Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 97
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً١ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَنْ : جو۔ جس عَمِلَ : عمل کیا صَالِحًا : کوئی نیک مِّنْ ذَكَرٍ : مرد ہو اَوْ : یا اُنْثٰى : عورت وَهُوَ : جبکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَلَنُحْيِيَنَّهٗ : تو ہم اسے ضرور زندگی دیں گے حَيٰوةً : زندگی طَيِّبَةً : پاکیزہ وَ : اور لَنَجْزِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں دیں گے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہت بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے
چناچہ اس آیت سے درج ذیل اصول وضع ہوتے ہیں : (1) جزاء و سزا میں انسان کے دونوں جنس مرد اور عورت ایک ہی حکم رکھتے ہیں۔ دونوں اس معاملے میں بالکل مساوی ہیں اور دونوں کی سزا وجزاء برابر ہے۔ اللہ کے ہاں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ لفظ (من) اگرچہ مرد اور عورت دونوں کے لئے آتا ہے لیکن من ذکر اونثی (61 : 79) ” کا لفظ زیادہ تاکید اور وضاحت کے لئے اضافہ کردیا۔ اس سورة میں اس لفظ کو بالخصوص اس لئے بھی لایا گیا کہ اس میں عورت کے بارے میں اہل جاہلیت کے برے خیالات کی تردید بھی کی گئی تھی۔ مثلاً یہ کہ عورتوں کے بارے میں اس سوسائٹی کی رائے اچھی نہ تھی اور جس شخص کو یہ خبر ملتی کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو وہ بدررنگ ہوجاتا اور لوگوں سے چھپتا پھرتا۔ پریشانی ، شرمندگی اور عار میں مبتلا ہوتا۔ (2) ہر عمل کے لئے کسی اساس کا ہونا ضروری ہے۔ اسلام میں اعمال کے لئے ایک ہی اساس ہے ، وہ یہ کہ وھو مومن (61 : 79) ” بشرطیکہ وہ مومن ہو “ یہ ایمان کسی بھی اخلاقی عمارت کے لئے ایک پختہ اساس ہے ، اس کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔ اس کے بغیر اعمال یونہی ہوں گے جس طرح ریت کا ڈھیر کہ جب اسے کوئی سخت آندھی لے تو ہوا میں بکھر جائے۔ عقیدہ اور نظریہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ اعمال کی تاریں جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر اعمال کے تارو پود ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جاتے ہیں۔ عقیدہ اعمال صالحہ کا سبب بنتا ہے اور ان کو مقصدیت عطا کرتا ہے۔ عقیدہ اور نظریہ اعمال خیر یہ کو ایک ایسی اساس عطا کرتا ہے جس کی اوپر وہ سب ٹھہرے ہوتے ہیں ، مضبوط ہوتے ہیں۔ ان میں عارضی پن اور تزلزل نہیں ہوتا اور نہ مفادات اور خواہشات کے مطابق بدلتے رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر اعمال صالحہ ایمان کی اساس پر استوار ہوں تو نتائج یہ ہوں گے کہ ایسے لوگوں کو اس جہاں میں بھی حیات طیبہ عطا ہوگی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ حیات عیاشی ، خوشحالی اور دولتمندی کی زندگی ہو ، کبھی یہ بھی ہوگا کہ ایک مومن کو یہ چیزیں بھی دستیاب ہوں گی۔ اور کبھی نہ ہوں گے۔ لیکن یاد رہے کہ بعض اوقات بقدر کفایت مال کے ساتھ بھی انسان کی زندگی نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ گزرتی ہے بشرطیکہ تعلق باللہ قائم ہو ، اطمینان قلبی نصیب ہو اور اللہ پر بھروسہ اور اللہ کی رضا حاصل ہو۔ انسان کو جسمانی صحت نصیب ہو ، اس کی خواہشات میں ٹھہرائو اور اس کی ہر چیز میں برکت ہو۔ گھر کا ماحول اچھا ہو ، اور افراد خانہ کے دلوں میں محبت ہو۔ ماحول ایسا ہو کہ اس میں اعمال صالحہ ہو رہے ہوں اور ان اعمال کی وجہ سے ہر طرف زندگی میں طمانیت اور ضمیر میں سکون ہو۔ مال تو امن و سکون کا ایک معمولی عنصر ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مال بقدر کفایت ہو ورنہ وبال بن جاتا ہے۔ لیکن یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے کہ انسان کا دل پاکیزہ ، برگزیدہ اور اعلیٰ مقاصد کے ساتھ لگا ہوا ہے کہ جو اللہ کے ہاں قیمتی ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا کی حیات طیبہ آخرت کے اجر میں کوئی کمی نہیں لاتی۔ آخرت کا اجر تو ان اچھے اعمال پر ہوگا جو اہل دین نے سرانجام دئیے اور باحسن ما کانوا یعملون (61 : 79) ” سے ضمناً یہ بات نکلتی ہے کہ برے اعمال قلم زدہوجائیں گے۔ کیا اچھا سلوک ہے اور کس قدر کرم نوازی ہے ذات باری کی۔ جس کتاب کے ذریعہ مذکورہ بالا تعلیمات دی گئیں اب اس کتاب کے بارے میں چند کلمات اس کے ، آداب تلاوت اور اس کے بارے میں مشرکین کے تبصروں پر تنقید۔
Top