Fi-Zilal-al-Quran - An-Naml : 109
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِ : قوم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : علم والا (ماہر
اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ " یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے "
فرعون اور اس کا ٹولہ اس قدر بیوقوف نہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان اور مطالبے کے نتائج سے با خبر نہ ہو بلکہ وہ واضح طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان کو سمجھ جاتے ہیں اور اس کا اعلان کردیتے ہیں۔ لیکن اس انداز میں کہ لوگوں کی نظریں حضرت موسیٰ کے معجزانہ دلائل سے پھرجائیں۔ چناچہ فرعوان اور اس کے ٹولے نے حضرت موسیٰ پر یہ الزام لگایا کہ وہ ایک عظیم جادوگر ہیں۔ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۔ يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ۚ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ۔ اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ " یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے " تمہیں تمہاری زمین سے بےدخل کرنا چاہتا ہے۔ اب کہو کیا کہتے ہو ؟ "۔ وہ چلا چلا کر کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے جو دعوی کیا ہے وہ کس قدر دور رس نتائج کا حامل ہے اور کس قدر خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہمیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے ، حکومت چھیننا اس کا مطلب ہے۔ وہ ہمارے نظام حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے بلکہ وہ انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔ دور جدید میں اسے یہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمین اللہ کی ہے ، عوام الناس اللہ کے پیدا کردہ ہیں ، اگر اللہ کی سرزمین پر اللہ کے بندوں پر حکومت بھی اللہ کی قائم ہوجائے تو وہ تمام طاغوتی حکمرانیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں جو اللہ کی شریعت کے برعکس قائم ہوں۔ اور ان لوگوں کا اقتدار خود بخود ختم ہوجاتا ہے جو از خود لوگوں کے خدا بنے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کا اقتدار بھی خود بخود ختم ہوجاتا ہے جنہیں ان طاغوتی حکمرانوں نے صاحب منصب اور اہلکار بنا رکھا ہے۔ اس طرح فرعون اور اس کے ٹولے نے معلوم کرلیا کہ حضرت موسیٰ کی دعوت کس قدر خطرناک ہے۔ اور یہی بات تمام طاغوتی قوتیں ہر دور میں اچھی طرح جان لیتی ہیں۔ ایک عرب نے اپنے فطری فہم و ادراک کی اساس پر یہ کہا کہ حضور ﷺ جو لوگوں کو (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی دعوت دیتے ہیں یہ ایک ایسی دعوت ہے جسے بادشاہ پسند نہیں کرتے۔ اور ایک دوسرے عرب دانشور نے اپنی فطری معاملہ فہمی کی اساس پر یہ کہا اگر تم نے اس دعوت کو جاری رکھا تو عرب و عجم تمہارے ساتھ برسر پیکار ہوجائیں گے۔ یہ دونوں عرب دانشور در اصل عربی زبان کے مفاہم کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ (لا الہ الا اللہ) کا اعلان حکمرانوں کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ کیونکہ وہ عربی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ جانتے کہ ایک دل میں ایک سرزمین پر کلمہ طیبہ کی شہادت اور پھر غیر اللہ کی اور خلاف شریعت حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔ اس وقت کے عرب کلمہ شہادت کو اس طرح نہ سمجھتے تھے جس طرح آج کے نام نہاد مسلمان اسے سمجھتے ہیں۔ آج کے لوگوں کا مفہوم کلمہ شہادت بہت ہی ناقص ، کم درجے کا اور کمزور درجے کا ہے۔
Top