Dure-Mansoor - At-Tawba : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بیشک زمین پر چلنے پھرنے والوں میں اللہ کے نزدیک بدترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے کفراختیار کیا سو وہ ایمان نہ لائیں گے
1۔ ابوالشیخ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (یہ آیت) ان شرالدوآب عند اللہ الذین کفروا فہم لا یومنون (55) یہودیوں کے چھ گروہوں کے بارے میں نازل ہوئی ان میں ایک تابوت بھی تھا۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذروابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) الذین عھدت منہم ثم ینقضون عہدھم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد یہودیوں کا قبیلہ قریظہ ہے جس نے جنگ خندق کے دوران محمد ﷺ کے خلاف آپ کے دشمنوں کی مدد کی۔ 3:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فشردبہم من خلفہم ‘ تم ان کو عبرت ناک سزا دو کو جو ان کے بعد ہیں۔ 4:۔ ابن جریر نے ابن عباس سے روایت ہے کہ (آیت ) ” فشردبہم من خلفہم “ ‘ یعنی ان کی ایسی سزا دو کہ ان کے پیچھے آنے والوں کو عبرت ہو۔ 5:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فشردبہم من خلفہم “ سے مراد ہے کہ جو ان کے پیچھے ہیں ان کو عبرت ناک سزا دو ۔ 6:۔ عبدالرزاق ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فشردبہم من خلفہم “ سے مراد ہے کہ ان کو خوف ڈراؤ۔ 7:۔ عبد بن حمید وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فشردبہم من خلفہم “ یعنی آپ ان کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسے ان سے کررہے ہیں۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” لعلہم یذکرون (57ٌٌ) “ کے بارے میں فرمایا شاید کہ وہ عہد توڑنے سے ڈر جائیں (اس لئے) ان کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرو۔ 9:۔ ابو الشیخ نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے ہیں اور ہم کوا بھی قوم کی تلاش میں ہیں آپ نکلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قریظہ کے بارے میں اجازت دی ہے اس کے بارے میں نازل فرمایا (آیت) ” واما تخافن من قوم خیانۃ “ 10:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واما تخافن من قوم خیانۃ “ سے مراد (یہودیوں کا قبیلہ) قریظہ ہے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید سے روایت کیا کہ (آیت) ” واما تخافن من قوم خیانۃ “ یعنی رسول اللہ ﷺ نے جن سے معاہدہ کیا اگر آپ کو یہ اندیشہ ہو کہ آپ سے خیانت کریں گے۔ دھوکہ دیں گے تو آپ ان کے پاس آئیں اور ان کا معاہدہ واضح طور پر توڑ دیں۔ 12:۔ ابن ابی حاتم نے علی بن حسین ؓ سے روایت کیا کہ آپ اپنے دشمن سے لڑائی نہ کریں یہاں تک کہ آپ ان کا معاہدہ واضح طور پر انکی طرف معاہدہ پھینک دیں۔ اور فرمایا (آیت) ” ان اللہ لا یحب الخائنین (58) “۔ 13:۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں سلیم بن عامر (رح) سے روایت کیا کہ حضرت معاویہ (رح) اور روم کے درمیان ایک معاہدہ تھا آپ چلتے رہے یہاں تک کہ آپ ان کی زمین کے قریب ہوگئے جب جونہی (معاہدہ کی) مدت ختم ہوئی تو (حضرت معاویہ نے) ان پر حملہ کردیا عمرو بن وعبسہ ان کے پاس آئے اور کہا اللہ اکبر وفا ہونی چاہئے توڑنا نہیں چاہئے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اگر کسی قوم کے درمیان معاہدہ ہو تو اسے چاہئے وہ عقبہ باندھے اور نہ اس کو کھولے یہاں تک کہ اس کی مدت گزر جائے۔ یا اس کی طرف واضح طور پر پھینک دے تو (یعنی معاہدہ توڑ دے) راوی کا بیان ہے کہ معاویہ ؓ لشکر کے ساتھ واپس آگئے۔ 14:۔ بیہقی نے شعب الایمان میں میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ تین چیزیں مسلمان اور کافر کے درمیان برابر ہیں جس سے کوئی عہد کرے اس کے درمیان رشتہ داری ہو تو اس کے ساتھ صلہ رحمی ہو چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو۔ کیونکہ عہد اللہ کی رضا کے لئے ہے وہ آدمی جو تیرے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کر چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو۔
Top