Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 36
وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ١ۖۗ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ١ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَ : اور الْبُدْنَ : قربانی کے اونٹ جَعَلْنٰهَا : ہم نے مقرر کیے لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے شَعَآئِرِ اللّٰهِ : شعائر اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں خَيْرٌ : بھلائی فَاذْكُرُوا : پس لو تم اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهَا : ان پر صَوَآفَّ : قطار باندھ کر فَاِذَا : پھر جب وَجَبَتْ : گرجائیں جُنُوْبُهَا : ان کے پہلو فَكُلُوْا : تو کھاؤ مِنْهَا : ان سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْقَانِعَ : سوال نہ کرنے والے وَالْمُعْتَرَّ : اور سوال کرنے والے كَذٰلِكَ : اسی طرح سَخَّرْنٰهَا : ہم نے انہیں مسخر کیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور (قربانی کے ) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ، تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے ، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان میں سے خود بھی کھائو اور ان کو بھی کھلائو جو قناعت کئے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لئے سخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو
والبدن جعلنھا ……وبشر المحسنین (37) یہاں قربانی کے جانوروں میں سے صرف اونٹ کا ذکر کیا جاتا ہے ، اس لئے کہ یہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کا قربانی میں ذبح کیا جانا تمہارے لئے مفید ہے۔ جب زندہ ہو تب بھی مفید ہے کہ تم اس پر سوار ہوتے ہو اور اس کا دودھ دوہتے ہو اور جب ذبح کردیا جائے تو بھی تم گوشت کھاتے ہو ، لہٰذا اس ” خیر “ کو ذبح کرتے وقت تمہارا فرض بنتا ہے کہ اس پر اللہ کا نام لو۔ جب اسے ذبح کے لئے تیار کیا جا رہا ہو تو بھی اس پر اللہ کا نام لو ، جب وہ صف کی شکل میں کھڑے ہوں۔ فاذکروا اسم اللہ علیھما صواف (22 : 36) ” پس ان پر اللہ کا نام لو جب وہ صف میں ہوں۔ “ اونٹوں کو اس طرح ذبح کیا جاتا ہے کہ وہ تین پائوں پر کھڑے ہوں اور ایک پائوں باندھا ہوا ہو اور جب وہ ذبح کے بعد گر جائیں اور ان کی پیٹھ زمین پر ٹک جائے تو پھر تم ان سے کھانا چاہو تو کھائو اور ان کا گوشت اس فقیر کو بھی کھلائو جو سوال نہیں کرتا اور اس کو بھی کھلائو جو سوال کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے ان کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ لوگ اس ” خیر “ پر خدا کا شکر ادا کریں جو ان میں لوگوں کے لئے ہے۔ زندگی میں بھی اور ذبح ہونے کے بعد بھی۔ کذلک سخرنھا لکم لعلکم تشکرون (22 : 36) ” ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ “ تمہیں جو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرو تو اس کا مقصد ہے لن ینال اللہ لحومھا و لادماوھا (22 : 38) ” نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا یہع نہ خون “۔ خون اور گوشت تو لالہ تک نہیں پہنچتا ، نہ اللہ کو ضرورت ہے ، اللہ کو مطلوب جذبہ خدا خوفی ہے۔ اس لئے مشرکین مکہ کی یہ حرکت کہ وہ جانوروں کو ذبح کر کے خون لے جا کر بتوں پر ملتے تھے محض ایک سوقیانہ حرکت ہے۔ اللہ اس سے بےنیاز ہے۔ کذلک سخرھا لکم لتکبروا اللہ علی ماھدکم (22 : 38) ” اس نے ان کو تمہارے لئے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر اس کی تکبیر کرو۔ “ اس نے تمہیں عقیدہ توحید کی ہدایت کی ہے۔ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ہدایت کی ہے ، اللہ اور بندے کے درمیان حقیقی تعلق کے قیام کی ہدایت کی ہے اور اپنے اعمال کو صحیح سمت دینے کی ہدایت کی ہے۔ وبشر المسنین (22 : 38) ” اور بشارت دے نیکو کاروں کو۔ “ جن کا تصور بھی حسین ہے جن کا شعور بھی حسین ہے ، جن کی عبادت بھی پر احسان ہے اور اللہ کے ساتھ جن کا ربط بھی خدا خوفی کا ہے۔ یوں ایک مسلم کا ہر قدم ، اس کی ہر حرکت اور اس کی ہر سوچ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اس میں ذات باری کو پیش نظر رکھتا ہے اس میں اس کا دل خوف خدا سے لبالب ہوتا ہے اور وہ ہر کام میں رضائے الٰہی کا طلبگار ہوتا ہے۔ غرض اس کی پوری زندگی اس مقصد کو پورا کر رہی ہوتی ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اور دنیا میں بھی اس کی زندگی صحت مند اور مفید اور اس کی غایت کی شاخیں آسمانوں پر ہوتی ہیں۔ اسلام کے یہ شعائر اور مناسک مقرر ہیں۔ عبادات اور عبادات کے مقامات متعین کئے گئے ہیں اور ان کا احترام ضروری قرار دیا گیا ہے ، اس لئے ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو ان شعائر کا احترام قائم کرے۔ آزادی فکر و نظر کے حق کو قائم کرے اور ہر شخص کے لئے ایسے مواقع پیدا کرے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کی پرستش کرسکے۔ نیز مقامات عبادات کے تقدس کو بھی قائم رکھ سکے۔ نیز یہ ممکن بنایا جاسکے کہ مومنین ، عابدین اور عمل صالح کرنے الے نیک لوگ اپنے نظریہ حیات کے مطابق نظام زندگی قائم کرسکیں جس کا ایک طرف سے رابطہ اللہ تعالیٰ سے ہو اور دوسری جانب سے وہ نظام اس دنیا کے تمام انسانوں کے لئے موجب خیر و برکت ہو۔ غرض دنیا و آخرت کی بھلائی کا ضامن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ اب اللہ کی راہ میں ہتھیار اٹھا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی ملت کی مدافعت کرسکیں ، اپنے نظریہ اور عقیدہ کی مدافعت کرسکیں ، اگر کوئی دشمن ان کے علاقے پر حملہ آور ہو تو اس کا دفاع کرسکیں کیونکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اپنی انتہا کو پنچ گئے ہیں۔ اس قتال کا مقصد وحید صرف یہ ہے کہ لوگوں کے لئے بشمول اہل اسلام عقائد و نظریات کی آزادی قائم ہو سکے۔ اللہ کے دین کے نظام کے اندر ، اللہ کی نصرت کا وعدہ حقیقت کا روپ اختیار کرسکے اور وہ دین اسلام اور نظام اسلام کے وہ فرائض اد اکر سکیں جن کا ذکر ذیل کی آیات میں آیات ہے۔
Top