Dure-Mansoor - At-Tawba : 74
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا١ؕ وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا١ۚ وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ١ۚ وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًا١ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی مَا قَالُوْا : نہیں انہوں نے کہا وَلَقَدْ قَالُوْا : حالانکہ ضرور انہوں نے کہا كَلِمَةَ الْكُفْرِ : کفر کا کلمہ وَكَفَرُوْا : اور انہوں نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِسْلَامِهِمْ : ان کا (اپنا) اسلام وَهَمُّوْا : اور قصد کیا انہوں نے بِمَا : اس کا جو لَمْ يَنَالُوْا : انہیں نہ ملی وَ : اور مَا نَقَمُوْٓا : انہوں نے بدلہ نہ دیا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں غنی کردیا اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَاِنْ : سو اگر يَّتُوْبُوْا : وہ توبہ کرلیں يَكُ : ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ : ان کے لیے وَاِنْ : اور اگر يَّتَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں يُعَذِّبْهُمُ : عذاب دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مِنْ : کوئی وَّلِيٍّ : حمایتی وَّلَا : اور نہ نَصِيْرٍ : کوئی مددگار
وہ لوگ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم نے نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کا کلمہ کہا ہے اور مسلمان ہونے کے بعد کافر ہوگئے اور انہوں نے اس چیز کا ارادہ کیا جو انہیں نہ ملی اور صرف انہوں نے اس بات کا بدلہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں مالدار کردیا، سو اگر وہ توبہ کرلیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر روگردانی کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب دے گا اور ان کے لئے روئے زمین میں نہ کوئی یار ہوگا اور نہ کوئی مددگار
1:۔ ابن اسحاق وابن ابی حاتم نے کعب بن مالک (رح) سے روایت کیا کہ جب قرآن نازل ہوا اور اس میں منافقین کا ذکر کیا گیا تو جلدی میں (منافق) نے کہا اللہ کی قسم اگر یہ آدمی سچے ہیں تو ہم گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں عمیر بن سعد نے اس کو سن کیا اور کہا اللہ کی قسم اے جلاس کہ تو لوگوں میں زیادہ محبوب ہے میرے نزدیک اور میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ حسین اور پسندیدہ ہے اور اسے بڑھ کر عزیز ہے کہ تجھے کوئی ایسی چیز لاحق ہو جو ناپسندیدہ اور تکلیف دہ ہو تو نے ایسی بات کہی اگر میں اس کو کہوں تو یقینا تجھے رسوا کردے گی۔ اور اگر میں اس سے خاموش رہو ( یہ بات) مجھے ہلاک کردے گی۔ اور ان میں سے ایک مجھ پر زیادہ سخت ہے دوسری سے۔ عمیر بن سعد رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور ان کو ساری بات بتائی جو اس نے کہا تھا جلاس آیا اور اللہ کی قسم کھانے لگا کہ میں نے ایسا نہیں کیا اور عمیر نے مجھ پر جھوٹ بولا۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر “ 2:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جلاس بن سوید بن صامت ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے غزوہ تبوک کے موقع میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے اور اس نے کہا اگر یہ آدمی سچا ہے تو ہم گدھے سے زیادہ برے ہیں عمیر بن سعد نے اس کی اس بات کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا جلاس نے اللہ کی قسم کھائی مجھ پر جھوٹ بولا گیا اور میں نے یہ بات نہیں کہی۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا “ ان لوگوں نے گمان کیا کہ اس نے توبہ کرلی اور اس کی توبہ بہت اچھی ہے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ زید بن ارقم ؓ نے منافقین میں سے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا اور نبی کریم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اگر یہ سچے ہیں تو ہم گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچائی گئی تو کہنے والے نے انکار کردیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا “ اور یہ آیت زید کی تصدیق میں تھی۔ منافقین کی جھوٹی قسمیں ـ: 4:۔ ابن جریر والطبرانی وابو الشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ایک درخت کے سایہ میں تشریف فرما تھے آپ نے فرمایا عنقریب تمہارے پاس ایک انسان آئے گا جو تمہاری طرف شیطان کی آنکھوں سے دیکھے گا جب وہ آئے تو تم اس سے بات نہ کرنا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ اچانک ایک آدمی نیلی آنکھوں والا نمودار ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلایا اور فرمایا تو اور تیرے ساتھی مجھے کیوں گالیاں دیتے ہیں وہ آدمی گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے آیا انہوں نے اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہم نے نہیں کہا یہاں تک کہ آپ نے ان سے درگزر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا “ 5:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ دو آدمی آپس میں لڑے ان میں سے ایک جہینہ قبیلہ سے تھا اور دوسرا غفار قبیلہ سے۔ اور جہینہ والے انصار کے حلیف تھے اور غفار جہنی پر غالب آگیا تو عبد اللہ بن ابی نے اوس والوں سے کہا اپنے بھائی کی مدد کرو اللہ کی قسم نہیں ہے ہماری مثال اور محمد ﷺ کی مثال مگر جیسا کہ کہنے والے نے کہا تو اپنے کتے کو موٹا کر تاکہ وہ تجھے کھائے اللہ کی قسم اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ گئے تو ہم عزت والے لوگ ہیں ان سے ذلت والوں کو نکال دیں گے (یہ سن کر) مسلمانوں میں سے ڈرتے ہوئے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا آپ نے اس کو بلابھیجا اور اس سے پوچھا تو اس نے قسمیں کھانی شروع کیں کہ میں نے نہیں کہا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ یعنی (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر “ 6:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر “ (یہ آیت) عبداللہ بن ابن سلول کے بارے میں نازل ہوئی۔ 7:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے عروہ ؓ سے روایت کیا کہ انصار میں ایک آدمی جس کو جلاس بن سوید کہا جاتا تھا اس نے غزوہ تبوک کی ایک رات میں کہا اللہ کی قسم محمد ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں اگر وہ حق ہے تو ہم گدھوں سے زیادہ برے ہیں۔ ایک لڑکے نے اس بات کو سن لیا جس کو عمیر بن سعد کہا جاتا تھا اور یہ اس کے زیر پرورش تھا اس لڑکے نے اس سے کہا اے چچا اللہ کی طرف توبہ کرلے اور وہ لڑکا نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو ساری بات بتائی نبی کریم ﷺ نے اس کو بلا بھیجا تو وہ قسمیں کھانے لگا اور کہہ رہا تھا اللہ کی قسم یا رسول اللہ میں نے ایسا نہیں کہا اس لڑکے نے کہا کیوں نہیں (اس نے کہا ہے) اللہ کی قسم تو نے یقینا ایسا ہی کہا ہے پس تو اللہ کی طرف توبہ کرے اگر قرآن نازل نہ ہوا تو جو تو نے کہا ہے آپ اس میں مجھے بھی تیرے ساتھ ملا دیں گے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس وحی آئی تو وہ لوگ خاموش ہوگئے اور کوئی حرکت نہ کی جب وحی نازل ہوچکی اور یہ کیفیت اٹھ گئی تو آپ نے فرمایا (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر “ سے لے کر ” فان یتوبوا یک خیرا لہم “ (انآیتوں کو سن کر اس نے) کہا میں نے ایسا کہا تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر توبہ کو پیش فرمایا ہے تو میں توبہ کرتا ہوں۔ یہ (توبہ) اس سے قبول کرلی گئی پھر حالت اسلام میں ہی اسے قتل کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت ادا کی اور اس کی قیمت اس کے ورثاء کو دیدی۔ اور خود اس سے مستغنی ہوگئے حالانکہ اس نے ارادہ کیا ہوا تھا کہ وہ مشرکین سے مل جائے نبی کریم ﷺ نے لڑکے سے فرمایا تیرے کانوں نے صحیح سنا۔ 8:۔ عبدالرزاق (رح) نے ابن سرین (رح) سے روایت کیا کہ جب قرآن نازل ہوا تو نبی کریم ﷺ نے عمیر کے کان پکڑ کر فرمایا اے لڑکے تیرے کانوں نے صحیح سنا اور تیرے رب نے تیری تصدیق کردی۔ 9:۔ ابن منذر وابو الشیخ (رح) نے ابن سرین (رح) سے روایت کیا کہ منافقین میں سے ایک آدمی نے کہا اگر محمد ﷺ سچے ہیں ان باتوں میں جو کہتے ہیں تو یقینا ہم گدھو سے برے ہیں زید بن ارقم نے اس سے کہا بلاشبہ محمد ﷺ سچے ہیں اور تو گدھے سے بھی برا ہے۔ انکے درمیان یہ بات ہو رہی تھی وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس بات میں بتایا پھر دوسرا آدمی آپ کے پاس آیا اس نے اللہ کی قسم کھائی کہ میں نے کہا تو (یہ آیت) نازل ہوئی (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر “ رسول اللہ ﷺ نے زید بن ارقم سے فرمایا تیرے کانوں نے صحیح سنا۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ان میں سے ایک نے کہا جو کچھ محمد ﷺ نے فرمایا اگر وہ سچا ہے تو ہم گدھوں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ ایمان والوں میں سے ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم کہ محمد ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سچ ہے اور تو گدھے سے بھی برا ہے اس پر منافق نے اسے قتل کا ارادہ کیا پس یہی ان کے ارادے تھے ایسی چیز کے بارے میں جس کو نہ پاسکے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہا اللہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا “ کے بارے میں فرمایا وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کو عقبہ کی رات (راستے سے) دور ہٹانے کا ارادہ کیا اور یہ لوگ اس بات پر اکٹھے ہوگئے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کردیں گے اور یہ لوگ آپ کو بعض سفروں میں آپ کے ساتھ تھے اور آپ کی سواری کو راستے میں چلاتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ گھاٹی عقبہ میں پہنچ گئے ان کے بعض آگے تھے اور ان کے بعض آگے تھے اور ان کے بعض پیچھے تھے اور یہ واقعہ رات کا تھا انہوں نے کہا جب آپ وادی عقبہ میں پہنچیں گے تو ہم آپ کو وادی میں اپنی سواری سے دور لے جائیں گے۔ حذیفہ ؓ نے اس بات کو سن لیا اور وہ نبی کریم ﷺ کی سواری کو چلا رہے تھے اور اس رات عمار ؓ ان کے آگے چل رہے تھے اور اس کو حذیفہ بن نعمان ؓ چلا رہے تھے حذیفہ ؓ نے اونٹوں کے چلنے کی آواز سنی آپ ادھر متوجہ ہوئے تو ایک جماعت دیکھی تو اچانک ایک قوم منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے تھے آپ نے فرمایا اللہ کے دشمنوں رک جاؤ (اس درمیان) نبی کریم ﷺ گزر گئے اور اس منزل پر اتر گئے جہاں آپ کا ارادہ تھا جب صبح ہوئی تو آپ نے سب کو بلوا بھیجا اور فرمایا تم نے اس طرح اور اس طرح ارادہ کیا تھا انہوں نے اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہم نے نہیں کہا اور نہ اس بات کا ارادہ کیا جس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اشارہ ہے (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر “ 12:۔ ابن ابی حاتم والطبرانی وابوالشیخ وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وھموا بمالم ینالوا “ یعنی ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا جس کو اسود کہا جاتا تھا۔ تبوک سے واپسی پر منافقین کی بری حرکت : 13:۔ امام بیہقی (رح) نے دلائل میں عروہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ قافلہ کی صورت میں تبوک سے مدینہ منورہ لوٹے یہاں تک کہ جب آپ بعض راستے پر تھے تو آپ کے اصحاب میں سے کچھ (منافقین) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکر یعنی سازش کی۔ انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ آپ کو راستہ میں گرا کر گھاٹی کے نیچے پھینک دیں گے جب وہ عقبہ میں پہنچے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ چلیں۔ جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس پہنچے تو ان کے مخبر نے خبر دی آپ نے فرمایا تم میں سے جو چاہے بطن وادی (کے راستہ) کو لے لے۔ کیونکہ وہ تمہارے لئے زیادہ کشادہ ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے عقبہ (والا راستہ کو) لیا اور لوگوں نے بطن وادی کو لیا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف مکروفریب کا ارادہ کیا تھا جب انہوں نے آپ کا حکم سنا تو وہ تیار ہوگئے اور انہوں نے اپنے ناک منہ لپیٹ لئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ آپ کے ساتھ کچھ پیدل چلیں اور عمار ؓ کو اونٹنی کی لگام پکڑنے کا حکم فرمایا اور حذیفہ ؓ کو اپنے پیچھے سے ہانکنے کا حکم فرمایا۔ اس درمیان کہ وہ چل رہے تھے اچانک انہوں نے اپنے پیچھے کچھ لوگوں کے دوڑنے کی آواز سنی وہ آپ کے قریب آ چکے تھے رسول اللہ ﷺ غصہ ہوگئے اور حذیفہ ؓ کو حکم فرمایا کہ ان کو لوٹا دو اور حذیفہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے غصہ کو دیکھا وہ اس حال میں لوٹے کہ ان کے ساتھ کنڈی تھی وہ انکی سواریوں کے سامنے آئے اور ان کو کنڈی کے ساتھ ضرب لگائی وہ آپ نے قوم کو دیکھا کہ وہ ناک منہ لپیٹے ہوئے تھے اور وہ پہچانے نہیں جاسکتے۔ آپ نے صرف مسافر سے فعل کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رعب ڈال دیا جب انہوں نے حذیفہ ؓ کو دیکھا اور انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ ان کی تدبیر ان پر ظاہر ہوگئی ہے۔ انہوں نے (بھاگنے میں) جلدی کی یہاں تک کہ لوگوں کے ساتھ مل گئے اور حذیفہ ؓ (اس طرف) متوجہ ہوئے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے جا ملے جونہی وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا اے حذیفہ ؓ سواروں کو مارو اور اے عمار تم تیزی سے چلو پس وہ تیز چلے گئے یہاں تک کہ اوپر کے راستے سے ہموار جگہ پر پہنچ گئے اور گھاٹی سے نکل کر لوگوں کا انتظار کرنے لگے اس وقت نبی کریم ﷺ نے حذیفہ ؓ سے فرمایا اے حذیفہ ! کیا تو جانتا ہے اس جماعت میں سے کسی ایک کو ؟ حذیفہ ؓ عرض کیا کہ میں فلاں اور فلاں کی سواری کو جانتا ہوں اور کہا رات کی اندھیری ان کو ڈھانک چکی تھی اور وہ منہ پر کپڑا لپیٹے ہوئے تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ ان کا کام کیا تھا اور ان کا ارادہ کیا تھا ؟ عرض کیا نہیں (جانتے) اللہ کی قسم ! یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا انہوں نے تدبیر کی تھی کہ وہ میرے ساتھ چلیں گے یہاں تک کہ جب میں گھاٹی میں آوں گا تو وہ مجھے وہاں سے نیچے گرا دیں گے۔ صحابہ کرام ؓ اجمعین نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ہم کو حکم نہیں فرماتے کہ ہم ان کی گردنیں مار دیں آپ نے فرمایا میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں نے آپس میں گفتگو کریں اور کہیں کہ محمد ﷺ نے اپنے ہاتھ کو اپنے اصحاب میں رکھ دیا (یعنی ان کو قتل کردیا) پھر آپ نے ان دونوں کو ان کے نام بتائیے اور فرمایا ان کو چھپاؤ (ظاہر نہ کرو) 14:۔ امام بیہقی (رح) نے ابن اسحاق (رح) نے اسی طرح روایت کرتے ہیں اور حذیفہ ؓ کے قول کے بعد زیادہ کہا ” عرفت من القوم احدا “ تو انہوں نے کہا نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے نام اور ان کے باپوں کے نام بتا دیئے اور میں عنقریب تم کو ان کے بارے میں بتاوں گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا صبح کے وقت جب صبح ہوئی تو آپ نے ان کے نام لئے عبداللہ بن ابی سعد، سعد بن ابی سرح، ابو حاصر اعرابی، عامر اور ابو عامر اور جلاس بن سوید بن صامت، مجمع بن حارثہ، ملیح التمیمی، حسن بن تمیز، طعمۃ بن ابرق سے جنگ کی اور آپ کے قتل کا ارادہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو ان کے منصوبہ پر مطلع فرما دیا۔ اسی لئے اللہ عزوجل نے فرمایا۔ (آیت) ” وھمو ا بما لم ینالو ا “ اور ابو عامر ان کا سردار تھا انہوں نے مسجد ضرار بنائی۔ اور وہ حنظہ الملائکہ کا باپ تھا۔ 15:۔ ابن سعد (رح) نے نافع بن جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے منافقین کے نام نہیں بتائے سوائے حضرت حذیفہ ؓ کے جنہوں نے غزوہ تبوک سے واپسی پر لیلۃ العقبہ میں آپ کو پریشان کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ بارہ آدمی تھے ان میں کوئی قریش کا نہیں تھا اور یہ سب انصار میں سے تھے اور ان کے حلیفوں میں سے۔ 16:۔ امام بیہقی (رح) نے دلائل میں حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کی لگام پکڑے ہوئے سنا اور اس کو آگے سے کھینچ رہا تھا۔ اور عمار پیچھے سے ہانک رہا تھا۔ یا میں اس کو پیچھے سے ہانک رہا تھا اور عمار اس کو آگے سے کھینچ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب ہم عقبہ میں پہنچے اچانک میری نظر بارہ سواروں پر پڑی اور وہ اس میں ہمارے سامنے آگئے راوی نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا تو آپ نے زور دار لہجے میں آواز دی تو وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ہم کو فرمایا کیا تم نے اس کو پہچانا ہے۔ ہم نے کہا نہیں یا رسول اللہ ﷺ یہ لوگ منہ پر کپڑالپیٹے ہوئے تھے لیکن ہم نے سواریوں کو پہچان لیا آپ نے فرمایا وہی قیامت کے دن تک منافقین لوگ ہیں کیا تم جانتے ہو کہ انہوں نے کیا ارادہ کیا ہم نے کہا نہیں آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر وہ عقبہ میں حملہ کریں گے اور آپ کو وہاں سے نیچے پھینک دیں گے۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ کیا آپ ان کی نشانیاں نہیں بتائیں گے تاکہ ہر قوم ان کے ساتھیوں کا سردار آپ کی طرف پہنچے آپ نے فرمایا نہیں بلاشبہ میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ عرب کے لوگ آپس میں یہ گفتگو کریں کہ محمد ﷺ نے اپنی قوم کے قاتل ہیں۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو ان پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ تو وہ ان کے قتل کا بھی حکم فرمائے گا۔ پھر یہ فرمایا اے اللہ دبیلہ کے ساتھ ان پر تیر پھینک دے ہم نے کہا یا رسول اللہ ﷺ دبیلہ کیا چیز ہے آپ نے فرمایا شعلہ آگ میں سے رکھا جائے ان میں ہر ایک کے دل کی رگ پر اور وہ اس کو ہلاک کردے گا۔ 17:۔ ابن ابی حاتم وابولشیخ رحمہا اللہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وھموا بما لم ینالوا “ فرمایا کہ ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ عبداللہ بن ابی کو تاج پہنائیں گے اگرچہ محمد ﷺ راضی بھی ہوں۔ 18۔ ابو الشیخ (رح) نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وھموا بما لم ینالوا “ یعنی ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ عبداللہ بن ابی کو تاج پہنائیں گے۔ 19:۔ عبدالرزاق سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن مردویہ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ بنوعدی بن کعب کے غلام نے انصار میں سے ایک آدمی کو قتل کردیا تو نبی کریم ﷺ نے بارہ ہزار دیت کا فیصلہ فرمایا اس بارے میں (یہ آیت) ” وما نقموا الا ان اغنہم اللہ ورسولہ من فضلہ “ نازل ہوئی۔ 20:۔ ابن ماجہ وابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک آدمی قتل کردیا گیا تو آپ نے اس کی دیت کے لئے بارہ ہزار مقرر فرما دیئے اسی کو فرمایا ”( آیت) ” وما نقموا الا ان اغنہم اللہ ورسولہ من فضلہ “ یعنی دیت کے سبب ان کو غنی کردیا۔ 21:۔ عبدبن حمید وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت) ” وما نقموا الا ان اغنہم اللہ ورسولہ من فضلہ “ کے بارے میں فرمایا اس کے لئے دیت حالانکہ وہ اس پر غالب تھا تو رسول اللہ ﷺ اس کے لئے دیت کا فیصلہ فرمایا۔ 22:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عروہ ؓ سے روایت کیا کہ جلاس بوجھ اٹھاتا تھا یا اس پر قرضہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف سے ادا فرمادیا اس کے بارے میں فرمایا (آیت) ” وما نقموا الا ان اغنہم اللہ ورسولہ من فضلہ “ کے بارے میں 23:۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ پھر ان کو توبہ کی طرف بلایا اور فرمایا (آیت) ” فان یتوبوا یک خیرالہم۔ وان یتولوا یعذبہم اللہ عذابا الیما فی الدنیا والاخرۃ “ (اس آیت میں) دنیا کا عذاب ہے قتل ہونا آخرت کا عذاب دوزخ کی آگ ہے۔ 24:۔ ابو الشیخ (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک قوم نے جب ان کے ساتھ برائی کا وعدہ کیا یا ایک کام کا ارادہ کیا تو چاہیے کہ وہ کھڑے ہوجائیں اور چاہئے کہ وہ لوگ استغفار کریں لیکن کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا آپ نے تین بار فرمایا آپ نے فرمایا اے فلانے کھڑے ہوجاؤ اے فلانے کھڑے ہوجاؤ تب انہوں نے عرض کیا ہم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم البتہ میں تم کو بلاتا ہوں توبہ کی طرف اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تمہاری طرف بہت جلدی کرنے والے ہیں اور میں تمہارے لئے بہت ہی پسند کرتا ہوں استغفار کو (اس لئے) نکل جاؤ (توبہ کے لئے ) 25:۔ ابو الشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو ابن عباس نے فرمایا ہر چیز مجھ سے حفظ کرلو قرآن میں سے (اس لئے) (آیت) ” ومالہم فی الارض من ولی ولا نصیر “ یعنی ان کے لئے زمین میں کوئی دوست اور کوئی مدد کرنے والا نہیں یعنی مشرکین کے لئے لیکن ایمان والوں کے لئے ان کی بہت سفارش کرنے والے ہیں اور بہت ان کے مدد کرنے والے ہیں۔
Top