیں عَنْهُمَا : ان سے مِنْ : سے سَوْاٰتِهِمَا : ان کی ستر کی چیزیں وَقَالَ : اور وہ بولا مَا : نہیں نَهٰىكُمَا : تمہیں منع کیا رَبُّكُمَا : تمہارا رب عَنْ : سے هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةِ : درخت اِلَّآ : مگر اَنْ : اس لیے کہ تَكُوْنَا : تم ہوجاؤ مَلَكَيْنِ : فرشتے اَوْ تَكُوْنَا : یا ہوجاؤ مِنَ : سے الْخٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے
تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ انکے ستر کی چیزیں جو ان کے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو۔
آیت نمبر : 20 قولہ تعالیٰ : آیت : فوسوس لھما الشیطن یعنی ان دونوں کی طرف شیطان نے وسوسہ اندازی کی۔ یہ بھی کہا گیا ہے : جنت کے اندر سے کہ اس نے سانپ کی صورت میں اپنے آپ کو جنت میں داخل کرلیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنت کے باہر سے، اس اختیار کے ساتھ جو اسے دیا گیا۔ اس کی وضاحت سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ اور وسوسہ کا معنی ہے : الصوت الخفی (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 137) ( مخفی اور پوشیدہ آواز) اور وسوسۃ کا معنی ہے : حدیث النفس ( اندر کی بات ( دل میں اٹھنے والا خیال) ۔ کہا جاتا ہے : وسوست الیہ نفسہ وسوسۃ ووسواسا ( اس کے نفس نے اس میں یہ بات ڈال دی) اور وسواس ( واؤ کے فتحہ کے ساتھ) اسم ہے، مثلا زلزال اور شکار کرنے والے اور کتے کی آہٹ اور آہستہ آواز اور زیورات کی آواز کو وسواس کہا جاتا ہے۔ اعشی نے کہا ہے : تسمع للحلی وسواسا اذا انصرفت کما استعان بریح عشرق زجل اور وسواس شیطان کا نام ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : من شر الوسواس الخناس ( الناس) لیبدی لھما تاکہ ان دونوں کے لیے ظاہر کر دے۔ اس میں لام لام عاقبۃ ہے، جیسے اس ارشاد میں ہے : لیکون لھم عدوا وحزنا (تا کہ ( انجام کار) وہ ان کا دشمن اور باعث رنج والم بنے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لام کی۔ اور وری کا معنی ہے اس سے جو چھپایا گیا ہے اور ڈھانپا گیا ہے۔ اور غیر قرآن میں اسے اوری پڑھنا بھی جائز ہے، جیسے اقتت۔ اور من سواتھما کا معنی ہے ان کی شرمگاہوں سے ( ای من عوراتھما) اور فرج ( شرمگاہ) کو عورت کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ اسے ظاہر کرنا اس کے صاحب کو برا لگتا ہے۔ اور یہ شرمگاہ کو ننگا کرنے کے قبیح اور برا ہونے پر دلیل ہے، سو یہ کہا گیا کہ ان کی شرمگاہیں ان دونوں کے لیے ظاہر ہیں ان کے سوا کسی کے لیے نہیں۔ ان دونوں پر پتے اور کلیاں ہیں جن کے سبب ان کی شرمگاہوں کو دیکھا نہیں جاسکتا تھا پھر وہ کلیاں زائل ہوگئیں۔ اور یہ بھی کہا گہا ہے کہ ان پر کپڑا تھا اور پھر وہ ساقط ہوگیا ( گرگیا ) واللہ اعلم آیت : الا ان تکونا ملکین اس میں ان محل نصب میں ہے، بمعنی الا ہے، ان کو مکروہ قرار دیتے ہوئے پھر مضاف کو حذف کردیا گیا۔ یہ بصریوں کا قول ہے۔ اور کوفی کہتے ہیں : لئلا تکونا ( تاکہ تم دونوں نہ ہوجاؤ ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ای الا الا تکونا ملکین تعلمان الخیر والشر ( مگر یہ کہ تم دونوں نہ ہوجاؤ فرشتے جو خیر وشر کو جانتے ہیں) ۔ اور کہا گیا ہے : حضرت آدم (علیہ السلام) نے ہمیشہ رہنے کا طمع کیا، کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ ملائکہ یوم قیامت تک نہیں مریں گے۔ نحاس (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر ساری مخلوق پر فرشتوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور ان میں سے ایک یہ ہے : آیت : الا ان تکونا ملکین اور ایک یہ ہے آیت : ولا اقول لکم انی ملک ( الانعام : 50) ( اور نہ یہ کہتا ہوں تم سے کہ میں فرشتہ ہوں) اور یہ بھی ہے : آیت : ولا الملئکۃ المقربون ( النساء : 172) ( اور نہ ہی مقرب فرستے ( اس کو عار سمجھیں گے) ۔ اور حسن نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو شکل و صورت، پروں اور عزت و تکریم کے اعتبار سے فضیلت دی ہے (تفسیر حسن بصری، جلد 3، صفحہ 88) ۔ اور کسی اور نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے طاعت اور ترک معصیت کی وجہ سے انہیں فضیلت دی، پس اس وجہ سے ہر شی میں فضیلت واقع ہوتی ہے۔ اور ابن فورک (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 385) نے کہا ہے : اس آیت میں یہ دلیل موجود نہیں ہے، کیونکہ یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس معنی میں دو فرشتے مراد ہوں کہ ان دونوں کے لیے کھانے کی طلب نہیں ہوگی۔ حضرت ابن عباس ؓ، زجاج اور بہت سے علماء کی پسند یہ ہے کہ مومنین کی ملائکہ پر فضیلت حاصل ہے اور یہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : انہیں تمام مخلوق پر فضیلت دی گئی ہے، سوائے فرشتوں کے ایک گروہ کے اور وہ ہیں حضرت جبریل (علیہ السلام) ، حضرت میکائیل (علیہ السلام) ، حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اور حضرت ملک الموت (علیہ السلام) ، کیونکہ یہ من جملہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے ہیں۔ اور ہر فریق نے شریعت کے ظاہر سے استدلال کیا ہے اور فضیلت اللہ تعالیٰ کے قبضہ واختیار میں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے لام کے کسرہ کے ساتھ ملکین قراءت کی ہے اور یہی قراءت یحییٰ بن ابی کثیر اور ضحاک کی ہے۔ اور ابو عمرو بن علاء نے لام کے کسرہ کا انکار کیا ہے۔ اور کہا ہے : حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے کوئی ملک نہ تھا کہ دو ملک ہوجائیں۔ حضرت نحاس (رح) نے کہا ہے : اس قراءت کی بنا پر لام کو ساکن پڑھنا بھی جائز ہے، لیکن پہلی قراءت میں فتحہ کے خفیف ہونے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ (تفسیر طبری، جلد 8، صفحہ 167) نے فرمایا کہ یہ دونوں ملک کی جہت سے ملعون ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لا یبلی (طہ) ( کیا میں آگاہ کروں تمہیں ہمیشگی کے درخت پر اور ایسی بادشاہی پر جو کبھی زائل نہ ہو) ۔ اور ابو عبید نے گمان کیا ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر کا استدلال اس قول کے ساتھ ہے۔ آیت : وملک لا یبلی اور یہ حجۃ بینہ ہے، لیکن لوگوں نے اسے ترک کردیا ہے اسی لیے ہم نے بھی اسے ترک کردیا ہے۔ نحاس نے کہا : آیت : الا ان تکونا ملکین شاذ قراءت ہے۔ ابو عبید کے اس کلام کا انکار کیا گیا ہے اور اسے فحش غلطی قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ جائز ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو یہ وہم ہوا ہو کہ وہ جنت کی بادشاہی سے زیادہ تک پہنچ سکتے ہیں، حالانکہ جنت ہی طالبین کی انتہا اور غایت ہے۔ بلاشبہ آیت : وملک لا یبلی کا معنی جنت کی بادشاہی میں قائم رہنا، اور اس میں ہمیشہ رہنا ہے۔
Top