Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 52
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ سے وَقَوْمِهٖ : اور اپنی قوم مَا هٰذِهِ : کیا ہیں یہ التَّمَاثِيْلُ : مورتیاں الَّتِيْٓ : جو کہ اَنْتُمْ : تم لَهَا : ان کے لیے عٰكِفُوْنَ : جمے بیٹھے ہو
یاد کرو وہ موقع جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ” یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو ؟
اذ قال۔۔۔۔۔۔۔۔ عکفون (25) ” “ ان کی یہ بات ہی ان کے رشد و ہدایت کی دلیل ہے۔ آپ نے ان پتھروں اور لکڑیوں اور دوسرے مواد کے لیے بڑا صحیح لفظ استعمال کیا یعنی مورتیاں ‘ تماثیل۔ ان کو انہوں نے الہٰ نہ کہا اور اس بات پر سخت گرفت کی کہ تم لوگ بڑی چاہت سے ان کی پرستش کرتے ہو ‘ عاکف کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلسل انکے ساتھ جھکے ہوئے رہتے تھے ‘ حالانکہ وہ دوسرے کام بھی کرتے ہوں گے لیکن ان کے دل ان بتوں ہی کے ساتھ تھے۔ اس لیے مصنوعی طور پر گویا وہ ان کے آگے مسلسل جھکے ہوئے تھے۔ اس لیے تعبیر ان الفاظ میں کی گئی کہ تم رات دن ان کے آگے جھکے ہوئے ہو۔
Top