Aasan Quran - Al-A'raaf : 20
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ
فَوَسْوَسَ : پس وسوسہ ڈالا لَهُمَا : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِيُبْدِيَ : تاکہ ظاہر کردے لَهُمَا : ان کے لیے مَا وٗرِيَ : جو پوشیدہ تھیں عَنْهُمَا : ان سے مِنْ : سے سَوْاٰتِهِمَا : ان کی ستر کی چیزیں وَقَالَ : اور وہ بولا مَا : نہیں نَهٰىكُمَا : تمہیں منع کیا رَبُّكُمَا : تمہارا رب عَنْ : سے هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةِ : درخت اِلَّآ : مگر اَنْ : اس لیے کہ تَكُوْنَا : تم ہوجاؤ مَلَكَيْنِ : فرشتے اَوْ تَكُوْنَا : یا ہوجاؤ مِنَ : سے الْخٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے
پھر ہوا یہ کہ شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کی شرم کی جگہیں جو ان سے چھپائی گئی تھیں، ایک دوسرے کے سامنے کھول دے (6) کہنے لگا کہ : تمہارے پروردگار نے تمہیں اس درخت سے کسی اور وجہ سے نہیں، بلکہ صرف اس وجہ سے روکا تھا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشہ کی زندگی نہ حاصل ہوجائے۔ (7)
6: بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس درخت کی خاصیت یہ تھی کہ اس کا پھل کھانے سے جنت کا لباس اتر جاتا تھا اور یہ بات ابلیس کو معلوم تھی، چنانچہ جب حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) نے اسے کھایا تو جنت کا جو لباس انہیں عطا ہوا تھا وہ ان کے جسم سے اتر گیا۔ 7: مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس درخت کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس میں سے کھا لیتا ہے وہ یا تو فرشتہ بن جاتا ہے، یا اسے ہمیشہ کی زندگی عطا ہوجاتی ہے، اس لیے اسے کھانے کے لیے مخصوص قوت کی ضرورت ہے۔ شروع میں آپ دونوں کو یہ قوت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے منع کیا گیا تھا۔ اب آپ کو جنت میں رہتے ہوئے ایک زمانہ گذر گیا ہے اور آپ میں وہ قوت پیدا ہوگئی ہے اس لیے اب کھا لینے میں کچھ حرج نہیں۔
Top